ملک شدید، انتہائی، نازک، نہایت، مشکل ترین دور سے دوڑ رہا ہے


ملک پچھلے 75 سالوں کی طرح اتفاق اور نفاق سے ابھی بھی نازک دور سے گزر رہا ہے، اتنا نازک دور اگر کسی پر آتا تو نہ جانے وہ کہاں غائب ہو چکا ہوتا مگر جسے اللہ رکھ اس کون چکھے۔ اس نازک دور کو برقرار رکھنے کے لئے سب نے مل کر دامے، درہمے، سخنے حصہ ڈالا ہے اور اس نازک پن میں سب برابر کے شریک یعنی پارٹنر ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ اس دور کو برقرار رکھنے والے اس چیز کا کریڈٹ نہیں لیتے۔

ملک 75 سال کا ہو گیا ہے مگر بڑا نہیں ہو پا رہا، گویا جیسے صرف جسم کی بڑھوتری ہوئی ہے البتہ دل مزید چھوٹا اور دماغ نے بڑھنا چھوڑ دیا ہے، بلکہ یاد آیا ہمارا تو جسم بھی نفرت کی فراسٹ بائٹ کا شکار ہو کر ہم سے کٹ گیا ہے۔ ملک کو چلانے والے آئے، امیر ہوئے، بہت امیر ہوئے، شدید امیر ہوئے اور ملک کو مزید نقصان میں دھکیل دیا، اور باعزت طریقے سے ملک سے باہر پدھار گئے۔ ان سب پدھارنے والوں میں ایک چیز کامن تھی کے کسی میں شرم نہ تھی۔

خیر، ماضی کی پھر تکرار کرتے ہیں : ملک ایک بار پھر مشکل میں ہے۔ ویسے سوال یہ کہ مشکل سے نکلا کب تھا؟ اس کو یوں کہہ دیتے ہیں ملک پہلی بار شدید مشکل میں ہے مگر یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ شدید مشکل میں پہلا بھی تھا۔ میرے خیال سے اس کو یوں کہنا چاہیے، ملک شدید، انتہائی، نازک، نہایت، حد درجہ، بہت، بے حد، مشکل، مشکل ترین دور سے دوڑتے ہوئے گزر رہا ہے۔ اتنی تیزی سے دوڑ رہا ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ اس تباہی و تنزلی کی رفتار کو کم کیسے کیا جائے؟

غور کریں، ذرا مشکلات کو سونگھے، اور آنکھیں کھلی رکھیں۔ دہشت گردی واپس پلٹ آئی ہے اور کافی زور سے آئی ہے وہ الگ بات ہے کہ جب تک اسلام آباد میں بلاسٹ نہ ہوا تھا اس وقت تک ہمیں یقین نہ تھا۔ قبائلی علاقوں میں خوف کا عالم دوبارہ چھا گیا ہے، قتل و غارت گری پھر شروع ہو گئی ہے، مگر اس پر تفصیلی اور تسلی بخش تسلی کوئی نہیں دے رہا، خیر سے کوئی جھوٹے منہ بھی تفصیلی نہیں دے رہا۔

اسی طرح معاشی صورتحال آپ لوگوں کے سامنے ہیں، ڈالرز کے درجات ہو یا گولڈ کے دونوں ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند ہو رہے ہیں بلکہ اکثر تو دن بھی نہیں گزرتا، اور ان دونوں کے درجات بلند ہو جاتے اور اگر کوئی مسلسل پستی کی جانب گامزن ہے تو وہ یا تو حکمران طبقہ ہے یا پھر پاکستانی روپے کی قدر۔

پہلے پہل تو گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی اور سردیوں میں گیس کی۔ مگر اب موسموں اور لوڈشیڈنگ کی کوئی تفریق ہی نہ رہی۔ بجلی بل کے مطابق بھرپور ہے اور گیس بھی بل کے مطابق بھرپور ہے، مگر حقیقت میں دونوں صرف بل میں ہی مکمل ہے ورنہ گھروں میں ان کی آمد بہت قلیل اور مختصر مدت کی ہوتی ہے۔

لیکن ان سب کے دوران، ان مشکلات کے دوران، ان بحرانوں کے درمیان حکمرانوں کو کوئی بے چینی نہیں بلکہ بلا کا قرار ہے اور کوئی پلان نہیں جو ان معاملات سے نمٹنے کا ہو۔ ایک طرف آڈیوز کا شور ہے، دوسری طرف الیکشن کا، تیسری طرف استعفی اور چوتھی طرف عوام کی خاموش چیخیں، جو ان تینوں طرف کے شور میں دب گئی ہیں۔ جو آواز سننی چاہیے، جس پر کام ہونا چاہیے، جن کی آواز سب سے پہلے سنی جانی چاہیے وہ مسلسل رد کی جا رہی ہے۔ ایسا نہ ہوں یہ چیخیں، آواز سے رویوں میں ڈھل جائے اور پھر جذبات کے ساتھ سڑکوں پر بلند ہونا شروع ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر نازک دور مزید نازک تر ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments