ملکی ترقی، والدین اور ہمارے بچے


معاشرہ اس میں رہنے والے افراد سے جڑتا ہے۔ فرد اگر مثبت ہے تو معاشرہ مثبت ہو گا، اگر منفی تو معاشرے میں بھی منفی رجحانات ملیں گے۔ جیسا معاشرہ، ویسی قوم، جیسی قوم ویسا ملک۔ اگر کسی بھی ملک و قوم کو ترقی کرنی ہے تو سب سے بنیادی چیز اس ملک میں بسنے والے افراد کی تعلیم و تربیت ہے جس کی بنیاد بچپن میں پڑتی ہے اور پھر تا عمر اس کا اثر رہتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں اکثر بچپن میں بنیادی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میں صرف اسکول کی بات نہیں کر رہا۔ گھر بھی تعلیمی نظام کا ایک اہم جز ہے۔ اکثر والدین بچوں کو اسکول بھیج کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہو گیا اور وہ بری الذمہ ہو گئے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، سائنسی بنیادوں پر یہ بات واضح ہوئی ہے کہ گھر وہ جگہ ہے جس کا اثر اسکول سے زیادہ ہوتا ہے۔ گھر کا مثبت یا منفی ماحول بچے کے ذہن و کردار پر دوررس اثر ڈالتا ہے، ایسا اثر جو اسکول کی بساط سے باہر ہے۔

میں نے آس پاس دیکھا ہے، والدین بچوں کو پوچھتے ہی نہیں۔ ان سے بات نہیں کرتے، ان کی بات نہیں سنتے۔ آپ بچوں کو نہیں سنیں گے تو آپ کو پتہ کیسے چلے گا کہ بچے کن ذہنی، نفسیاتی و جسمانی مراحل کو طے کر رہے ہیں اور ان کی زندگیاں کن قالبوں میں ڈھل رہی ہیں۔ میں نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جن پہ اچانک آشکار ہوتا ہے کہ بات ہاتھ سے نکل چکی ہے اور ان کے بچے کسی ایسی سمت کو چل دیے ہیں جس سمت اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

اس کے بعد ان کے دامن میں پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے والدین کو دھیان دینا چاہیے۔ بچوں کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے۔ انہیں مواقع فراہم کرنے چاہئیں کے وہ دل کی بات کھل کہ کر سکیں۔ جب یہ ہو گا تو پھر بات بنے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین جب اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے لیکن اہم مسائل سے آشنا ہوں گے اور ان کو حل کرنے میں ان کی معاونت کریں گے تو والدین اور بچوں کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے ساتھ گھر کے روزمرہ کے معاملات میں انہیں شامل رکھنا اور ان سے رائے لینا بھی ایک اچھا قدم ہو گا جو بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرے گا۔

کوئی گھر ایسا نہیں جہاں اختلاف رائے پیدا نہ ہو اور والدین آپس میں الجھتے نہ ہوں۔ یہ ازدواجی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جو ہر گھر میں یکساں ہے۔ ایسے معاملات میں یہ ضروری ہے کہ اس الجھاؤ اور تناؤ کو مثبت طریقے سے حل کرنے کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ بچے اس بات کا اثر لیتے ہیں، اس لئے جب ایسی صورتحال ہو تو پرتشدد ردعمل سے گریز کیا جائے۔ اس کی جگہ متبادل طریقے استعمال کرنے چاہئیں جو کہ مثبت ہوں اور معاملہ اپنے منطقی انجام کو خوش اسلوبی سے پہنچے۔

جب ہم ان تمام تر چیزوں کا خیال رکھیں گے تو بچے والدین کے گھر میں خوش و محفوظ محسوس کریں گے اور ان کی اپنے گھر سے خوبصورت، مثبت و خوش یادیں جڑیں گی۔ یوں وہ جب اپنی زندگی میں آگے بڑھیں گے تو خود اعتمادی سے کار ہائے زندگی کو سرانجام دیں گے۔ ایسے بچوں میں آگے چل کے نفسیاتی مسائل و الجھنیں نہیں ہوتی اور وہ معاشرے میں کارگر فرد بن کے ابھرتے ہیں جن سے ملک و قوم کی قسمت بدل جاتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments