ماں ہونے کا جرمانہ


میرا یو ایس ایم ایل ای کا دوسرا اسٹیپ سر پر تھا اور بچے دونوں چھوٹے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ان کے شو ر شرابے سے تنگ آ کر خود کو کلازٹ میں بند کر لیا اور زمین پر بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کی۔ نوید دروازے کے نیچے سے منہ لگا کر زور زور سے رو رہا تھا اور عائشہ بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔ ممی ممی! حالانکہ گھر میں وہ کھیل کود بھی کر سکتے تھے، ہر وقت تو ماں کے سر پر سوار ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ کچھ بھی پڑھنا، لکھنا یا کرنا انتہائی مشکل کام ہیں۔

ہم دل میں گناہگار بھی محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کو وقت نہیں دے رہے۔ لیکن ہمارے پڑھنے، لکھنے یا نوکری کرنے سے ان بچوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔ کئی اسٹڈیز سے یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ جو خواتین پڑھی لکھی ہوتی ہیں اور جاب کرتی ہیں، ان کے بچے دنیا میں زیادہ ذہین اور کامیاب ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی بیٹیاں آگے چل کر لیڈر بنتی ہیں اور دنیا کو بہتر جگہ بنانے پر کام کرتی ہیں۔

پاکستان دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے آبادی بڑھا رہا ہے۔ یہاں فرٹیلٹی کا تناسب ایک خاتون کے لیے پانچ بچے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں صحت کی خدمات کا فقدان ہو، ماں بننا ہر بار خود کو موت کے منہ میں بھیجنے کے مترادف ہے۔ کچھ بھی غلط ہو سکتا ہے، کسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور جتنے بچے ہوں گے اتنی ہی خراب صحت ہوگی۔ امریکی سینسس بیورو نے باقاعدہ اعداد و شمار سے یہ بات سامنے رکھی ہے کہ بچے پیدا کرنے سے خواتین کی آمدن گھٹتی ہے۔ اور بچے کے دس سال تک ہو جانے تک ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کو مدرہڈ پینالٹی یا ماں بننے کا جرمانہ کہتے ہیں۔ دوسری طرف باپ کو بچے ہونے سے فائدہ ہوتا ہے جس کو فادرہڈ بونس کہتے ہیں۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گھریلو خواتین فارغ رہتی ہیں اور ان کو کوئی کام نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کئی اداروں نے حساب کر کے بتایا ہے کہ امریکہ میں اوسطا خواتین ایک ہفتے میں 28 گھنٹے مفت خدمات اپنے گھروں میں انجام دیتی ہیں۔ اگر ان کو کم ترین تنخواہ بھی ملے تو یہ ساڑھے چار سو ڈالر فی ہفتہ بنتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ گھریلو خواتین کا چھٹی کا دن کوئی نہیں ہوتا۔

سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ خواتین کے ایک ہی وقت میں کئی کام کرتے رہنے اور بہت ذمہ داریاں ہونے کی وجہ سے ان کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حالانکہ ایک بچہ دونوں ماں اور باپ کی ذمہ داری ہوتا ہے لیکن جب وہ آدھی رات میں روتا ہے تو ماں ہی اس کے لیے جاگتی ہے۔ جب خواتین کو پوری نیند اور آرام میسر نہ ہو تو ان میں چڑچڑا پن، یاداشت کی کمزوری، موٹاپے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ان کی مدد کرنے کے بجائے خواتین کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بات کرنے، ٹی وی دیکھنے یعنی ہر نارمل کام پر مستقل تنقید اور مزاح جاری اور ساری ہیں۔ اپنی بیویوں کا مذاق بنانا ہماری تہذیب کا بڑا حصہ ہے۔ حالانکہ جو بھی اپنے حالات میں ناخوش ہو، اس کو اپنے حالات بدل دینے چاہئیں اور اپنے ساتھی کے بارے میں مثبت اور شکرانہ خیالات رکھنے چاہئیں۔

جب ہم چانڈکا میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے تو وہاں لڑکیاں صبح میں کالج کی لائبریری جاتی تھیں اور شام میں صرف لڑکے لائبریری پڑھنے جاتے تھے۔ ہم نے ایک گروپ بنایا اور شام میں بھی کالج کی لائبریری میں پڑھنے جانے لگے۔ اس کے علاوہ کالج سے باہر شاہنواز لائبریری تھی۔ وہاں بھی ہم پیدل چل کر پڑھنے چلے جاتے تھے۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ برابر فیس دینے کی وجہ سے ہمارا بھی کالج کی لائبریری پر اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا کہ کالج کے لڑکوں کا۔

اور لاڑکانہ شہر کی لائبریری پر اس کے ہر شہری کا برابر کا حق ہے۔ شام میں جب ہم وہاں بیٹھے پڑھ رہے تھے تو ہم نے اپنی کلاس کے لڑکوں کو ایک دوسرے سے گالی گلوچ اور چلا کر باتیں کرتے سنا۔ حالانکہ وہ صبح میں کبھی اس طرح بات نہیں کرتے تھے۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ دوسری طرف کالج کی لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ اسی لیے ہر لیول پر خواتین کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جب ان گروپس میں خواتین موجود ہوں تو لوگ مذاق کرنے سے پہلے ٹھہر کر ایک لمحہ سوچیں گے۔

آج کی عدنان کاکڑ کی اردو بلاگنگ کی کلاس میں رخسانہ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ بچوں کے ساتھ کس طرح پڑھنے لکھنے میں شامل رہا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے میں نے یہ مضمون لکھا ہے۔ ان میں سے سویرا نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنے بچوں کو بھی اپنے پراجیکٹس میں شامل کریں۔ اس طرح نہ صرف یہ آپ کی تخلیقی کاوش ہوگی بلکہ اس کے ساتھ ایک فیملی ایکٹیویٹی بھی بن جائے گی۔

اپنے دماغ کی حفاظت کرنا اور خود کو تخریب کار افراد سے دور رکھنا بہت اہم ہے۔ سب کچھ شاید پہلے سے لکھا جا چکا ہو لیکن وہ آپ کے نقطہ نظر کی جگہ نہیں لے سکتا۔ خواتین کا ہر میدان میں سامنے آنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تخلیقی کام کے لیے وقت نکالنے کے لیے خواتین کو ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔ اگر بچے اپنی ماں یا دوستوں کے پاس کچھ گھنٹے چھوڑ کر لائبریری میں بیٹھ کر سکون سے چند لمحے گزارے جائیں تو آپ کے اندر جو خزانے چھپے ہوئے ہیں، وہ دنیا کے سامنے آ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments