زن، زمین اور زر: ظلم کی ایک داستان


آج میں جو آرٹیکل لکھ رہی ہوں یہ اس وقت موجودہ حالات پر مبنی ہے، میں ان زمینی خداؤں کے بارے میں لکھ رہی ہوں جنہوں نے اللہ کی زمین کو اپنی زمین سمجھ لیا ہے اور زمینی خدا بن کر یہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے شاید کبھی نہیں مرنا، شاید کبھی اس زمین میں نہیں جانا۔ انہیں قیامت تک زندہ رہنا ہے، اللہ کو منہ نہیں دکھانا، اللہ کے حضور پیش نہیں ہونا لیکن وہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر اللہ کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور ایسے سرکشوں کو نیست و نابود کر دیتی ہے کہ ظالم کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

ایک ایسی ہی ظلم کی داستان کے بارے میں مجھے پتہ چلا تو میں قلم اٹھانے پر مجبور ہو گئی ہوں۔ ویسے تو پوری دنیا میں جو طاقت ور ہے وہ اپنے سے کمتر اور غریب کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے اور زور زبردستی سے اس کا مال و متاع حاصل کر کے سمجھتا ہے کہ اس نے گویا دنیا ہی فتح کر لی ہے۔ گارڈن ٹاؤن ملتان میں ایک رئیس مرحوم کا رقبہ ہے جو شاید 48 کنال پر مشتمل ہے۔ ، دوسری شادی سے ان کے چار بچے ہیں، اب میں اصل بات کی طرف آتی ہوں جس مقصد کے لیے میں نے یہ کالم لکھا ہے۔

گارڈن ٹاؤن میں واقع اپنے رقبے کا کچھ حصہ مرحوم نے ایک ڈیلر ج کو 2000 ءمیں اپنا مختار خاص بنایا اور اسے زمینیں فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ ڈیلر نے زمینیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ زیادہ تر غریب لوگوں نے اس سے قسطوں پر پلاٹ لیے اور گھر تعمیر کرنے شروع کر دیے، وہاں کچھ غریب لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے ڈیلر سے نقدی پر پلاٹ خریدے اور اپنی جمع پونجی لگا کر سر ڈھانپنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گھر بنا لیے، اپنے زور پر بجلی لگوائی، گیس لگوائی، گلیاں بنوائیں، اور رہائش پذیر ہوئے۔

کچھ ہی سالوں کے بعد ڈیلرز اور با اثر مالک کے درمیان معاہدے کے بارے میں پھوٹ پڑ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر کیس کر دیا پھر دیوانی کیس شروع ہو گیا۔ سابقہ مالک نے رقبے پر اپنے بدمعاش ٹائپ بندے بٹھا دیے جو ڈیلر کی کوٹھی کی دیوار پر فائرنگ کرتے تھے، وہاں رہنے والے لوگ ان بدمعاشوں کی وجہ سے ہراساں اور پریشان رہتے تھے خیر یہ سلسلہ چلتا رہا اور میری معلومات کے مطابق یہ کیس ابھی لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے بعد اس کیس کو سپریم کورٹ جانا ہے پھر فیصلہ ہونا ہے۔

یعنی وہ رقبہ ابھی تک کسی کے نام بھی نہیں ہے، ایک ماہ پہلے ہی مرحوم کی تین بیٹیاں رقبے میں گئیں، مبینہ طور پر دھونس دھمکی کے بعد تمام رجسٹریوں کو بوگس قرار دیا کہ ہم نے مختیار خاص ڈیلر سے واپس لے لیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر عدالت نے کیسے رجسٹر کر دیں زمینیں اور وہ خواتین کوئی عدالتی نوٹس کیوں نہیں لاتیں تاکہ مجھ جیسوں کو سچ کا علم ہو۔ ایک صاحب نے پولیس سے رابطہ کیا تو ان کی ایسی درگت بنائی کہ باقیوں کو عبرت ہوئی۔

میری معلومات کے مطابق ایک بیٹی سرکاری افسر ہے اور اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ دوسری بہن ایک وکیل کی بیوی ہے اور تیسری کا شوہر بھی شاید گورنمنٹ میں ہے۔ ان تینوں بہنوں نے رقبے پر جا کر لوگوں سے کہا کہ آپ سب لوگ ناجائز بیٹھے ہیں، جس نے ڈیلر سے زمین خریدی ہے وہ اسے جا کر پکڑے یہ ہمارا رقبہ ہے خالی کر دیں، انہوں نے لوگوں کو ایک مہینے کا ٹائم دیا، لوگوں کو ہراساں کیا، بچوں کو مارا پیٹا، جن کے پاس رجسٹریاں اور فرد ملکیت ہے انہیں بھی ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں کہ وہ اپنے ملبے اکھاڑیں اور یہاں سے چلے جائیں، ہم نہ ہی رجسٹریاں مانتے ہیں اور نہ ہی فرد ملکیت۔ یہ سب جعلی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اور تو اور سرکاری دھونس پر وہاں لوگوں کے بجلی کے میٹر کٹوا دیے گئے، پورے رقبے پر جہاں جہاں گلیاں لگتی تھیں وہ بھی بند کروا دیں۔ وہاں رہنے والے لوگ بے حد پریشان ہیں۔ یوں لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور وہ سب غریب بے چارے جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اپنے مکانوں پر لگا دی ہے۔ علاوہ ازیں ایک بہن کینسر کی مریضہ ہے، دوسری بہن کا ایک بیٹا کرنٹ سے اللہ کو پیارا ہو چکا ہے، ان کی ماں کو گھر کے پالتو کتے نے کاٹ لیا تھا۔

جن غریب لوگوں کو اس نے اٹھایا ہے ان سے زمین واپس لی ہے وہ بے چارے بے گھر ہو چکے ہیں کوئی کہاں گیا ہے تو کوئی کدھر، کئی لوگوں نے تو اپنی دکانیں تک بیچ دی ہیں بچے سردی میں سوتے ہیں، سکولوں سے اٹھا لیا گیا ہے،=۔

سوچنے کی بات ہے۔ ہم لوگ زمینوں کے لیے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ یہ بھول گئے ہیں کہ ہم انسانوں نے بھی اسی زمین میں ہی جانا ہے جس کی خاطر ہم ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں جس پر ہم اپنی ملکیت ظاہر کر رہے ہیں۔ زمین کا اصل مالک تو رب کائنات ہے، اگر اس نے کسی کو صاحب حیثیت بنایا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر کسی سے اس کا حق نہ چھینے اور اس پر ظلم نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے ظلم کی وجہ سے رب کائنات ناراض ہو جائے اور اس سے بھی وہ سب چھین لے جس پر وہ اپنا تسلط جما رہا ہے۔ جب کسی غریب کے سر سے زور زبردستی سے چھت چھین لی جائے تو اس پر کیا بیتے گی؟ یہ الفاظ لکھتے ہوئے میرا قلم لرز اٹھا ہے۔

میں ان لوگوں کو پیغام دینا چاہوں گی کہ خدارا اپنے رب کو ناراض نہ کریں، سب جانتے ہیں کہ غریب اور بے بس کی آہ آسمان کو چیر دیتی ہے اور اللہ کو جلال آ جاتا ہے۔ اللہ غریب کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو جائے جس سے بعد میں آپ کو پچھتانا پڑے۔ لیکن کہتے ہیں کہ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ بعد کے پچھتانے سے بہتر ہے کہ انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جس سے اللہ بھی ان سے راضی ہو جائے اور اس کا رسول ﷺ بھی۔

آخر میں، میں ارباب اختیار کی توجہ اس رقبے کی طرف دلوانا چاہوں گی کہ خدا کے لیے آپ لوگ ان غریبوں کے لیے کچھ کریں، ان کو طاقت ور کے ظلم سے بچائیں، انہیں تحفظ فراہم کریں اور انصاف کا بول بالا کریں۔ عوام کی حفاظت کرنا اور انہیں ظالم کے شر سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے اور امید ہے ریاست یہ ذمہ داری پوری کرے گی۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments