نیلسن منڈیلا نے اجمل خٹک سے کیا کہا؟


یہ تو سب کو پتہ ہے کہ اجمل خٹک چودہ سالہ جلاوطنی کاٹ کر بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں واپس آ گئے تھے۔ پھر قومی اسمبلی کے ممبر بنے، سینیٹر بنے، اے این پی کے مرکزی صدر رہے اور بالآخر مشرف کے دور حکومت میں اے این پی سے اختلاف کی صورت میں پارٹی سے الگ ہو کر نیپ کو بحال کر کے پورے ملک میں قومی مفاہمت کی سیاسی تگ و دو شروع کی۔

اسی سلسلے میں اجمل خٹک کراچی آئے ہوئے تھے تو کراچی بار  نے بھی ان کو خطاب کے لئے مدعو کیا تھا۔ جس میں کئی باتوں کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بات بہت سچی، کھری، سیاسی اونچ نیچ کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی بھرپور تھی۔

اپنے خطاب کے دوران دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ جب اجمل خٹک اپنی جلا وطنی پر آئے تو اپنی جلا وطنی کے دنوں کا ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ نیلسن مینڈیلا سے ملنے جنوبی افریقہ گئے تو جب نیلسن منڈیلا کو پتہ چلا کہ میرے جلا وطنی کے چودہ سال بیت گئے ہیں تو انھوں نے مجھے کہا کہ پھر بھی ادھر انقلاب نہیں آیا۔ تو اجمل خٹک نے کہا کہ مجھے اپنے خطے کی سیاسی صورت حال کا اندازہ تھا تو میں لاجواب ہو گیا۔

لاجواب کیوں نہیں ہوتے اس لیے کہ ساؤتھ افریقہ اور ہمارے سیاسی چال چلن اور عوامی بالغ نظری کے ساتھ ساتھ سٹیٹ کرافٹ کی جوڑ جاڑ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

در اصل اپارتھائیڈ یا نسلی عصبیت جنوبی افریقہ میں ایک سیاسی نظام تھا جو بیسویں صدی میں 1948 سے 1994 تک نافذ رہا۔ 1948 میں افریقن نیشنل پارٹی اختیار میں آئی تو اپارٹھائیڈ یا نسلی عصبیت ریاست یا حکومت کا ایک سیاسی منصوبہ بن گیا اور اس کو قانون کا درجہ دیا گیا۔ اس نظام کے تحت جنوبی افریقہ کے لوگوں کو نسلی اعتبار سے چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا :۔ ایک سیاہ فام دوم انڈین سوم رنگ برنگے یا غیر سیاہ فام اور چہارم سفید فام۔

اگر چہ سیاہ فام لوگ ملک میں زیادہ تھے لیکن اس کے باوجود سفید فام لوگوں کی کم تر تعداد نے ان پر حکمرانی قائم کی۔ لاکھوں کی تعداد میں سیاہ فام کو گھروں سے نکالا گیا اور سفید فام شہروں اور قصبوں پر قابض ہو گئے۔ عوامی مقامات پر ان کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ سیاہ فام کو ووٹ اور سیاست میں حصہ لینے سے روکا گیا اور سیاہ فام کو نوکروں یا غلاموں کی طرح ڈیل کیا گیا جس سے سیاہ فاموں میں مزاحمت ابھر کر سامنے آئی اور سیاسی طور پر گروپ بن کر سامنے آئے اس مقصد کے لئے کہ ان چند سری اور ظالمانہ احکامات سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

مسلح جدوجہد بھی ہوئی، پکڑ دھکڑ مارا ماری کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ جنوبی افریقہ کو سیاسی طور پر ساری دنیا سے الگ کر دیا گیا۔ لیکن گلوبل سیاسی دباؤ کی وجہ سے 1994 میں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا اور سیاسی آزادی کے گروپس اور انجمنیں بحال ہوئی اور جنوبی افریقہ آئینی، سیاسی اور جمہوری طور پر غیر نسلی اور غیر عصبیت پر مبنی ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ اور جنوبی افریقہ سے یہ نسل پرست نظام ختم کر دیا گیا۔ اس نسل پرست حکومت کا آخری صدر فریڈرک ولیم ڈی کلارک تھے۔ اس حکومت کے خاتمے کے بعد سب سے پہلے غیر سیاہ فام صدر نیلسن مینڈیلا بنے جو اٹھائیس سالہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر افریقن نیشنل پارٹی کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے اور ان کاوشوں کی بدولت ان کو بالآخر نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔

اب اگر ہم اجمل خٹک کی اس بات کے لئے جواب تلاش کرنے کی جستجو کریں تو وہ اس طرح بن پڑے گا کہ اگر سیاسی جدوجہد سے نسلی عصبیت پر کھڑے نظام کا خاتمی ہو سکتا ہے تو سیاسی جدوجہد سے سیاست میں آمریت کی بالادستی، تسلسل، سیاسی آمدورفت اور سرایت کیوں ختم نہیں ہو سکتی۔ کیا اس جدوجہد کے لئے جلاوطنی جیسے مشکل پسند عمل بھی ناکافی ہے جس کی ایک لمبی فہرست بلا کسی سبقت کے کہ کون ان میں سرفہرست ہے، کون کہاں کہاں اور کتنا عرصہ شہر بدر، ملک برد یا جلاوطن رہا کیونکہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کسی کی طرف دار نہیں ہوتی وہ غیر جانبدار ہوتی ہے۔ لیکن یہ وہ غیر جانبدار نہیں جو ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments