بولرز جو شام کا سبق صبح بھول بیٹھے، سمیع چوہدری کا کالم


پاکستان، نیوزی لینڈ
مستقل مزاجی کسی بھی بولر کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ بھانت بھانت کے تجربات دہرانے کے بجائے جو لائن لینتھ بلے باز کے لیے ذرا سی بھی دشواری کا باعث بن رہی ہو، اسی لکیر کو پیٹتے چلے جانا ہوتا ہے تاآنکہ بلے باز کا صبر جواب دے بیٹھے۔ 

عموماً نوجوان سپنرز جب محدود فارمیٹ سے ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی بنیادی الجھن یہی رہتی ہے کہ وہ بلے باز کا صبر آزمائیں یا پھر اپنا۔ جہاں طبیعت میں تیزی واقع ہو، وہاں نوجوان بولر ایک ہی اوور میں اپنی ساری ورائٹی آشکار کر بیٹھتے ہیں۔ 

پہلے ٹیسٹ میں ابرار احمد نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ ولیمسن جیسے گھاگ بلے باز کے لیے کوئی سرپرائز پیکج باقی نہ رہنے دیا۔ ایک ہی اوور کی چھ گیندوں میں ابرار نے اپنی تمام ورائٹی آزما چھوڑی اور اس کے بعد کے دو دن خود ولیمسن کے رحم و کرم پر ہو رہے۔ 

دوسرے ٹیسٹ کی پہلی صبح بحیثیتِ مجموعی پاکستانی بولنگ بھی کچھ ایسی ہی غلطی پر آمادہ دکھائی دی۔ جہاں بلے بازی کو سازگار ماحول میں ڈسپلن اور صبر سے مسلسل ایک ہی لائن کی کھوج میں رہنا ضروری تھا، وہاں مختلف النوع تجربات کا رجحان نظر آیا۔ 

اس تجرباتی عمل کی بہترین مثال میر حمزہ رہے، جو ایک ہی اوور میں کم از کم تین الگ لائنز اور چار مختلف لینتھ پر تجربات کرتے ہیں۔ اور اس سارے عمل میں پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اگر کسی لینتھ سے بلے باز ذرا گڑبڑا بھی جائے تو وہ دوبارہ اس لینتھ کو کھوجنے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ اگلی گیند پر کسی نئے تجربے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ 

اس عمل نے جہاں پہلے روز کے ابتدائی دو سیشنز میں پاکستانی کیمپ کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا، وہیں تیسرے سیشن میں پیس اٹیک ریورس سوئنگ کے بل پر پاکستان کو یوں کھیل میں واپس لے آیا کہ ایک مرحلے پر کیویز کے لیے 350 کا ہندسہ بھی پہاڑ سا دکھائی دے رہا تھا۔ 

پاکستان، نیوزی لینڈ

یہ وہ وقت تھا جب نسیم شاہ اپنی پیس اور درستی کے امتزاج سے کیوی مڈل آرڈر کی زندگی دشوار کر رہے تھے۔ چائے کے وقفے کے بعد ان کی سرکردگی میں وحشت برپا کرتے اٹیک کو سلمان آغا کی طرف سے بھی بہت ٹھوس سہارا میسر تھا اور بعید نہیں تھا کہ کیوی اننگز کی بساط 350 سے بھی کم مجموعے پر سمٹ جاتی۔ 

مگر دوسری صبح کے سیشن میں جہاں پہلا گھنٹہ پاکستانی پیس نے نئی گیند سے کیویز کو مدافعتی حصار میں رکھا، وہیں دوسرے گھنٹے میں پاکستانی بولنگ اپنا ہی سیکھا ہوا سبق بھول بیٹھی۔ پاکستانی بولنگ کی غیر ضروری ورائٹی کیویز کے لیے خوش بختی کا سامان بن گئی اور 10 ویں وکٹ کی ساجھے داری ہی 100 سے زیادہ رنز بٹور کر لے گئی۔ 

اور پھر اس کے جواب میں جو جارحیت پاکستانی ٹاپ آرڈر نے دکھائی، وہ کنٹرول سے عاری تھی۔ اندھا دھند جارحیت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ مثبت اپروچ اپنانا جدید ٹیسٹ کرکٹ کی عین ضرورت ہو چلی ہے مگر جب تک کوئی جارح مزاج بلے باز اپنی دفاعی تکنیک پر مکمل بھروسہ نہ رکھتا ہو، یہ جارحیت اس کے لیے گھاٹے کا سودا بن سکتی ہے۔ 

عبداللہ شفیق کی اننگز کا آغاز بہت خوش آئند تھا مگر میٹ ہینری کے داؤ پیچ سے نمٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہینری نے شارٹ پچ لینتھ سے عبداللہ شفیق کو دام میں پھنسایا اور عبداللہ بھی ایسے دام میں آئے کہ لیگ سائیڈ کی ویران آؤٹ فیلڈ میں کھڑے اکلوتے فیلڈر کے ہاتھوں پویلین لوٹنا پڑا۔ 

شان مسعود نے بھی آغاز مثبت اپروچ سے ہی کیا مگر پہلے چار چوکے جڑتے وقت ان کے قدم بھرپور حرکت میں تھے مگر پانچویں کاوش پر قدم کریز میں ہی منجمد رہ گئے اور پوائنٹ فیلڈر نے اُنھیں ڈریسنگ روم کی راہ دکھلا دی۔ 

گذشتہ شام کے سیشن میں پاکستانی پیس نے جیسا شاندار کھیل پیش کیا تھا اور وہاں جو تحریک اس ٹیم کے بھروسے کو ملی تھی، دوسری شام کے اختتام تک وہ تحریک پلٹ چکی تھی اور بابر اعظم کی ٹیم کا اعتماد ایک بار پھر سوالیہ نشان کی زد میں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments