محمود نظامی کا سفر نامہ ”نظر نامہ“


اردو سفر ناموں کی روایت یوسف حسین کمبل پوش کے سفر نامہ ”عجائبات فرنگ“ سے شروع ہوتی ہے۔ سرسید نے اپنے بیٹے کے ساتھ انگلینڈ کا سفر کیا تو اس سفر کی روداد ”مسافران لندن“ کے عنوان سے لکھی۔ اسی طرح مولانا جعفر تھانیسری کو انگریزی حاکموں کی طرف سے کالے پانی کی سزا سنائی گئی تو انھوں نے اس سفر کی روداد ”کالا پانی“ کے عنوان سے مرقوم کی۔ بیسویں صدی میں سفر نامے کی صنف پر پہلے سے زیادہ کام ہوا۔ اس صدی میں سر عبدالقادر کا سفر نامہ ”سیاحت نامہ یورپ“ نمایاں ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سفر نامے کو کافی فروغ ملا۔ اس دور کے لکھے جانے والے سفر ناموں میں محمود نظامی کا سفر نامہ ”نظر نامہ“ زیادہ معروف ہوا۔

محمود نظامی کو 1952 میں یونیسکو کے زیر اہتمام مختلف یورپی ممالک اور امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کا یہ سفر چھ ماہ پر مشتمل تھا۔ محمود نظامی اپنے سفر نامے کی وضاحت ”نظر نامہ“ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :یہ دستاویز آپ کو سفر نامے سے زیادہ مسافر نامہ نظر آئے گی کیونکہ اس میں مقامات کی تفصیل کی بجائے ”میں“ کے لفظ کی تکرار زیادہ ہے۔ دراصل یہ مجموعہ ان مضامین پر مشتمل ہے جن میں مقامات دیدہ کے متعلق میرے ذاتی تاثرات کا ذکر ہے۔ گویا یہ کتاب مصنف کی ذاتی آرا، یادوں اور پسند و نہ پسند پر مشتمل ایک مجموعہ ہے۔

”نظر نامہ“ اردو سفر نامے کی روایت میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پہلا سفر نامہ ہے جس میں سیاح نے جدید سفر نامے کی بنیاد رکھی۔ اور روایتی انداز سے ہٹ کر ایسی تحریر لکھی ہے جو معلومات سے زیادہ دل اور دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ سفر نامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس نے سفر ناموں کے رجحان کو بدل دیا۔ اچھا سفر نامہ لکھنے کے لیے بلند تخیل کی ساتھ فنی مہارت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ محمود نظامی کے پاس یہ دونوں چیزیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو سفر ناموں کی روایت میں نظر نامہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

مصنف نے جن شہروں کا سفر کیا وہاں کے موجودہ حقائق کو بیان کرنے کے ساتھ اس کے تاریخی حقائق کو بھی بیان کیا۔ اس سے ہمیں مصنف کی تاریخی واقعات سے دلچسپی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف جب قاہرہ میں داخل ہوا تو اپنے آپ کو ایک قدیم مسافر تصور کیا۔ جو رات کے وقت شہر کے قریب پہنچا تو شہر کے تمام دروازے بند تھے اور پھر صبح کے وقت شہر میں داخلے کی اجازت ملی۔ اسی طرح اپنے پہلے سفر نامے ”بازار مصر“ میں جب مصر گئے اور وہاں عجائب گھر کو دیکھا جہاں فرعونوں کا استعمال شدہ ساز و سامان پڑا تھا۔ تو فرعون کی بادشاہی، بربادی اور حضرت موسیٰ کی پیدائش و پرورش کا سارا واقعہ بیان کر دیا۔ اہرام مصر کو دیکھا تو اس کی موجودہ حالت بیان کرنے کے ساتھ اس کی تعمیر اور مزدوروں کی حالت زار کی خیالی تصویر پیش کر دی۔

محمود نظامی جن شہروں سے گزرے وہاں کی تہذیب اور ثقافت کو بھی نمایاں کیا۔ مختلف تہذیبوں کا احوال لکھا۔ مثلاً سفر نامہ ”بازار مصر“ میں مصریوں کی ایک قدیم رسم کا تذکرہ کیا جس سے ان کی تہذیب بھی واضح ہو جاتی ہے : قدیم مصریوں کے عقائد کی رو سے مرنے والے کی وہ تمام اشیا، جو اس کی ذاتی ملکیت ہوتیں اور جنھیں وہ بہت عزیز رکھتا میت کے ساتھ اس خیال سے دفن کر دی جاتی تھیں کہ موت کے بعد نئی زندگی میں متوفی کو ان کی ضرورت پیش آئے گی۔

محمود نظامی نے ان شہروں کی موجودہ صورت حال بیان کی اور پھر اس کا موازنہ مشرق سے کیا۔ اس کی پہلی مثال انھوں نے سفر نامہ ”بازار مصر“ میں دی ہے۔ کہتے ہیں : مغرب میں اگر کسی کنبے میں چار پانچ لڑکے ہوں تو جہاں ایک فوج میں، دوسرا سیاست میں اور تیسرا تجارت میں شامل ہونے کی تیاری کرتا ہے وہاں غالباً ایک پادری بننا بھی چاہے گا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں شاید ہی کوئی معقول گھرانا ایسا ہو گا جسے اپنی اولاد میں کسی کو مسجد کا پیش امام یا خطیب بنانے کی خواہش ہو۔ اسی طرح ”روم نامچہ“ میں مشرق اور مغرب کے طرز زندگی کا موازنہ اس طرح کرتے ہیں : مگر روم میں کوئی گلبرگ کالونی، کوئی جی۔ او۔ ار۔ اسٹیٹ، کوئی ایسا علاقہ متعین نہیں جو امرا کی رہائش یا افسروں کے قیام کے لیے مخصوص ہو، صدیوں سے اس شہر میں غریب اور امیر ایک دوسرے کے ہمسائے میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔

”نظر نامہ“ میں تخیل اور افسانہ کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کا زیادہ استعمال خود سفر نامے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بہرحال تاریخ کی آمیزش زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ ”نظر نامہ“ کو سفر نامہ کے علاوہ کوئی اور نام دینا درست نہ ہو گا۔ لیکن اس کے دیباچے میں خود محمود نظامی نے اسے سفر نامہ سے زیادہ ”تاثرات نامہ“ کہا ہے۔ ان کا مقصد صرف اپنے سفر کے حالات لکھنا نہیں تھا بلکہ تخیل کی آمیزش بھی اس میں شامل تھی۔

انھوں نے اپنے سفر کے دوران جن مقامات کو دیکھا ان کے متعلق اپنے تاثرات کو بیان کر دیا۔ اس کے ساتھ تخیل کی تمام تصاویر کو بھی پیش کر دیا۔ یہ عمل سب سے زیادہ وہاں نظر آتا ہے جہاں وہ مصر گھومنے پھرنے گئے اور 1952 کے مصر کی بجائے فرعونوں کے زمانے میں جا نکلے۔ اہرام مصر کو دیکھ کر اس کی تعمیر کے زمانے کو دکھانا تخیل کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تخیل کی کار فرمائیوں نے ”نظر نامہ“ کو کچھ بوجھل بھی بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments