قومی سلامتی پالیسی کیا ہے؟


جمعہ کے دن قومی سلامتی کونسل کے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا، اجلاس میں شریک وفاقی وزراء، فوجی افسران اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے نمائندوں نے نئے حالات میں دہشت گردی کی تازہ لہروں سے نمٹنے کی پرانی پالیسی پہ نظرثانی کے علاوہ مغربی بارڈر پہ افغان سیکیورٹی فورسز کی طرف سے بڑھتے ہوئے فائرنگ کے واقعات اور ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔

بلاشبہ مغربی اشرافیہ کی ڈیڑھ سو سالوں پہ محیط افغان پالیسی کے تناظر میں اس اجلاس کا ایجنڈا ہماری سیاسی اور فوجی لیڈرشپ کی صلاحیتوں کا امتحان اور مربوط قومی سلامتی پالیسی کے تعین کا نقط آغاز بن سکتا ہے۔ اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو اس خطہ میں پچھلے 43 سالوں سے پروان چڑھنے والی مذہبی و لسانی تحریکوں کی کوکھ سے جنم لینے والی گوریلا جنگوں اور ان کے تدارک کی خاطر کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے نتیجہ میں معاشرے پر سرکاری اداروں کی گرفت کمزور، سیاسی عمل مفلوج اور ثقافتی رشتوں کے بندھن کمزور ہونے سے باغیانہ سرفروشی کے ایسے کلچر کو فروغ ملا، جس کی حرکیات وقفہ وقفہ سے یہاں تشدد کو ابھارنے کا ذریعہ بنی، جسے کچلنے کے لئے بار بار فوجی آپریشن لانچ کرنا پڑے۔

گزشتہ بائیس سالوں کے دوران لانچ ہونے والے درجنوں چھوٹے بڑے فوجی آپریشنز نے مملکت کے آئینی نظام کے انہدام اور تہذیب و تمدن کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے علاوہ معاشرے کی ان نازک انگلیوں کو کچل ڈالا جو دکھوں سے لبریز فانی زندگی کو جینے کے قابل بنانے کی خاطر فن و ثقافت کی آبیاری کرتی رہیں، چنانچہ اب یہاں خوشی و غم کے مظاہر، معاشی و اقتصادی عوامل، نجی و اجتماعی بود و باش اور سوچنے کے انداز بدل گئے اور اسی تغیر و تبدل میں معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی سرکاری اتھارٹی غیر موثر ہوتی گئی۔

پاک فوج کی طرف سے 2001 کے بعد کیے جانے والے چھوٹے بڑے آپریشنز میں، آپریشن پائیدار آزادی ( 2001۔ 2002 ) ، آپریشن المیزان ( 2002۔ 2006 ) ، آپریشن زلزلہ ( 2008 ) ، آپریشن شیر دل، راہ حق، راہ راست ( 2007۔ 2009 ) ، آپریشن راہ نجات ( 2009۔ 2010 ) اور 2014 کا ”ضرب عضب“ آپریشن قابل ذکر ہیں۔ ان میں ٹی این ایف جے کے خلاف سوات کا آپریشن المیزان، جنوبی وزیرستان کا آپریشن راہ نجات اور شمالی وزیرستان کا آپریشن ضرب عضب لاکھوں شہریوں کی نقل مکانی کی کلفتوں سے دوچار کرنے کا وسیلہ بننے کے علاوہ ملک بھر میں پرتشدد کارروائیوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنا۔

ان تمام فوجی آپریشنز کی ضرورت و اہمیت سے قطع نظر ریاست طاقت کے اضافی استعمال کے مضمرات نے عمرانی اصولوں کو گزند پہنچا کر ریاست اور شہری کے درمیان رشتوں کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت ہماری عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کی دہشتگردی کو کچلنے کی خاطر شہریوں کا ٹوٹا ہوا بھروسا واپس حاصل کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اگر ہم فرانسیسی مفکر ڈیوڈ گیلالو کی طرف سے قائم کردہ انسداد بغاوت کے پیمانوں پہ دہشتگردی کے خلاف اپنے ریاستی ردعمل کی نوعیت کا جائزہ لیں تو تشدد کے خلاف ہمارا ریاستی بیانیہ بے اثر اور مایوس کن دکھائی دے گا۔

ڈیوڈ گیلالو کہتے ہیں کہ انسداد دہشتگردی کے چار ”قوانین“ میں سے اہم ترین قانون، انسانی آبادیاں ہیں یعنی عوام کی حمایت انسداد بغاوت مہم کا بنیادی ٹول ہے، آبادی کے تعاون کے بغیر باغیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور مزید بھرتیوں کو روکنا ناممکن ہو گا۔ اس طرح کی حمایت معاشرے کی اس فعال اقلیت سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے جو تشدد کی خفیہ یا کھلی حمایت کرتی ہے، دہشتگردی کے خلاف آپریشن کرنے والے نسبتاً غیر جانبدار اکثریت کو جمع کر کے باغیوں کی حمایت پہ کمر بستہ اقلیت کو بے اثر بنا سکتے ہیں۔

لیکن وسیع آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ حمایت مشروط ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہی ہے کہ عوامی حمایت کے حصول کے بعد آپ کیا کرتے ہیں؟ اگر ریاستی اداروں کا طرز عمل آبادی کے لئے ناگوار ہو تو یہ حمایت ختم بلکہ مخالفت میں بدل جائے گی۔ انسداد بغاوت کا آخری قانون ”کوشش کی شدت اور وسائل کی وسعت“ کا حوالہ دیتا ہے۔ چونکہ انسداد بغاوت کے لیے کوششوں، وسائل اور اہلکاروں کی بڑی تعداد کی ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ اس بات کا امکان نہیں کہ اسے ایک ہی وقت میں ہر جگہ موثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے بلکہ مختصر وقت میں منتخب علاقوں میں ایسی موثر کارروائی ہو، جسے ضرورت کے مطابق جلد دوسری جگہ منتقل کر دینا چاہیے۔

اس طرح، انسداد بغاوت کے اصولوں کے مطابق، یہ ضروری ہے کہ کلیئر ہونے والے مختلف علاقوں میں سویلین انتظامیہ کو فی الفور فعال بنانے کے علاوہ عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کے لئے سیاسی قیادت کی مسلسل کوششیں بروئے کار لائی جانی چاہئیں ”۔ مگر افسوس کہ ہمارے تجربات انسداد بغاوت کے متذکرہ اصولوں سے میل نہیں کھاتے، سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد ضلع کے انتظامی اور سیاسی امور سویلین لیڈر شپ کو منتقل کرنے میں تاخیر کی بدولت بحالی کا عمل بری طرح متاثر ہوا جس نے ایک موثر آرمی آپریشن کے فوائد کو گنوا دیا۔

اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی انضمام کے باوجود سویلین اتھارٹی کو اختیارات منقتل کرنے میں غیرمعمولی تاخیر کے علاوہ بحالی اور ترقیاتی کاموں کو فورسز کے حوالے رکھنے سے ایسے لاینحل مسائل نے سر اٹھا لیا جو کسی سے سنبھالے نہیں جا رہے۔ چنانچہ تمام تر مساعی کے باوجود متذکرہ علاقوں میں سماجی عمل ریگولیٹ ہو سکا نہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے۔ اس وقت جنوبی وزیرستان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کم و بیش دس ہزار نفوس پہ مشتمل ایف سی کی مکمل کور کے علاوہ کم و بیش 25 ہزار جوانوں پہ مشتمل فوج کی پانچ بریگیڈز اور پولیس رینج کے 5 ہزار اہلکاروں سمیت گیارہ سے زیادہ خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی پہ اربوں روپے ماہانہ خرچ اٹھنے کے باوجود پولیس سڑکوں پہ گشت کر سکتی ہے نہ شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہے۔

وزیرستان کے حالیہ دورہ کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بتایا گیا کہ یہاں حافظ گل بہادر گروپ کے دو سو بیس جنگجو فعال ہیں، انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے ملک بھر میں فقط پانچ سو کے لگ بھگ متحرک دہشتگرد فعال پائے جاتے ہیں، اسی طرح وانا سے ڈیرہ اسماعیل خان تک بمشکل نوے پچانوے ( 90 / 95 ) اور ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں شیرین گروپ کے کل پندرہ دہشتگردوں نے ریاستی اداروں کو انگیج رکھا ہوا ہے۔

خطہ میں سیکیورٹی کے نام پہ شہریوں کے بنیادی حقوق معطل، کئی مرکزی شاہراہیں بند، اقتصادی سرگرمیاں محدود اور عام شہریوں کی نقل و حمل پہ قدغنیں عائد ہیں۔ بارڈر ایریاز میں ایم آئی، آئی بی اور آئی ایس آئی کے علاوہ اسپیشل برانچ اور ہر بریگیڈ کا الگ الگ انٹیلیجنس نیٹ ورک کام کرتا ہے، جن کے مابین بے مقصد مقابلہ کی فضا اور کوارڈینشن کا فقدان شرپسند اقلیت کے خاتمہ کی راہ میں حائل ہو گیا۔ سیکیورٹی فورسز کو بحالی اور ترقیاتی کاموں میں مصروف رکھنے سمیت انسداد دہشتگردی میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال سے گریز بھی قیام امن کے جلد حصول کی راہ روک رہا ہے، اگر گورنمنٹ مرکزی شاہراہوں پہ درجنوں ناکے لگا کر شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے کی بجائے دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور دورافتادہ مشتبہ گھروں کی نگرانی کے لئے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی تو سماجی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر مقصد کا حصول ممکن تھا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دہشتگرد نقل و حمل کے لئے مرکزی شاہراہوں کو استعمال نہیں کرتے، انہیں اپنی کارروائیوں کے لئے غیر روایتی راستوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے مرکزی شاہراہوں، تفریح گاہوں اور مصروف سڑکوں پہ چیک پوسٹوں کے جال بچھا کر عام شہری کو مخالف پول میں دھکیل کر معاشرے کے موثر طبقات کی حمایت کھو دی۔ پی ٹی ایم کے نمایاں رہنما محسن داوڑ قبائلی علاقوں میں برسرپیکار طالبان جنگجووں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کی کھل کے حمایت کرتے رہے لیکن اب بوجوہ وہی محسن داوڑ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیوں میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف مزاحمت پہ اتر آئے۔

قصہ کوتاہ، انسداد دہشتگردی کی عسکری مہمات کو کامیاب بنانے کے لئے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے علاوہ سیکورٹی اداروں کے درمیان موثر کوآرڈینیشن کا ہونا از بس ضروری ہے۔ انٹیلیجنس گیدرنگ کا پوار نظام ایم آئی، آئی بی اور آئی ایس آئی جیسے پروفیشنل اداروں کے سپرد رہنا چاہیے، فوجی آپریشن کے ذریعے کلیئر ہونے والے علاقوں کو فی الفور سول انتظامیہ کے حوالے کر کے وہاں سیاسی لیڈر شپ کو کام کرنے کی راہ دی جائے اور سیکیورٹی فورسز کو بحالی اور ترقیاتی عمل کی پیچیدگیوں سے الگ کر کے اپنے ڈیٹرنٹ کو زیادہ موثر بنانے کا موقعہ دیا جائے تو اب بھی چند دنوں کے اندر قیام امن کے خواب کی تعبیر مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments