جنرل ضیاالحق: چند انتظامی یادیں


صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیا الحق کو براہ راست دیکھنے کا موقع نومبر/ دسمبر 1983 میں پیدا ہوا جب انہوں نے ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کا ارادہ کیا۔ میں ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر شجاع آباد تعینات تھا۔ ضلع انتظامیہ کی طرف سے ہمیں پندرہ بسوں کا قافلہ جلسہ گاہ پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تحصیل بڑی اور ذمے داری آسان تھی۔ یونین کونسلیں بھی فعال تھیں اور پٹواری بھی کمر بستہ۔ چیئرمینوں اور پٹواریوں کے لیے پچاس ساٹھ آدمی ایک بس میں لاد کر لے جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پٹواریوں نے حاضری کو باقاعدہ رپورٹ کر نا تھا۔ اسسٹنٹ کمشنروں کو بھی قافلے روانہ کر نے کے بعد جلسہ گاہ میں جانا تھا۔ قافلہ بڑی گہما گہمی اور ہما ہمی میں روانہ ہو گیا لیکن بوجوہ میرا دل جلسے میں جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ تاہم منجدھار سے دور رہنے کی سہولت جلد ہی ختم ہو گئی جب اگلے سال کے آغاز پر میرا تبادلہ راولپنڈی ضلع میں بطور اسسٹنٹ کمشنر سٹی ہو گیا۔

راولپنڈی واقعتاً دارالحکومت کی حیثیت رکھتا تھا۔ صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی رہائش جہلم کو جانے والی جرنیلی سڑک کے عین اوپر تھی اور بہت سی وزارتیں بھی ابھی اسلام آباد منتقل نہ ہوئی تھیں۔ میونسپل کارپوریشن راولپنڈی اور کینٹ بورڈ راولپنڈی کی حدود میرے احاطہ کار میں شامل تھیں۔ افغان جہاد کا پانچواں سال تھا۔ میدانی اور سفارتی لڑائی زوروں پر تھی۔ کھلونا نما اور سائیکل اور موٹر سائیکل میں چھپائے گئے بموں کے حملے پشاور کے علاوہ اب راولپنڈی میں بھی ہو جاتے تھے۔ اختیارات کا منبع اور مرکز چونکہ ایک ہی جگہ پر تھا اس لیے آئے روز ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے گروپ آرمی ہاؤس جنرل ضیا الحق کی رہائش گاہ پر پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان گروہوں کے مدعا کو اوپر پہنچانے کی راہ پر ڈال کر انہیں راستے ہی سے واپس کر دینا میری اہم ذمے داری تھی۔ غیر ممالک سے آنے والے وفود کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا۔ غیر ملکی سربراہان حکومت و مملکت بھی بکثرت آتے تھے۔ خود صدر پاکستان بھی اندرون و بیرون ملک بہت متحرک رہتے۔ ان کے استعمال میں آنے والے رستے پر پولیس کی روٹ ڈیوٹی مسلسل لگتی رہتی۔ غالباً سکیورٹی وجوہات کی بنا پر صدر صاحب اعلان کردہ وقت سے کافی تاخیر میں سفر کرتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے راولپنڈی کی انتظامیہ اور بالخصوص پولیس ہمہ وقت آتش زیر پا رہتے تھے۔ مجھے بھی ضلع شکار پور اور ملتان میں پہلی دو تعیناتیوں والی سکون آور عادات کو یکسر ترک کر دینا پڑا۔

صدر ضیا الحق کا ایک بہت نتیجہ خیز معمول تھا کہ وہ صبح سویرے دفاتر کھلنے سے پہلے بڑے بڑے اخبارات کا خود مطالعہ کرتے اور قابل توجہ آئٹم پر دفتر کھلتے ہی متعلقہ افسران کو فون کر کے خبر گیری بھی کر لیتے لیکن بہت شائستہ اور پروقار طریق سے۔ گریڈ کا کوئی تکلف نہ تھا۔ فون کسی کو بھی آ سکتا تھا۔ جنوری 1984 میں مجھے راولپنڈی آئے ابھی کچھ روز ہی ہوئے تھے کہ دفتر کھلتے ہی ان کا فون آ گیا۔ کڑاکے کا جاڑا تھا۔ میں ابھی راستے میں تھا لیکن میرا ریڈر فون پر موجود تھا۔ صدر پاکستان نے اس سے ہی بات کر لی۔ وہ ائر پورٹ پر پیش آنے والے ایک واقعے کی تفصیل جاننا چاہتے تھے۔ اخبار میں چھپا تھا کہ بصارت سے محروم ایک جوان لڑکی کا سامان ائر پورٹ سے چوری ہو گیا تھا اور اے سی نے اس کی داد رسی نہیں کی تھی۔ میں یہ خبر پڑھ چکا تھا (انتظامیہ کے ارکان بھی مقامی خبروں والے دو بڑے اخبارات، نوائے وقت اور جنگ، کا بغور مطالعہ کرتے تھے)۔ دفتر پہنچا تو میرے ادھیڑ عمر ریڈر نے تقریباً کانپتی آواز میں مجھے تفصیل بتائی۔ حکم کے مطابق فوراً واپسی فون کیا۔ دو تین مراحل سے گزرا تو دوسری طرف لائن پر صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر آ گئے۔ کہنے لگے کہ اے سی صاحب یہ میری ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ معاملہ اے سی کسٹمز سے متعلقہ ہے کہ ائر پورٹ کی حدود کے اندر ان کی خصوصی عمل داری ہے، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے اور کہا کہ مجھے شام تک آپ سے رپورٹ چاہیے۔ میں نے فوراً اے ایس پی کینٹ سعود مرزا (بعد کے ڈی جی ایف آئی اے) جو میرے بیچ میٹ تھے، کو ساتھ لیا اور ائر پورٹ پہنچ گیا۔ پولیس کی تفتیشی ٹیم بھی ساتھ ہی آ گئی۔ شکر خدا کا کہ شام تک سامان مل گیا اور داد رسی کی رپورٹ آرمی ہاؤس تحریراً پہنچا دی گئی۔

ایسی ہی ایک اور فون کال آٹھ دس ماہ کے بعد پھر میرے دفتر میں آئی۔ اس دفعہ موضوع اخبار کی وہ خبر تھی جس میں راولپنڈی کے تھوک بازار میں چینی اور مرچوں کی قیمتیں بڑھ جانے کے متعلق بتایا گیا تھا۔ فون پھر دفتر کھلتے ہی آیا۔ پھر تجربہ کار ریڈر ہی نے اٹھایا کہ میں تو بقول اس کے شہر کے راونڈ پر تھا۔ میں نے دفتر پہنچ کر جوابی فون کیا تو حکم ملا کہ آپ کے کمشنر اور ڈی سی تو مری میں بسلسلہ اجلاس گئے ہوئے ہیں، آپ مجھے شام تک تجزیاتی رپورٹ بنا کر بھیج دیں۔ میں فوراً نرنکاری بازار گنج منڈی پہنچا۔ مختلف دکانداروں سے بات چیت کی۔ جن علاقوں سے پیداوار آتی تھی وہاں کے ایک دو افسروں سے بھی بات کی اور اپنی اکنامکس کی ایم اے کی ڈگری اور نیسپاک میں بطور اکانومسٹ اپنی اولین تقرری کی روشنی میں رپورٹ بھجوا دی کہ تھوک نرخوں میں یہ چڑھاؤ عارضی ہے اور اگلے پانچ چھ روز میں ٹھیک ہو جائے گا۔ مقام شکر کہ تجزیہ درست نکلا۔

راولپنڈی شہر کے روز مرہ مسائل پر صدر پاکستان کی ذاتی توجہ رہتی تھی۔ انتظامی تساہل پر تاسف اور تحکم والا فون ان الفاظ میں آ جاتا کہ یہ میری ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔

جون 1984 میں اسلامی اور عیسوی مہینے اس تطابق کے ساتھ آئے کہ پہلا روزہ یکم جون کو آیا اور گن کر پورے تیس روزے تیس جون کو جاکر مکمل ہوئے۔ رمضان کے پورے مہینے میں پانی کی ایک بوند نہ ٹپکی بلکہ بادل کا کوئی ٹکڑا بھی دیکھنے کو نہ ملا۔ شدید گرمی نے روزہ داروں کا برا حال کیا ہوا تھا۔ فریزر تو ابھی پاکستان میں شاید آئے ہی نہ تھے، فریج بھی اکا دکا گھروں میں ہوتے تھے۔ آبادیاں آپس میں جڑی ہوئی اور لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ عام حالات میں ضرورت پوری کر نے کے لیے برف کے ڈپو سے برف بآسانی دستیاب ہوجاتی تھی اور ہنگامی ضرورت محلے کے فریج سے پوری ہوجاتی تھی لیکن اس بلا خیز حدت میں افطاری کے لیے ٹھنڈے مشروب کی ضرورت کے لیے آئس فیکٹریوں کی پیداوار ناکافی پڑنے لگی۔ نتیجتاً طلب رسد کے معاشی اصول اور ہمارے ہاں کی کاروباری لالچ کی روایت کے زیر اثر برف کی گراں فروشی اور عدم دستیابی شروع ہو گئی۔

صوم و صلوٰة کے پابند جنرل صاحب نے اس بلیک مارکیٹنگ کا بہت برا مانا۔ فون آیا اور ہماری دوڑیں لگ گئیں۔ برف کے سارے کارخانوں پر مجسٹریٹ تعینات ہو گئے۔ کارخانے کی پیداواری استعداد پوری کروائی جاتی اور برف کے ایک ایک بلاک کی کولڈ سٹوریج میں رکھوائی اور تھوک، پرچون فروشوں کو سپلائی کا حساب رکھا جاتا۔ قلت والے علاقوں میں بطور خاص زیادہ مقدار بھجوائی جاتی۔ میں بھی سہ پہر کے بعد اپنا سارا وقت ان کارخانوں میں گزارتا۔ ان دنوں اے سی حضرات کی گاڑیوں اور دفتروں میں اے سی نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کولڈ سٹوریج کے یخ بستہ ماحول میں برف کے بلاکوں کی جانچ پڑتال ایک جاں فزا عمل محسوس ہوتا۔ روزہ بھی ٹھنڈا ہو جاتا اور فرض بھی پورا ہو جاتا۔ درپیش صورت حال چند ہی روز میں معمول پر آ گئی۔

رمضان کے آخری دنوں میں لیاقت باغ میں خوب رونق ہوتی۔ ستائیسویں شب سے تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جاتا۔ ہر شب دس پاروں کی تلاوت ہوتی۔ اس مرکزی محفل شبینہ میں ملک بھر کے ممتاز قاری حضرات حصہ لیتے اور پی ٹی وی پر اسے براہ راست نشر کیا جاتا۔ پورا لیاقت باغ اور لیاقت ہال بقعہ نور بنے ہوتے۔ اہل شہر کثیر تعداد میں شریک ہوتے۔ صدر ضیا الحق کی آمد کا غلغلہ بلند ہو تا رہتا لیکن وہ شاذ ہی شریک ہوتے۔ تاہم ہمیں چوکس رہنا پڑتا۔ ستائیسویں کی شب وہ عموماً مسجد نبوی میں گزارتے تھے۔

راولپنڈی کے میئر شیخ غلام حسین جنرل صاحب کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے لیاقت باغ اور نالہ لئی کی درمیانی جگہ پر ایک خوبصورت پارک آراستہ کیا تھا۔ اس دفعہ رمضان کی سالانہ افطاری وہاں پر رکھی گئی۔ جنرل صاحب بھی تشریف لائے۔ افطاری کا کھانا انہیں بہت پسند آیا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ باورچی کے پاس گئے اور اسے شاباش دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اس نے عمرے پر بھجوانے کی فرمائش کر دی۔ جواب میں صدر صاحب بولے کہ اس کا بلاوا تو عرب شریف سے آتا ہے جس کا انتظار کرنا ہو گا۔ باورچی ترنت بولا، اچھا بلاوا ہے کہ آپ کو تو ہر وقت آیا ہوتا ہے اور مجھے انتظار کر نا پڑے گا۔ جنرل صاحب اس فوری رد عمل سے بہت محظوظ ہوئے۔ ان کا جاندار قہقہہ فضا میں بلند ہوا اور باورچی کا کام بن گیا۔

راولپنڈی شہر کی صورت حال کے بارے میں ان کا اہم ترین فون ماہ اکتوبر 1984 میں موصول ہوا۔ دسویں محرم کا مرکزی جلوس فوارہ چوک پر پہنچ چکا تھا۔ اب یہاں کچھ وقوف کے بعد اسے نماز عصر اور مغرب کے درمیان راجہ بازار میں سے گزرنا تھا۔ یہاں دیوبندی مکتبہ فکر کا مشہور مدرسہ تعلیم القرآن واقع ہے۔ یہ پورے جلوس اور شہر کا حساس ترین نقطہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہاں لڑائی جھگڑے بلکہ انسانی جانوں کے اتلاف کی تاریخ موجود تھی۔ ابھی تک صورت حال بالکل پرامن تھی۔ انتظامیہ اپنی پوری توجہ کے ساتھ موجود تھی۔ منتظمین جلوس اور علمائے کرام سے مسلسل رابطے میں تھی کہ کراچی شہر میں پیش آنے والے کسی واقعے کو بنیاد بنا کر دفعتاً اعلان ہو گیا کہ جلوس مجلس میں بدل گیا ہے اور یہیں جلیس رہے گا جب تک کہ اس کے مطالبات منظور نہیں کر لیے جاتے، نہ آگے جائے گا نہ ختم ہو گا۔ مطالبات کیا تھے یہ تو اب یاد نہیں لیکن فہرست طویل تھی اور کافی حد تک ناقابل عمل۔

سمجھانے بجھانے کا عمل فوراً شروع ہو گیا۔ جلوس کی قیادت کو ہر سطح پر سمجھایا جا رہا تھا کہ بہت سے مطالبات پر فوری عمل ممکن نہیں۔ اس کے لیے وقت اور بہت تیاری درکار ہو گی۔ لیکن ان کو ہدایات اپنی بالائی قیادت سے مل رہی تھیں اور کوئی فیصلہ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ جلوس فوارہ چوک میں مرکزی چوکی قائم کر کے اطراف کی دو تین سڑکوں پر دور تک پھیل کر بیٹھ گیا۔ ضلعی انتظامیہ بھی سامنے ہی کوتوالی کے پولیس دفاتر میں موجود تھی۔ قائدین کا آنا جانا لگا ہوا تھا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ رات کے بارہ بج گئے۔ اگلی صبح سے محرم کی تعطیلات کے بعد دفاتر، تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز نے دوبارہ کھلنا تھا اور زندگی نے معمول پر آنا تھا لیکن ادھر تو شہر کا مرکزی حصہ معطل ہوا پڑا تھا۔ پچھلے ایک دو گھنٹوں سے کاروباری تنظیموں کا دبا دبا احتجاج بھی ہم تک پہنچ رہا تھا۔ وہ شرکائے جلوس کو سمجھانے بجھانے میں ہمارے ساتھ شریک رہے تھے اور اپنا مقامی اثر و رسوخ پوری طرح استعمال کرتے رہے تھے لیکن اب مایوس ہو کر احتجاج کر رہے تھے۔

مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی طرف سے بھی مسلسل احتجاج آ رہا تھا۔ خاص طور پر دیوبندی تنظیمیں تو اب یہ دھمکی دے رہی تھیں کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں ہم خود جلوس والوں کو یہاں سے اٹھا دیں گے۔ ان تنظیموں کی افغان جہاد کے پس منظر میں حاصل شدہ عسکری اور سیاسی طاقت کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ صورت حال بہت نازک اور گمبھیر ہو گئی تھی۔ ہم سب کوتوالی کنٹرول روم میں سنجیدہ و رنجیدہ اور پریشان بیٹھے اس کھکھیڑ سے نکلنے کی تدابیر تلاش کر رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے دفاتر میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب ڈپٹی کمشنر اور سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر صاحب بھی ادھر آ گئے تھے۔ ڈھائی تین بجے جب صدر ضیا الحق تہجد کی نماز کے لیے اٹھے تو ان کا فون ادھر موجود بریگیڈیئر صاحب کو آ گیا۔ فوجی انداز میں واضح ہدایات دے دی گئیں کہ فجر کی اذان سے پہلے علاقہ خالی کروا لیا جائے۔

ایکشن کی تیاری شروع ہو گئی۔ متوقع آپریشن کے لیے پہلے سے موجود نفری کی ازسرنو صف بندی کی گئی، اضافی نفری بھی منگوائی گئی۔ لگ بھگ ایک گھنٹے بعد مجسٹریٹوں نے جلوس کے مختلف حصوں کے قریب جاکر ہاتھ والے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے ان کو اٹھ جانے کا حکم دیا تو جواب میں پتھراؤ شروع ہو گیا۔ انتظامیہ کی طرف سے آنسو گیس بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی۔ اس کی شدت سے شرکا نے تو اٹھ ہی جانا تھا، قریبی گھروں کے لوگ بھی نیند سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پھر بھی منتشر ٹولیاں دیر تک مقابلہ کرتی رہیں۔ جلوس کی مرکزی چوکی فوارہ چوک میں ابھی تک زیر نہ ہوئی تھی۔ وہاں سے لاؤڈ اسپیکر سے شرکا کی مسلسل ہمت بندھائی جا رہی تھی۔ ایس ایس پی چوہدری یعقوب جو دیہاتی پس منظر کے ایک بہادر کمانڈر تھے اور میں خود اس طرف بڑھے۔ پتھراؤ بہت شدید تھا۔ کرکٹ بال کے وزن کا ایک پتھر مجھے سینے پر آ لگا، شکر ہے سر اور چہرہ محفوظ رہے۔ پتھر بہت زور سے لگا تھا اور آج قریب چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی زیادہ سردی میں وہاں ٹیس اٹھتی ہے۔

شدید پتھراؤ کے سامنے پہلے تو پولیس نفری تتربتر ہو گئی اور صرف ایس ایس پی اور میں اور ہمارے گن مین کھڑے رہ گئے لیکن چوہدری صاحب آگے بڑھتے گئے اور پولیس ملازمین کو شرم بھی دلاتے گئے، جس سے نفری واپس آتی گئی۔ ہم نے فوارہ چوک والے لاؤڈ اسپیکر پر قبضہ کر لیا کیونکہ جب تک یہ لاؤڈ اسپیکر چلتا رہتا شرکا مزاحمت کرتے رہتے۔ ادھر پہنچے تو حیران رہ گئے۔ ہمت بندھانے والے تو کب کے بھاگ کر محفوظ جگہوں پر پہنچ کر اب پتھراؤ وغیرہ میں مشغول تھے اور یہاں ٹیپ ریکارڈر چل رہا تھا۔ قصہ مختصر جلوس یہاں سے اٹھا دیا گیا۔

اگلے پورے چھ ماہ روزانہ ایک احتجاجی ماتمی جلوس سرکلر روڈ کے قریب واقع امام بارگاہ قدیمی سے برآمد ہوتا اور سرکلر روڈ پر آ کر کمیٹی چوک یا دوسری طرف جانے کی کوشش کرتا۔ کبھی نرم کبھی گرم اس پیہم کھینچا تانی میں ایک انسانی جان بھی ضائع ہو گئی۔ یہ سلسلہ کیونکر رکا، مطالبات کا کیا بنا، اب یاد نہیں۔ اتنا یاد ہے کہ یہ احتجاجی سلسلہ اثنا عشری کے موسوی گروپ نے منظم کیا تھا اور دوسرا بڑا عارف الحسینی گروپ اس سے تقریباً لاتعلق رہا تھا۔ ان اکابرین سے میری اپنی بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ دونوں مذہبی رہنما نہایت متوازن اور نفیس طبع تھے۔ فوری خطرات تو ٹل گئے تھے مگر ان چھ ماہ میں روزانہ نکلنے والے ماتمی جلوسوں اور اس پر مخالف سمت سے آنے والے ردعمل کی وجہ سے یہ سمجھ میں آ رہا تھا کہ ہمسایہ ممالک کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے فرقہ ورانہ منافرت کے عفریت پر قابو پانا جلد یا بدیر انتظامیہ کے بس سے باہر ہو جائے گا۔

احتجاج اور نعرہ بازی تو اس دور میں راولپنڈی کا روز مرہ کا معمول تھا۔ آئے روز ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے گروہوں سے سابقہ پڑتا جو صدر کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کرنا چاہتے، تاہم ہماری مداخلت سے دو تین رکنی وفد کی صورت میں صدر صاحب کے دفتر میں کسی بڑے سے ملاقات کر کے مطمئن ہو جاتے۔ پیپلز پارٹی کی ایم آر ڈی تحریک والا احتجاج بھی ان کے اور انتظامیہ کے مابین پر امن بقائے باہمی کے انداز میں چلتا رہتا۔ جلوس اور کبھی ٹولیاں مختلف علاقوں میں خاص طور پر مری روڈ پر نمودار ہوتیں، نعرہ بازی کرتیں لیکن املاک و اطراف کو نقصان پہنچائے بغیر کچھ دیر یا کچھ عارضی گرفتاریوں کے بعد انتظامی مداخلت سے منتشر ہو جاتیں۔

فروری 1984 میں مارشل لا حکومت نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی تو شدید احتجاج ہوا۔ ہم نے حکمت عملی کے طور پر طلبہ کا کوئی جلوس تعلیمی اداروں سے باہر نہیں آنے دیا۔ دفعہ 144 نافذ کر دی۔ بڑے کالجوں کے باہر پولیس کی بھاری نفری محفوظ فاصلے پر تعینات رہتی۔ مشتعل طلبہ کالج کی دیواروں پر چڑھ کر نعرہ بازی اور تقریر بازی بھی کرتے اور سخت ترین پتھراؤ بھی، ساتھ مغلظات بھی بکتے۔ ہمیں اشتعال دلانے کے لیے افسروں کا نام لے کر گالی اور پتھر ایک ساتھ پھینکتے۔ لیکن ہم خاموشی اور تحمل سے یہ سب دیکھتے، سنتے اور برداشت کرتے۔ پولیس کو مستعد مگر پرسکون رہنے کی سخت ہدایت تھی۔

روزانہ کئی گھنٹوں کا یہ احتجاج کئی دن چلتا رہا۔ اس کا خاتمہ تب ہوا جب ایک روز اصغر مال کالج کے طلبہ نے پرنسپل صاحب کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ پرنسپل صاحب نے اطلاع کی تو ڈیوٹی مجسٹریٹ کو پولیس کے ہمراہ فوراً اندر بھیج دیا گیا۔ میں خود بھی تھوڑی ہی دیر میں پہنچ گیا۔ شرارتی ٹولیاں دیواریں پھلانگ کر بھاگیں لیکن بہت سے قابو آ گئے اور پولیس کی روایتی گوشمالی کا نشانہ بنے۔ بہت سوں کو چھوڑ دیا گیا۔ زیادہ سرگرم گرفتار ہو گئے اور اگلے دن سے حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے کیونکہ اب طلبہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ شرارت کی صورت میں وہ کالج کے قلعوں کے اندر بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

طلبہ یونینوں پر پابندی کا فیصلہ کس حکمت یا دانش کی بنیاد پرکیا گیا واضح نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ 1970 کی دہائی تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی مداخلت کی نذر ہو چکی تھی۔ لیکن کیا گھر میں زیادہ وولٹیج آ جانے کی صورت میں بجلی کے ترسیلی نظام کو درست کیا جاتا ہے یا کنکشن ہی کاٹ دیا جاتا ہے؟ میں اس دہائی کے ابتدائی نصف میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پا رہا تھا اور میرے دو انتہائی قریبی دوست باصر سلطان کاظمی اور ساجد علی ایک سال کے وقفے سے بالترتیب کالج یونین کے سیکرٹری اور صدر منتخب ہوئے۔ اس قائدانہ تجربے سے گزرنے پر ان کی شخصیات میں بہت عمدہ نکھار آیا تھا۔ کیا تہذیب و تربیت کا یہ باب ہمیشہ بند رہ جائے گا؟ کیا یونین کے بجائے باہر کے ملکوں کی طرح یا ہمارے اپنے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرز پر کوئی غیر سیاسی سٹوڈنٹ کونسل نہیں بنائی جا سکتی تھی؟ یا پھر اس فیصلے کے ڈانڈے مجوزہ غیر جماعتی عام انتخابات سے جا ملتے تھے اور مقصود ان ہر دو اداروں سے ملنے والی سیاسی تربیت کو مسدود کر کے آئندہ آنے والی سیاسی قیادت کو ایک خاص ذہنی سطح تک محدود رکھنا تھا۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے سیکھی ہوئی ہلکی پھلکی دانشوری اس طریق سے میں نجی محفلوں میں بگھارتا رہتا تھا۔ مگر انتظامی طور پر میں قدرے خوش بھی تھا کہ روزبروز کے جھنجھٹ سے جان چھوٹی۔ لیکن ہمارے ڈپٹی کمشنر چوہدری نذیر احمد، جو بہت جہاندیدہ اور سمجھ دار شخص تھے اور پچھلے پانچ سال سے راولپنڈی کے کامیاب ڈپٹی کمشنر چلے آرہے تھے، کہنے لگے، اب انتظامیہ کے لیے زیادہ مشکلات ہوں گی۔ پہلے تو ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ کن دو چار لوگوں سے بات یا معاملہ کر نا ہے اب درجنوں چوہدری پیدا ہو جائیں گے اور بے مہار ہوں گے۔

چند ہی دنوں میں ان کی بات ٹھیک نکل آئی جب طلبہ کے ایک بڑے گروپ سے اچانک اور غیر متوقع مڈ بھیڑ ہو گئی۔ انجینئرنگ کالج ٹیکسلا ابھی یونیورسٹی نہیں بنا تھا اور اس کی چار دیواری عقب میں نامکمل تھی۔ اپنی عمر کے تقاضوں کے عین مطابق طلبہ راتوں میں قریبی باغات میں گھس کر پھلوں کی بہت زیاں کاری کرتے۔ آئے روز کے نقصانات پر باغ مالکان نے نگرانی سخت کر دی تھی۔ اب باغوں میں جانے والے اکا دکا طالب علموں کی دھنائی ہو جاتی۔ جب پٹائی میں شدت اور تعداد میں کثرت آ گئی تو ایسے ہی ایک واقعے کے رد عمل میں اگلے روز علی الصبح طالب علموں کا ایک بڑا گروپ کالج کی چار پانچ بسوں میں لد کر ڈنڈوں، ہاکیوں اور سریوں کو اٹھائے پنڈی کی طرف چل پڑا۔ منزل اس وقت کا آرمی ہاؤس تھا جو عین جہلم روڈ کے اوپر واقع تھا۔

بطور جی او سی 12 ڈویژن جنرل اختر آرمی چیف جنرل ضیا کے ہمراہ سنہ 1976

ٹیکسلا سے راستہ بالکل سیدھا تھا کیونکہ جی ٹی روڈ، پشاور روڈ اور مال روڈ بننے کے بعد ، جہلم روڈ کے طور پر صدارتی اقامت گاہ کے بالکل سامنے سے گزرتی تھی۔ میں نے دفتر کے لیے تیاری شروع کی ہی تھی کہ وائر لیس کنٹرول سے فون آ گیا کہ طلبہ کا ایک بڑا گروپ چار پانچ بسوں میں سوار صدر ہاؤس جانے کے لیے راولپنڈی کینٹ کی حدود میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ ڈرائیور ابھی نہیں پہنچا تھا۔ میں نے ادھوری تیاری کے ساتھ گاڑی نکالی اور انہیں روکنے کے لیے چل پڑا۔ راستے میں وائرلیس کے ذریعے پولیس کی نفری اور مجسٹریٹوں کو مختلف چوکوں خاص طور پر کچہری چوک پر پوزیشن لینے کی ہدایات دیتا رہا۔ صبح صبح کی یلغار سے چونکہ پوری انتظامیہ ہڑبڑاہٹ میں تھی اس لیے مجھے کسی طور جلوس کو روک کر مناسب تیاری کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔

ایس ایچ او ٹیکسلا اپنی گاڑی میں جلوس کے عقب میں تھا۔ میں اپنی گاڑی میں مختلف گلیوں میں سے نکل کر مال روڈ پر جلوس کے سامنے اس طریقے سے آ گیا کہ اپنی گاڑی ان بسوں کے آگے لگا کر اسے سست رفتاری سے چلانا شروع کر دیا۔ بسوں کے ڈرائیور کچھ دیر تو میرے پیچھے پیچھے سست روی سے چلتے رہے لیکن پھر طلبہ کی جھنجھلاہٹ پر ایک ذیلی سڑک پر مڑ گئے تاکہ میری گاڑی سے پہلو بچا کر اپنی منزل تک جا سکیں۔ لیکن اس دوران میں اور سیدھے راستے سے ہٹنے کی وجہ سے اتنا وقت مل چکا تھا کہ پولیس کے چالیس پچاس جوان اور کینٹ مجسٹریٹ آرمی ہاؤس سے پہلے کے آخری کچہری چوک میں پہنچ گئے۔ میں سارا وقت جلوس کی پوزیشن بتاتا رہا تھا اور اب تک کچھ نہ کچھ تیاری کر لی گئی تھی۔

جب میں کچہری چوک پہنچا تو ڈی سی صاحب اور ایس ایس پی بھی وہاں آ چکے تھے۔ ذرا سی دیر میں طلبہ کی بسیں بھی عقبی راستوں سے ہوتی ہوئی آ کر کچھ فاصلے پر رک گئیں اور طلبہ اپنے ڈنڈوں، ہاکیوں اور سریوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں آگے بڑھنے لگے۔ مشہور کرکٹر ماجد خان کے بڑے بھائی، خوبرو ایس ایس پی اسد جہانگیر صاحب نے پولیس نفری کو لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ اسی ایک ساعت میں مجھے نظر آ گیا کہ پولیس کے مقابلے میں طلبہ کی تعداد تقریباً 5 گنا زیادہ ہے۔ وہ مسلح بھی ہیں اور شدید اشتعال میں بھی۔ ہماری پٹائی ہو سکتی تھی اور پھر آرمی ہاؤس تک کا رستہ صاف تھا۔ معاً میری نظر ان دو نوجوان رہنماؤں پر پڑی جن سے میری ملاقات اے سی صدر کے گھر برج کھیلنے کے دوران ہوئی تھی۔ مشکل کی گھڑی میں مجھے ان کے نام بھی یاد آ گئے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے پولیس کو کوئی ایکشن لینے سے روک دیا اور ان دو نوجوانوں کو آواز دے کر آگے بلایا اور خود بھی جرات کر کے ان کی طرف چل پڑا۔

سچ کہتے ہیں انتظامی معاملات میں منہ ماتھے کی حیا بہت اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے میری باتیں سکون سے سنیں اور میری تجاویز پر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر نے چلے گئے۔ اسی اثنا میں پولیس کی اضافی نفری اور آنسو گیس کے شیل پہنچ گئے۔ راستے کو مسدود پا کر طلبہ نے ٹھیک فیصلہ کیا اور سمجھوتہ ہو گیا کہ ان کے پانچ رکنی وفد کو میں خود صدر ہاؤس لے کر جاؤں گا اور باقی طلبہ بسوں میں بیٹھ کر واپس چلے جائیں گے۔ رات کو ڈی سی صاحب نے مجھے کیک بھجوایا جس میں موجود تہنیت کی لذت میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ واقعی بڑی بچت ہوئی تھی۔ اگر یہ مسلح جتھا صدر کے گھر کے سامنے پہنچ جاتا تو راولپنڈی انتظامیہ کے افسران کو آبائی گھروں کو بھیج دیا جاتا۔

سکولوں کے طلبہ کے ساتھ انتظامیہ کا تعلق بہت خیر سگالی کا تھا۔ غیر ملکی سربراہان کے دوروں کے موقع پر سکولوں کے طلبہ و طالبات کو استقبال کے لیے لایا جاتا تھا۔ طالبات ائر پورٹ کی چھت پر اور اندر کی طرف ہوتیں۔ ہوائی اڈے سے قیام گاہ تک کے راستے پر طلبہ کھڑے ہوتے۔ سب کے ہاتھوں میں جھنڈیاں لہراتیں، لبوں پر میٹھے نغمے اور بینرز پر دلکش نعرے ہوتے۔ اچھے اچھے سکولوں کے بینڈز بھی منگوائے جاتے۔ ائرپورٹ اور باہر کے راستوں کو بہت خوبصورتی سے سجایا جاتا۔ کم سن ایک بچہ اور ایک بچی دلفریب لباس میں ملبوس بہت خوبصورت انداز میں معزز مہمان کو طیارے سے اترتے ہی گلدستے پیش کرتے۔ سرخ قالین، خوبصورت اور تمتماتے بچے، دلکش انداز میں سجا ہوا ائر پورٹ اور سڑکوں پر کی گئی آرائش کی وجہ سے یہ تقریب واقعی رنگا رنگ بن جاتی۔ خاص مہمانوں کے لیے جھومر پارٹیاں اور ناچنے والے گھوڑے بھی منگوائے جاتے۔ زیادہ تر مہمانوں کا قیام سٹیٹ گیسٹ ہاؤس (جو اب بری فوج کے سربراہ کی رہائش گاہ ہے) میں ہوتا۔ چکلالہ ائر پورٹ سے جیل پارک (موجودہ جناح پارک) کے جنوب مغربی کونے تک چار پانچ کلومیٹر میں بچوں کو مہمان کی اہمیت کے مطابق مناسب وقفوں پر کھڑا کیا جاتا۔ اہمیت کا تعین دفتر خارجہ کرتا تھا۔ ہم نے دیے گئے سکیل کے مطابق انتظامات کر نا ہوتے۔

افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ آئے روز غیر ملکی سربراہان کے دورے ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ صرف فروری سے اپریل کے اختتام تک 13 غیر ملکی سربراہان نے دورے کیے۔ اس تواتر کی وجہ سے ہمارا استقبالی انتظام ایک خودکار نظام میں بدل گیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک درمیانی درجے کے دورے کو اپنے ڈپٹی کمشنر کی رخصت اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی تربیت کے دوران میں نے اکیلے ہی بھگتا دیا۔ معزز مہمان کی آمد اور رخصت کے موقع پر صدر ضیا الحق کو سلام کر نے اور ان سے مصافحہ کر نے کا موقع ملتا۔ وہ خندہ پیشانی سے ملتے۔

اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس رباط میں ہوا تو وہاں جنرل صاحب نے بہت موثر خطاب کیا جس کی شہرت چار دانگ ہوئی۔ حکم ملا کہ واپسی پر ان کا استقبال اول درجے کے دورے کے مطابق کیا جائے۔ انہیں اسلامی امہ کے قائد اور ہیرو کے طور پر نمایاں کیا جانا تھا۔ وقت کم تھا لیکن خاطر خواہ انتظامات ہو گئے۔ چکلالہ ائر پورٹ کے اندرونی دروازے سے باہر آئے تو خیر مقدمی نعروں کی گونج بہت زور دار تھی۔ جنرل صاحب گاڑی سے اتر کر پیدل چلنے لگے۔ ہاتھ ہلا کر ذرا دور کھڑے لوگوں کے نعروں کا جواب بھی دیتے جاتے اور اپنے ایک رفیق سے بات بھی کرتے جاتے۔ رفیق ان کی بائیں جانب اور میں رفیق کے بائیں جانب دو قدم چھوڑ کر چل رہا تھا۔ ان کی باتوں کی آواز میرے کان میں پڑ رہی تھی۔ جنرل صاحب نے اپنے ساتھی سے کچھ استفسار بھرا مشورہ کیا۔ وہ کچھ دیر چپ رہے تو میں نے بے خیالی میں لقمہ دے دیا۔ دونوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ واقعی یہ گستاخی اور دخل در معقولات تھی۔ میں معذرت کر کے کئی قدم دور چلا گیا اور اپنی نادانی پر پشیمان ہوتا رہا۔ لیکن مجھے کچھ نہیں کہا گیا۔

ایسے ہی درگزر کا معاملہ اس وقت بھی ہوا جب ایک ہفتہ وار تعطیل کے روز میں نے شام کے وقت مری روڈ کا چکر لگایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اسلام آبا دکی طرف سے آنے والے حصے پر کمیٹی چوک سے کچھ پیچھے شیریں محل کی مشہور مٹھائی کی دکان کے تقریباً بالمقابل دوسری طرف سڑک کو قناتیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے اور ساتھ میں ایک دکان آراستہ و پیراستہ ہو رہی ہے۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ مٹھائی کی نئی دکان کھل رہی ہے جس کا افتتاح راولپنڈی کے رہنے والے، صدر پاکستان کے مشیر، شیخ عشرت علی کر رہے ہیں اور وہ اسلام آباد سے چل پڑے ہیں۔ شہر کی مرکزی شاہراہ کو اس طرح بغیر اجازت و اطلاع بند کر دینے پر مجھے بہت تاؤ آیا۔ میں نے کسی سے پوچھے اور مشورہ کیے بغیر قریبی کمیٹی چوک میں پولیس پوسٹ میں موجود نفری منگوا کر قناتیں ہٹوا دیں اور سڑک پر ٹریفک بحال کر کے چلا آیا۔

گھر پہنچ کر ڈی سی صاحب کو صورت حال بتا دی۔ ایک دو روز خاموشی سے گزر گئے تو میں نے سن گن لینے کی کوشش کی۔ لنگر گپ کے مطابق شیخ عشرت علی ایڈوائزر صاحب نے میئر شیخ غلام حسین صاحب کو ساتھ لیا تھا اور اسی شام اپنی شکایت صدر صاحب تک پہنچا دی تھی کہ کل کے چھوکرے اے سی نے بہت بد لحاظی کی ہے۔ جواب میں صدر صاحب نے اتنا کہا تھا کہ آپ کل کے چھوکروں کو اس طرح کی حر کت کر نے کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر وہ موقع آیا جب صدر کے چھوٹے صاحبزادے انوارالحق، جو ان دنوں میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے، میرے کمرہ عدالت میں آئے۔ ان کی گاڑی کا نو پارکنگ پر چالان ہوا تھا۔ وہ بغیر کسی تام جھام کے عام شہری کی طرح عدالت میں آئے۔ میرے عملے نے مجھے ان کی آمد کا بتایا اور وارننگ دے کر چالان فارغ کرنے کی تجویز دی۔ کچھ خطرات و خدشات سے بھی آگاہ کیا۔ ہاں ان کے عام شہری کے انداز کی میں قدر کرنا چاہتا تھا اور خود بھی تھوڑا محفوظ نکلنا چاہتا تھا لیکن پھر مجھے اس ٹریفک کانسٹیبل کا خیال آ گیا جس نے اتنی بڑی جرات سے صدر پاکستان کے صاحبزادے کا چالان کیا تھا۔ میں نے نظریں نیچی رکھ کر اور جی کڑا کر کے پورے سو روپے کا جرمانہ کیا جو اس خلاف ورزی کی زیادہ سے زیادہ سزا تھی۔ صاحبزادہ صاحب نے خاموشی سے جرمانہ ادا کیا اور اپنے کاغذ واپس لے کر چلے گئے۔

ائر پورٹ پر سب سے اہم استقبالیہ تقریب امریکی نائب صدر جارج ڈبلیو بش کے لیے منعقد کی گئی۔ غالباً اپریل کا مہینہ تھا۔ اس دورے کے لیے پچھلی سب تقریبات سے بڑھ کر انتظامات کیے جانے تھے۔ ائر پورٹ سے قیام گاہ تک چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر بچوں اور لوگوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا کرنا تھا۔ ایک فٹ جگہ بھی خالی نہ رہنے کا حکم تھا۔ دوسرے اضلاع سے اور راولپنڈی کی تحصیلوں کی یونین کونسلوں سے لوگ آئے تھے۔ انتظامی افسران بھی ساتھ تھے۔ ائر پورٹ اور راستے کی سجاوٹ دیدنی تھی۔ سڑک کے کنارے ہزاروں لوگ دو رویہ کھڑے تھے۔ بینڈ گروپ، سکاؤٹس گروپ، جھومر پارٹیاں، ناچنے والے گھوڑے اور سجے ہوئے اونٹ اور خیر مقدمی نغمات، سب مل کر جوش و خروش اور رونق کو بڑھاوا دے رہے تھے۔

میں نے راستے کے استقبالی انتظامات پر آخری نظر ڈالی، سب کچھ ترتیب اور نظم میں تھا۔ میں نے اطمینان کے بعد ائر پورٹ کے اندر کا رخ کیا جہاں مہمان کی آمد آمد تھی۔ چمکتی دھوپ میں ائر پورٹ معمول سے بڑھ کر رنگین اور حسین لگ رہا تھا۔ استقبالیہ قطار جو آخری مرحلہ ہوتا ہے وہ بھی لگ چکی تھی۔ دفعتاً بادل کا ایک آوارہ ٹکڑا کہیں سے نمودار ہوا اور تیز بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ معزز مہمان کے طیارے کو اوپر ہی اوپر فضا میں چکر لگانے کا کہہ دیا گیا۔ سرخ قالین جلدی سے لپیٹ دیے گئے اور استقبالیہ قطار کے معززین بھاگ کر واپس وی آئی پی لاونج میں آ گئے۔ چھت پر کھڑی طالبات اور ان کی معلمات نے قریبی برآمدوں اور کمروں میں پناہ لی۔ کچھ دیر میں بارش رک گئی لیکن اچھا خاصا چھینٹا پڑ چکا تھا۔ فوراً صفائی کی گئی۔ جھنڈیاں، سٹریمر، بینر اور لہریے دوبارہ ٹھیک کیے گئے اور سرخ قالین بچھا کر استقبالیہ قطار کو از سر نو منظم کیا گیا۔

صدر صاحب بھی لاونج سے باہر آ گئے۔ طیارہ جو اتنی دیر فضا میں چکر لگا رہا تھا اب اترنے کو تھا مگر میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کیا کہ جہاز کے اترنے سے پہلے باہر کے حالات کا جائزہ لیا جائے۔ میں امریکی نائب صدر سے مصافحہ کر نے اور اسے قریب سے دیکھنے کی بجائے باہر نکلا۔ استقبالی راستے کا منظر دیکھا تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میلوں میل سڑک بالکل ویران اور سنسان پڑی تھی۔ ایک بھی ذی نفس استقبال کے لیے موجود نہ تھا۔ میں نے وائر لیس پر ہاہاکار مچا دی۔ اپنے انتظامی افسروں کو سخت سست کہا۔ دوسرے اضلاع سے آئے ہوئے افسروں سے احتجاج کیا اور سب لوگوں کو واپس اپنی اپنی جگہ پر آنے کے لیے کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ لوگوں نے بارش سے بچنے کے لیے قریبی درختوں یا قریب ہی پوشیدہ جگہوں پر پارک کی گئی بسوں میں جا کر پناہ لی تھی۔ پندرہ بیس منٹ کی سخت محنت، دوڑ دھوپ، لڑائی جھگڑے کے بعد ہم اس قابل ہو گئے کہ جب گارڈ آف آنر کے بعد استقبالی قطار سے مل کر معزز مہمان کی گاڑی ائر پورٹ سے باہر آئی تو ہمارا آخری خالی گوشہ بھی بھر چکا تھا۔

بارش کے بعد ماحول اور سب کا موڈ بھی خوش گوار ہو گیا تھا۔ ہزاروں کے ہجوم نے دل و جان سے معزز مہمان کا والہانہ استقبال کر لیا۔ اس شام میرے گھر پر آنے والا کیک بھیجا تو ڈی سی صاحب نے تھا لیکن یہ آیا ایوان صدر سے تھا۔ اس کیک میں پنہاں ملکی عزت کی پاسداری کا پیغام آج بھی میرے اندر رس گھولتا ہے۔

جنرل ضیا الحق راولپنڈی شہر میں مختلف تقاریب کے سلسلے میں آتے رہتے تھے۔ ہر سال یوم پاکستان کی پریڈ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں ہوتی تھی۔ یہیں یوم آزادی پر سکاؤٹس جمبوری بھی منعقد ہوتی تھی۔ کبھی کبھار وہ راولپنڈی آرمی کلب میں بنائے جانے والے عارضی اسٹیڈیم میں کر کٹ میچ یا ٹینس میچ دیکھنے بھی آ جاتے تھے۔ وہ لیاقت ہال میں ہونے والی طرح طرح کی تقریبات میں بھی آ جاتے۔ جب ان کی صاحبزادی زین، جو کہ طفل خصوصی تھی، ہمراہ ہوتی تو جنرل صاحب کا موڈ نہایت خوشگوار ہوتا۔

ملک چین کے ملحقہ صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کے لیے حج کا انتظام براستہ پاکستان انہوں نے کروایا تھا اور یوں شاہراہ قراقرم کے ذریعے آنے والے اس طرح کے چینی حاجیوں کی آمد و رفت کے موقع پر وہ ان کے چھوٹے سے ہوٹل میں ملاقات کے لیے آ جاتے تھے اور انہیں بہت اپنائیت سے ملتے تھے۔

ان مواقع پر انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملتا۔ کئی دفعہ میں نے محسوس کیا کہ شاید ان کا چہرہ پوری طرح دھلا ہوا نہیں۔ میں آپ ہی آپ اس پر حیران ہوتا۔ پھر ایک دفعہ جرات کر کے میں نے ایوان صدر میں ان کے قریبی لوگوں سے پوچھ ہی لیا تو پتہ چلا کہ وہ تہجد کے لیے باقاعدگی سے اٹھتے ہیں اور ان کی نیند پوری ہونے سے رہ جاتی ہے جس کا مداوا وہ گاڑی میں آتے جاتے سو کر کرتے ہیں اور یوں گاڑی میں پوری کی جانے والی نیند کے اثرات ان کے چہرے پر رہ جاتے ہیں۔

میں نے انہی دنوں میں ایک اور بات بھی محسوس کی جس کا ذکر میں نے نہ کسی سے کیا نہ کر سکتا تھا۔ کچھ عجیب اتفاقات ہوئے تھے۔ جنرل صاحب جب کبھی گورنر ہاؤس مری میں دو تین روز کے لیے مقیم ہوئے ان کی واپسی پر اندرون ملک یا بین الاقوامی طور پر کوئی بڑی خبر بن گئی۔ شاید وہ ملکہ کوہسار کے بلند و بالا سکون و سکوت میں راج نیتی پر گہرا دھیان گیان کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ جہاں کیے گئے فیصلوں سے ان کے مخالفین اور دشمن اکثر بھاری زک اٹھاتے۔

کھلی تقریبات میں ہم صدر صاحب کی گفتگو اور خطابات کو لفظ بہ لفظ سنتے، لیکن ان کا عوامی خطاب میں نے آرمی فٹ بال اسٹیڈیم میں سنا تھا جہاں 1984 کے صدارتی ریفرنڈم کے سلسلے کا آخری جلسہ ہوا تھا۔ بیس دسمبر کو ریفرنڈم کا انعقاد ہو نا تھا اور یہ جلسہ غالباً 18 دسمبر کی سہ پہر کو ہوا تھا۔ ڈویژن بھر سے لوگ اس جلسے کے لیے لائے گئے۔ اب دو ہی باتیں یاد رہ گئی ہیں۔ ایک تو چکوال کو ضلع بنانے کا اعلان ہوا تھا اور دوسرا یہ کہ میں نے صرف واسکٹ پہنی ہوئی تھی اور مری سے آنے والی یخ بستہ ہوا اتنی کٹیلی اور نوکیلی تھی کہ پورے جسم کے آر پار ہو رہی تھی اور نہ کوئی پناہ تھی، نہ جائے فرار۔

اس ریفرنڈم کے دلچسپ سوال، دلچسپ تر استدلال اور دلچسپ ترین نتیجہ برآمد کر نے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ میرے قلب و دماغ اس سوال کے جال میں آنے سے انکاری ہو گئے اور میں نے نفی میں ووٹ ڈالا لیکن ناک کے نیچے ہونے کے باوجود محفوظ رہا۔ یوں بھی میں نے کون سا کسی کو بتایا یا جتایا تھا۔ راولپنڈی شہر میں ویسے بھی کوئی خاص سختی نہیں کی گئی تھی اور کئی دوسرے اضلاع کے مقابلے میں، جہاں گرم جوشی یا سختی کی وجہ سے ووٹوں کی شرح 80 سے 100 فیصد تک رہی، یہاں شرح رائے دہندگی 35 فیصد کے آس پاس تھی۔

ریفرنڈم سے ہفتہ عشرہ قبل میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ان سے ضروری فائلیں نکلوا رہا تھا کہ صدر ضیا الحق کا ایک دو ماہ پہلے آنے والے ڈپٹی کمشنر صفدر جاوید سید کو فون آیا۔ صدر صاحب نے مشورہ مانگا کہ ریفرنڈم میں ووٹنگ کے لیے شناختی کارڈ کی شرط رکھی جائے یا نہیں۔ یہ بحث ان دنوں عام تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے سنبھلتے ہوئے بہت متوازن اور موزوں الفاظ میں رائے دی کہ شناختی کارڈ کو لازم کر نے سے ریفرنڈم کی ساکھ میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ صدر صاحب نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد خواجہ ظہیر احمد کی بھی یہی رائے ہے۔ فیصلہ لیکن برعکس ہوا۔ نہ صرف شناختی کارڈ کی شرط نہیں رکھی گئی بلکہ ریفرنڈم کے روز گیارہ بجے کے بعد اس پولنگ سکیم کو جو ہم نے انتہائی محنت اور جز رسی سے ترتیب دی تھی ختم کر دیا گیا۔ اب آپ پورے ملک میں کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ ڈال سکتے تھے۔ بلکہ مسافروں کے لیے بھی ریلوے اسٹیشن وغیرہ پر ووٹنگ کا اہتمام ہو گیا تھا۔ اور یوں ریفرنڈم کا عمل صبح گیارہ بجے تک منصفانہ اور پھر مکمل طور پر آزادانہ ہو گیا۔

ایک ناگوار چبھن جنوری کی اس شدید سرد رات کی ہے جب بارہ بجے کے بعد مجھے کمشنر صاحب کا فون آیا کہ اس وقت کے مشہور انگریزی اخبار میں، جو اگرچہ سرکاری ملکیت میں تھا، ایک ایسا مضمون چھپ گیا ہے جو حکومت وقت کو کسی صورت قبول نہیں اور اب اس روز کے شمارے کی کوئی کاپی پریس سے باہر نہیں آنی چاہیے۔ میں نے سرگودھا گاؤں سے آئے اپنے ہم جماعت بھائی کو ساتھ لیا اور پشاور روڈ کی ایک گلی میں واقع پاکستان ٹائمز اخبار کے پریس جا پہنچا۔ اس زمانے کی جدید مشین یعنی فیکس کی نگرانی میں نے خود کر لی اور باقی تمام دروازوں کی پولیس اور انتظامی مجسٹریٹوں نے۔ صبح تڑکے تک ہم ادھر بیٹھے رہے اور جب اخبار لینے کے لیے آنے والی تمام گاڑیاں واپس ہو گئیں اور چھپ جانے والی تمام کاپیاں وزارت اطلاعات کے حوالے ہو گئیں تو ہم چلے آئے۔

مارچ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہو گئے۔ نئی اسمبلی وجود میں آ گئی۔ آٹھویں ترمیم پاس ہو گئی۔ مارشل لا اٹھ گیا اور سول حکومت قائم ہو گئی۔ اب صدر ضیا الحق کا عوامی مقامات پر آنا جانا بہت کم ہو گیا۔ دوسرے میں بھی ترقی پاکر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تعینات ہو گیا۔ میرے فرائض کی نوعیت بھی بہت حد تک بدل گئی اور صدر صاحب سے سامنا اب تقریباً معدوم ہو گیا۔

جون 1988 میں ملک واپسی پر لاہور سیکرٹریٹ میں محکمہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ میں بطور ڈپٹی سیکرٹری تعیناتی ہو گئی۔ دو ماہ بعد صدر ضیا الحق کے طیارے کو حادثہ پیش آ گیا۔ ٹیلی ویژن پر خبر نشر ہونے سے کافی پہلے راولپنڈی انتظامیہ کے پرانے ساتھی مجھے بتا چکے تھے کہ صدر کا طیارہ Pak 1 واپس نہیں آیا۔ جنرل صاحب کی ناگہانی موت کا سوگ جس طریق سے پورے ملک نے منایا اور ان کے جنازے میں جس طرح اور جس جذبے سے عوام نے شرکت کی اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ ساتھ میرے اندازے بھی غلط ثابت کر دیے۔ وہ پاکستان کی مڈل کلاس، قدامت پسندوں اور دینی طبقے میں بہت مقبول تھے اور غیر محسوس طریقے سے ان کے دلوں میں بہت اندر تک اتر چکے تھے۔ ان کے مخالفین تو لہک لہک کر گاتے رہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے لیکن عامة الناس نے بہت بڑے پیمانے پر ان کی رحلت کا دکھ محسوس کیا۔

جنرل ضیا الحق کی شخصیت سے میرا آخری سابقہ اگست 1995 میں پڑا۔ اس مرتبہ سامنا مرحوم کی تصاویر سے ہوا۔ میں ایک ماہ قبل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی تعینات ہوا تھا۔ یکم اگست سے راولپنڈی شہر کے چوکوں میں جنرل صاحب کی بڑی بڑی تصاویر لگنا شروع ہو گئیں جن میں روز بہ روز اضافہ ہو تا گیا۔ پتہ چلا کہ ہر سال 17 اگست کو ان کی برسی تک یہ تصاویر اسی طرح لگائی جاتی ہیں۔ اگست کے پہلے ہفتے کے اختتام پر چوک ان تصاویر سے بھر چکے تھے۔ خاص طور پر اسلام آباد ایکسپریس وے پر کرال چوک سے کچہری چوک تک اور آگے مال روڈ پر ان کی کثرت تھی۔ ادھر 14 اگست یوم آزادی کے سلسلے میں تصاویر، بینر لگنے اور تزئین و آرائش کا کام شروع ہو گیا۔ 10 اگست کو میں نے محسوس کیا کہ جنرل صاحب کی تصاویر اور نعرے یوم آزادی کے نشانات پر بازی لے جا رہے ہیں تو میرا دل باغی ہو گیا۔ کوئی شخصیت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ پاکستان اور اس کے یوم آزادی پر فوقیت حاصل نہیں کر سکتی۔ میں نے جنرل صاحب کی تمام تصاویر اور نعروں والے بینر اس پیغام کے ساتھ اتروا دیے کہ چودہ اگست کو رات بارہ بجے یوم آزادی گزرنے کے فوراً بعد انہیں دوبارہ لگا دیا جائے یا ان میں اور بھی اضافہ کر دیا جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ یہ کام دس اور گیارہ اگست کی درمیانی شب کیا گیا۔

جنرل ضیا الحق کے بڑے صاحبزادے جناب اعجاز الحق ایم این اے اس پر بہت چیں بہ جبیں ہوئے اور رات ایک بجے میری سرکاری رہائش گاہ پر احتجاج کے لیے آ گئے۔ میں سو رہا تھا۔ محافظوں نے نہ ہی مجھے جگایا، بتایا اور نہ ہی انہیں اندر آنے دیا۔ وہ اور بھی ناراض ہو کر چلے گئے۔ اگلے دن میں نے ان سے بات کر کے اپنا مطمح نظر بتانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مجھ سے رابطہ قبول نہ کیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ میں نے یہ سب اس حکومت کے کہنے پر کیا حالانکہ میں نے تو اپنے کمشنر تک سے نہ پوچھا تھا اور نہ بعد میں بتایا۔ بس پاکستان اور یوم آزادی میرے دل و دماغ پر چھا گئے تھے اور میں نے یکسو ہو کر فیصلہ کر دیا۔ میں اگلے سال اگست 1996 میں ادھر ہی تھا۔ اس بار 14 اگست سے قبل جنرل ضیا الحق کی تصاویر نہیں لگائی گئیں۔ 15 اگست سے تصاویر اور بینر لگے لیکن بہت کم تعداد میں، نیم دلی بلکہ بے دلی سے۔ کیوں؟ اس کی وجہ میں آج تک نہیں جان پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments