اگر بابر اعظم بین سٹوکس سے ہی سیکھ لیتے


ڈھائی دن تک ایک عجیب کرب سا طاری رہا اور بالآخر ڈریسنگ روم سے ٹم ساؤدی کے ایک اشارے نے پاکستانی کیمپ کی سانس بحال کی۔ وگرنہ ولیمسن تو ابھی بھی اس بولنگ اٹیک کی مزید آزمائش پہ آمادہ تھے۔

ایک بار ایڈم گلکرسٹ نے کہا تھا کہ دانا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ لیتے ہیں مگر احمق ان نتائج تک پہنچنے کے لئے ذاتی تجربات کا سہارا لیتے ہیں۔ مگر یہ گتھی آج تک کوئی لیجنڈ بھی نہ سلجھا پایا کہ جو لوگ پے در پے ذاتی تجربات سے گزرنے کے بعد بھی اپنے طرزِ عمل پہ نظرِ ثانی کو آمادہ نہ ہوں، انہیں کہا بھی جائے تو کیا کہا جائے؟

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بابر اعظم کو میسر وسائل مثالی ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کی انجریز نے اس بولنگ اٹیک کی کمر توڑ رکھی ہے۔ یہاں تجربہ کار ترین بولر نعمان علی ہیں جو بے تحاشا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے باوجود ٹیسٹ کرکٹ میں بہرحال نووارد ہی ہیں۔

 مگر جب کپتان کو ابرار احمد کی شکل میں ایک ایسا مہرہ دستیاب ہو جو ایک ہی سیشن میں ساری بساط پلٹانے کی صلاحیت سے معمور ہو تو باقی ماندہ پانچ وکٹوں کے حصول کے لئے نعمان علی، میر حمزہ اور محمد وسیم کی پیس بھی تشفی بخش ثابت ہو سکتی تھی اگر ان کا استعمال دانش مندی سے کیا جاتا۔

بابر اعظم باقی ماندہ وسائل پہ دھیان لگانے کی بجائے اپنے سارے زورِ بازو کو ابرار کے رحم و کرم پہ چھوڑ بیٹھے۔ یہ عقدہ ایک طرف کہ ابھی بھی وہ پہلی نئی گیند ایک اینڈ سے لیفٹ آرم سپن کو دینے پہ رضامند کیوں نہیں ہو پائے، یہ سوال اپنی جگہ تشنۂ جواب ہے کہ بین سٹوکس سے تین میچز ہارنے کے بعد بھی وہ کچھ سیکھ کیوں نہیں پائے۔

 

بین سٹوکس کا اندازِ قیادت جدید ٹیسٹ کرکٹ میں ایک نئی جہت کا آغاز ہے۔ سست وکٹوں پہ جہاں بولرز سر پٹخ پٹخ کر تھک جاتے ہیں، وہاں کپتان عموماً سپنرز کی جانب سے کسی معجزے کے منتظر رہا کرتے ہیں۔ مگر بین سٹوکس وکٹ کی مہربانیوں اور گیند پرانی ہونے کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ اپنی ساری توجہ بلے باز کو پڑھنے اور پھر اس کے پسندیدہ سٹروکس کے رستے مسدود کرنے پہ کھپاتے ہیں۔

 

ڈرائیو کے شوقین بلے بازوں کو بین سٹوکس کے بولر ڈرائیونگ لینتھ ہی پیش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی مڈ آن اور مڈ آف بھی غیر معمولی جگہوں پہ فیلڈ کرتے پائے جاتے ہیں۔ بلے باز کو کھلی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ سوئنگ، سیم اور ٹرن سے عاری پچ پہ اپنی پسندیدہ شاٹ جی بھر آزمائے مگر اسے مڈآن اور مڈآف کو عبور کرنے کا خطرہ مول لینا ہی ہوگا۔

 

دوسری نئی طرح جو بین سٹوکس ایشین کنڈیشنز میں ڈال رہے ہیں، وہ لیگ سائیڈ تھیوری کا استعمال ہے کہ بلے باز کو لیگ سٹمپ پہ ایسے باندھ چھوڑا جائے کہ وہ باڈی لائن اٹیک کے جواب میں مدافعتی شاٹ کھیلتے کھیلتے کوئی باہری کنارہ دے کر لیگ سلپ کو کھیل میں زندہ رکھے۔ اور اگر اس سے بھی نہ بن پائے تو شارٹ پچ اٹیک سے قریبی فیلڈرز کو فیصلہ کن کردار تفویض کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’فخر کو سکواڈ میں شامل کریں ورنہ ہم پی سی بی ہیڈکوارٹر آ رہے ہیں‘

کراچی ٹیسٹ کے تیسرے روز علیم ڈار کو ریٹائر ہونے کے مشورے

پاکستانی ٹیم دوسری شام تک دفاعی خول میں جاتی سی نظر آئی

مگر بابر اعظم نے ایسی کوئی بھی کاوش کرنے سے پرہیز برتا۔ وہی لگی بندھی فیلڈ پوزیشنز طے کیں جو دنیا کے کسی بھی ٹیسٹ بلے باز کے لئے اجنبی نہیں ہوتیں۔ بولنگ کی جوڑیاں تشکیل دینے میں بھی وہ کوئی ایسا سرپرائز نہ دے پائے جو ولیمسن کو کسی غلطی پہ اکسا پاتا۔

 

اگرچہ چوتھی سہہ پہر محمد وسیم نے شارٹ پچ کا حربہ آزمایا اور نعمان علی لیگ سائیڈ تھیوری کو استعمال میں لائے مگر تب تک پاکستان کی دو روزہ فیلڈنگ اور غلط فیصلہ سازی اپنا کمال دکھا چکے تھے۔ کیویز کی برتری خطیر ہو چکی تھی، کنڈیشنز بیٹنگ کے لئے دشواری کی جانب مائل تھیں اور پاکستانی کیمپ کے کندھے جھکے ہوئے تھے کہ ایک بار پھر وہ دس وکٹیں لینے میں ناکام رہ گئے۔

 

حالانکہ یہیں میچ کا حلیہ یکسر مختلف ہو سکتا تھا اگر پاکستان اپنے وسائل کا درست استعمال کر پاتا اور پاکستانی فیلڈنگ بھی دباؤ کے ہنگام اپنے اوسان بحال رکھ پاتی۔ جو نعمان علی صرف تین وکٹیں لے پائے، انہی کے کھاتے میں یہ ہندسہ پانچ یا سات کا بھی ہو سکتا تھا اگر وہ کیچز پکڑ لئے جاتے اور سٹمپنگ کے مواقع ضائع نہ کئے جاتے۔

 

پی سی بی کی پاپولر سلیکشن کمیٹی نے آتے ہی جو دلچسپی ٹیم سلیکشن میں ظاہر کی ہے اور جس طرح سے پلئینگ الیون ٹی وی مذاکروں میں طے ہونے کا رجحان ازسرِنو کارفرما ہوا ہے، اس نے اپنے عمل سے کہیں زیادہ سرفراز احمد کے مستقبل پہ سوالات اٹھا چھوڑے ہیں۔

 

اس میں شبہ نہیں کہ سرفراز احمد کا تجربہ پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی عین ضرورت ہے۔ وہ ماضی کی کامیاب ترین ٹیسٹ ٹیم کا ایک اہم کردار رہے ہیں اور کئی پریشر لمحات کو جھیل چکے ہیں۔ بطور بلے باز، وہ اس نوآموز مڈل آرڈر کو ایک ریڑھ کی ہڈی کا سا سہارا فراہم کر سکتے ہیں مگر سوال فقط یہ ہے کہ کیا پاکستان ان کے قیمتی رنز کے عوض قیمتی تر حریف وکٹوں کی قربانی دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

 

اب پاکستان کے لئے اس میچ میں بقا کے رستے محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بلا شبہ بابر اعظم، سعود شکیل، سرفراز احمد اور سلمان آغا بھرپور مدافعت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر کراچی کی یہ پچ اب بلے بازوں کے لئے سہل نہیں رہی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments