جان کی امان پاؤں، تو عرض کروں!


ملک کی دن بدن بدلتی صورتحال عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سیاست شطرنج کی شاطر بازی کی بجائے لڈو کی بازی لگ رہی ہے جس میں کھیلنے والے روز ایک دوسرے کی گوٹی مارنے پر خوش ہوتے ہیں۔ ایک گوٹی کو گھر بھیجتے ہیں تو اگلی چال سے پہلے گوٹی باہر آ جاتی ہے۔ کہاں گئے وہ سب گھاگ سیاستدان؟ کہاں گئی اڑتی چڑیا کے پر بھی گن لینے والی اسٹیبلشمنٹ؟ کہاں گئی ہماری وہ نمبر ون ایجنسیز؟

اوہ! یاد آیا! وہ تو اب سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ مشرف کے غیر آئینی اقتدار کے اختتام پہ فیصلہ کیا کہ اب سیاست سے دور رہیں گے۔ اس کے بعد آنے والے ہر چیف نے اپنا حصہ ڈال لینے کے بعد کہا ”فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں“ ۔ اور ہم بحیثیت عوام ان کی ہر بات پر دل و جان سے ”جی حضور!“ کہتے رہے۔ اور ہمیشہ کہتے رہتے اگر عوام کے سامنے یہ نا کہا جاتا کہ ”سازش نہیں ہوئی، مداخلت ہوئی ہے۔“

اس دن ایک نیند سے جاگے ہیں جیسے۔ ایک ہپناٹزم سے اچانک بیدار ہو گئے جیسے۔ دل و دماغ میں سوالوں کی بوچھاڑ ہو گئی ہو جیسے۔ کیا واقعی آپ نے اسے 80 یا 90 کی دہائی ہی سمجھا تھا؟ جب عوام کو سوال کرنے کا شعور ہی نا تھا۔ ایک سوال جو پوچھنے کی میری پہنچ نہیں، اسے یہاں لکھ دینا آسان ہے، شاید کوئی صاحب عقل مجھ نا عقل کو سمجھا دے کہ حضور! سازش تو نہیں پر ”مداخلت“ آپ کو منظور ہوئی تو کیونکر ہوئی؟ آپ کو سازش تو منظور نا تھی لیکن ”مداخلت“ منظور تھی؟

ہم تو مغرور تھے کہ ہماری ایجنسی دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے جو امریکہ جیسے ملک کو بھی مدد دیتی ہے، اسے مداخلت کیسے برداشت ہوئی؟ اس نے منہ توڑ جواب کیوں نا دیا؟ اب بتائیے! سوال، جواب نا دیے جانے پر اٹھاتے یا نمبر ون ہونے کے دعوے پر اٹھاتے؟ سوال کوئی بھی ہوتا، سبکی تو ہماری ہی ہوئی، شرمندگی تو ہماری ہی ہوئی، ”ہار“ تو ہماری ہی ہوئی۔

دعوی تو یہ بھی ہے کہ ہمارا کام صرف سرحدوں کی حفاظت ہے، ملک میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔ دعوی تو یہ بھی غلط ثابت ہو رہا ہے۔ ورنہ بارود سے بھرے ٹرک اسلام آباد کی حدود کراس نا کرتے۔ دہشت گردی کی نئی اٹھتی ہوئی لہر کبھی بند نا توڑتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اہم آج کل کسی کی کردار کشی ہے، کسی کو بے لباس کیا جانا ہے، کسی کی ویڈیوز اور آڈیوز بنا لینا ہے۔ یہ کس طرف چل پڑے ہیں ہم؟ کیا اخلاقیات کی پستی کی بھی کوئی حد ہے؟

خدارا کوئی وہ حد مقرر کر دے! ہم اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑ کر جائیں گے؟ ہم ”مطالعہ پاکستان“ کی کتابوں میں اس کی وضاحت کیسے دیں گے؟ کس منہ سے اخلاقیات کا درس دیں گے؟ اسے روکیے خدارا! جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ سیدھا سیدھا اسٹیبلشمنٹ سے مخاطب ہوتی ہوں، آپ کی کیلکولیشنز غلط ہو گئی ہیں۔ انہیں ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ ایک بگڑی ہوئی خراب فصل کاٹنا پڑے گی جو آپ کے نام کو ایک ”گالی“ بنا دے گی۔ پھر گلہ نا کیجیئے گا کیونکہ اس کا بیج آپ نے خود بویا ہے۔

جان کی امان ہوتی ہے یا نہیں، پتا نہیں، لیکن عرض میں نے کر دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments