بین المذاہب مکالمہ اور سیاسی شعبدہ بازی


بین الادیان مکالمہ (interfaith dialogue) کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہر عہد میں اس کی ضرورت رہی ہے لیکن بین المذاہب مکالمہ کا احیا کرنے والوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ قرآن مجید نے دوسرے ادیان و مذاہب کی تعلیمات اور مذہبی فلسفے کی یکسر تردید نہیں کی بلکہ حق تک رسائی کے لئے تحقیق کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ پیغمبر اسلام بھی ہر مذہب اور دین کے افراد کے ساتھ مکالمہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں اسلام نے جس تیزی کے ساتھ فروغ پایا اس کی بنیادی وجہ ہر مذہب اور قوم و قبیلے کے ساتھ مکالمہ کا قیام تھا۔ افسوس یہ ہے کہ اس تناظر میں آپ کی سیرت اور سنت کو دیگر ادیان و مذاہب کے درمیان پیش نہیں کیا گیا، ورنہ اسلام نے جس قدر بین الادیان مکالمہ پر زور دیا ہے، شاید ہی کسی دوسرے مذہب نے دیا ہو۔

عصر حاضر میں بین الادیان کانفرنسوں کا انعقاد تیزی کے ساتھ عمل میں آ رہا ہے۔ یہ کانفرنسیں مذہبی تعلیمات کی افہام و تفہیم میں زیادہ معاون ثابت رہی ہوں یا نہیں لیکن ایک اسٹیج پر مختلف مذہبی شخصیات کی موجودگی عوام کے لئے مثبت نتائج کی حامل رہی ہے۔ حالیہ کچھ سالوں میں ہندوستان میں بھی انٹر فیتھ کانفرنسوں کے انعقاد کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ ان کانفرنسوں کا ظاہری ہدف بہت دل فریب ہے لیکن ان کے متوقع سنگین نتائج اور پوشیدہ بھیانک عزائم سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔

افسوس یہ ہے کہ جو لوگ ان کانفرنسوں میں شریک ہو رہے ہیں وہ یا تو ان کے اہداف اور نتائج سے بے خبر ہیں یا پھر ان کے لبوں پر چاندی کی مہریں ثبت کردی گئی ہیں۔ ان کانفرنسوں میں کبھی کسی مسلم اسکالر اور مولوی نے مسلمانوں کی مسلسل حق تلفی اور ہندوستان کی زعفرانی سیاست کے بھیانک روپ پر گفتگو نہیں کی۔ بیگانوں کے ساتھ اپنوں نے بھی مسلمانوں کے متشددانہ مزاج اور اشتعال انگیز ذہنیت کا بکھان کیا، جس کا بیانیہ کچھ سالوں قبل سرکار اور میڈیا کے ذریعہ ترتیب دیا گیا تھا۔

بین الادیان مکالمے کے لئے جدوجہد کرنے والے بین الادیان شادیوں (interfaith marriage) پر سخت معترض ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز عمل ہے جس پر غوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس پر حیرت یہ ہے کہ interfaith marriage کے لئے بھی وہ تنہا مسلمانوں کو مجرم قرار دیتے ہیں۔ interfaith marriageپر قدغن لگانے کے لئے ’لو جہاد‘ کا فرضی بیانیہ تیار کیا گیا، جس کی زد میں آج پورا ملک ہے۔ اگر بین المذاہب مکالمہ قائم ہو گا تو اس کے نتائج بین المذاہب شادیوں کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں، کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے؟

اگر interfaith marriage ہندو راشٹر کے قیام میں رکاوٹ ہے تو پھر interfaith dialogue اور interfaith harmony کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ بین الادیان مکالمے کی بات کرنے والوں کو شرح صدر کا حامل ہونا چاہیے ان کے یہاں کم نظری اور تنگ ظرفی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ یوں بھی بین الادیان شادیوں سے کبھی مذہب اور عقائد کو نقصان نہیں پہونچا۔ کیونکہ عام طور پر ایسی شادیوں میں دلچسپی دکھلانے والا طبقہ مذہبی معاملات میں خود کو سیکولر اور لبرل ظاہر کرتا ہے، اس لئے بین الادیان شادیوں کے پس پردہ ان کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں، مذہبی و عقیدتی اہداف نہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں نے ہمیشہ بین الادیان مکالمے کو ترجیح دی ہے۔ صوفیائے کرام نے ہندوستان میں اس روایت کو خوب فروغ دیا اور اپنی خانقاہوں کے دروازے سب کے لئے کھلے رکھے۔ انہوں نے ہر مذہب کا احترام پیش نظر رکھا اور کسی کے ذاتی عقائد میں مداخلت نہیں کی۔ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی اس سے اچھی مثال اور کہاں مل سکتی ہے۔

ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں نے بھی بین المذاہب مکالمے کے احیاء پر زور دیا۔ ان کے درباروں میں ہر مذہب و عقیدے کے حامل افراد موجود رہتے تھے۔ خاص طور پر مغلوں نے اس روایت کو حتیٰ لامکان فروغ دیا۔ ان کے محلوں میں ہندو رانیوں کی موجودگی نے مذہبی افہام و تفہیم کے باب مزید وا کیے ۔ خاص طور پر اکبر کے عہد میں ’عبادت خانہ‘ کا قیام اور مختلف مذہبوں کی کتابوں اور ہندو اساطیری فلسفہ کا ’اسلامائزیشن‘ ہندوؤں کے ساتھ باہمی روابط کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا۔

دین الہی کے عقائد اور نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ملائی نظام سے برگشتگی کی بنیاد پر ہی اکبر نے نئے دین کی بنیاد گزاری کی تھی۔ اس نئے دین کے قیام کی بنیادی وجہ ملائی نظام کی عدم برداشت اور مختلف مذہبی فلسفوں کی افہام و تفہیم تھی۔ آج بھی مسلمان اسی ملائی نظام کی زد میں ہیں، جس سے باہر نکلنے کی سخت ضرورت ہے۔

بہرکیف! ہندوستان میں انٹرفیتھ کانفرنسوں کے نام پر مسلمانوں کو مشکوک کرنے کا عمل جاری ہے۔ ایک کانفرنس میں اندریش کمار نے کہا کہ ’جو نعرہ پہلے عبادت کے لئے استعمال ہوتا تھا اب فساد اور لڑائی کے لئے ہوتا ہے‘ ۔ انہوں نے ایک مقام پر یہ بھی کہا کہ ’جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے لیکن کچھ لوگ اس کو پتھر بازی کے دن میں بدل رہے ہیں‘ ۔ افسوس یہ ہے کہ ایسی کانفرنسوں میں موجود مسلمان علماء اور خود کو دانشور تسلیم کروانے والے خوش فہم لوگوں نے بھی اس جملے کی تردید یا تنقید نہیں کی۔

کیا مسلمانوں نے کبھی جمعہ کے دن کو سیاسی مفاد میں استعمال کیا ہے؟ سیاسی مفاد بایں معنی کہ انہوں نے جمعہ کی نماز میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت اور صریحی مخالفت کا اعلان کیا ہو؟ کیا وہ نماز جمعہ میں آر ایس ایس کی مکروہ پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہیں؟ یا پھر انہوں نے شدت پسند عناصر سے انتقام کے لئے ملت کو اکسایا ہو؟ جبکہ پورے ملک میں افراطی مذہبی طبقہ عجب افراتفری کا شکار ہے۔ کیرالا، کرناٹک، اترپردیش اور بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں میں مذہبی و سیاسی طبقہ اقلیتوں کے خلاف زہر پاشی کرتا رہتا ہے مگر اس وقت اندریش کمار اور آر ایس ایس کے دیگر کارکنان اس پر کوئی صریحی تبصرہ نہیں کرتے۔

انہوں نے کسی کانفرنس میں ایک بار بھی ’دھرم سنسد‘ کے اشتعال انگیز بیانات اور پرویش ورما جیسے سیاسی رہنماؤں کی نفرت آمیز تقریروں کی مخالفت نہیں کی۔ مقام افسوس یہ ہے کہ انٹر فیتھ کی تمام کانفرنسیں مسلمانوں کے ذریعہ منعقد کرائی جا رہی ہیں اور ہدف ملامت و تنقید بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ کسی ایک کانفرنس میں حکومت یا آر ایس ایس کے نمائندہ نے ’دھرم سنسد‘ کے عزائم اور سیاسی رہنماؤں کی نفرت پاشی پر کوئی واضح تبصرہ نہیں کیا۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انٹرفیتھ کی تمام کانفرنسیں کیوں، کس لئے اور کس کے ذریعہ منعقد ہو رہی ہیں۔ ایسے ایسے دانشور اور علماء ان کانفرنسوں میں نظر آرہے ہیں، جن کی شرکت کے بارے میں ہم کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی شرکت زیر سوال نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسی کانفرنسوں میں مسلمانوں کے موقف اور مظلومیت پر بات کیوں نہیں کرتے؟ یا پھر ان کانفرنسوں میں جن لوگوں کی فنڈنگ ہوتی ہے، تقریر کا ایجنڈا بھی انہی کی طرف سے دیا جاتا ہے ؟

انٹرفیتھ کی کئی کانفرنسوں میں بعض نام نہاد صوفیا یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب اس ملک میں ’سر قلم کردو‘ جیسے نعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے نعروں کی تائید کبھی کسی مسلمان نے نہیں کی بلکہ پوری قوم اس طرح کے نعرے لگانے والوں کے خلاف متحد نظر آئی۔ لیکن جن لوگوں نے گائے کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام کیا، غریبوں اور بے قصوروں کی مآب لنچنگ کی، سی اے اے اور این آرسی کے خلاف ہو رہے احتجاجوں میں گھس کر گولیاں برسائیں، مظاہرین پر بے حد ظلم و تشدد کیا گیا، حد یہ ہے کہ معصوم لڑکیوں پر بھی رحم نہیں کھایا۔

لائبریری میں گھس کر طلبا پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ قرآن مجید کی آیات پر گھناؤنا سیاسی کھیل کھیلا گیا۔ پیغمبر اکرم ﷺ کے کردار کو مسخ کرنے کے لئے ایک مرود شخص کے ذریعہ کتاب تالیف کروائی گئی جس کا مواد زعفرانی رضاکاروں نے آمادہ کیا تھا۔ کیا اس کتاب پر ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ جیسا نعرہ دینے والی سرکار نے کوئی مناسب قدم اٹھایا؟ مسلمانوں کے خلاف ’دھرم سنسد‘ اور دیگر مقامات پر اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، ان کے اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا، ان کی مسجدوں اور عبادت گاہوں کو ہتھیانے کا عمل جاری ہے، اس کے بعد بھی انٹرفیتھ کانفرنسوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندوستان میں اختلاف و انتشار کی باتیں فقط مسلمانوں کی طرف سے ہوتی ہیں۔

کیا گجرات اور مظفر نگر فسادات کے ذمہ دار تنہا مسلمان تھے؟ کیا دہلی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نفرت کی بھینٹ چڑھانے والے مسلمان تھے؟ کیوں سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے یک طرفہ کارروائی ہوتی رہی ہے؟ ایسے موقعوں پر انٹرفیٹھ کانفرنسوں کے بانی اور داعیان کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ کیوں منظر عام پر آ کر وہ نا انصافیوں اور بے اعتدالیوں کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کرتے؟ سب سے زیادہ ذمہ داری علما پر عائد ہوتی ہے مگر وہ اس عہد میں شتر مرغ کی مثال ہیں؟

ہماری مسجدیں مسمار کی جا رہی ہیں، عبادت گاہوں پر قبضے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اقتصادی بائیکاٹ اور نسل کشی کے اجتماعی نعرے دیے جا رہے ہیں، مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کی تیاری ہے، اس کے باوجود ہر انٹرفیتھ کانفرنس میں تنقید کا آسان ہدف بھی مسلمان ہے۔ کیا اب بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد کیا ہے اور کون لوگ ان کانفرنسوں کے انعقاد کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ جب تک مسلمانوں کے درمیان ایسے میر جعفر، میر صادق اور حکیم احسن اللہ خاں موجود ہیں، حالات دگرگوں رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے درمیان موجود غداروں اور منافقوں کو پہچان کر نئی دانشورانہ قیادت کی بنیاد ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments