دل کی باتیں


سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار مہذب الفاظ اور خوبصورت لہجے میں ہر انسان کا بنیادی حق ہے، یہ حق مجھے اور آپ کو حاصل نہیں کہ ہم کسی سے چھین لیں۔ میں ”خلیل شاکر“ ایک سوشل میڈیا ورکر ہوں، میں اپنے خیالات کا اظہار، اپنا آئینی حق، ظلم کے خلاف احتجاج اور مظلوم کی حمایت کی جنگ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ ہی لڑا ہوں اور تادم لڑوں گا۔ میں جو بات کرتا ہوں اس میں غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے لیکن میری غلطی کی تصحیح کے لئے آپ نے باعزت طور پر سمجھانا ہو گا، دھونس دھمکیوں کے ذریعے بہت سوں نے کوشش کی کہ مجھے رام کر سکیں مگر ناکام رہے۔

محبت میری زبان ہے محبت ہی کی زبان سمجھتا ہوں۔ باقی لالچ، منصب اور عہدے کی مفاد سے بہت دور ہوں۔ جہاں ہوں اور جس روزگار پر ہوں بفضل باری تعالٰی اس پر رب العالمین کا شکرگزار ہوں، جنہوں نے صرف روزگار نہیں بلکہ باعزت روزگار کے ساتھ عزت نفس کی لاج بھی رکھی ہے۔ جو بات عام سوشل میڈیا ورکر اپنے اکاؤنٹ کے بجائے کسی فیک اکاؤنٹ سے کرتا ہے، وہ بات میں اپنے رئیل اکاؤنٹ کے ذریعے دلیل ہی کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ اسی لئے جب بھی کسی مسئلے پر آواز اٹھاتا ہوں بہت سے احباب یہ پوچھتے ہیں کہ اتنی جرات کے ساتھ کسی بھی معاملے پر آواز اٹھاتے کیسے ہو؟

کبھی خوف یا کبھی اس بندے کی طرف سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا؟ تو جواب یہی ہوتا ہے کہ جب انسان ”مفاد“ کی قید سے نکلتا ہے تو پھر خوف کوئی معنی رکھتا ہی نہیں۔ حالانکہ اسی سچ کی پاداشت میں صرف دو ماہ قبل ایف آئی اے اور سائبر کرائم تک شکایتیں لگائی گئیں، صرف شکایتیں نہیں بلکہ اپنوں نے میرے پوسٹوں کی کاپیاں پرنٹ کروا کر درخواستیں لکھوا کر سائبر کرائم کا راستہ بتایا، مگر میں نے بفضل باری تعالٰی اور اپنے بہی خواہ دوستوں کا ساتھ دینے سے بھرپور فیس کیا کامیابی مقدر ٹھہریں۔

اس سے پہلے ایک انٹرویو کیا اس انٹرویو کے بعد ایک قبائلی قوم کی طرف سے جان سے مارنے اور سب کچھ تہس نہس کرنے جو دھمکیاں ملی وہ مجھے اور سمیع گلستانی کو علم ہے مگر پھر بھی میں پیچھے نہیں ہٹا، یہ استقامت کی جنگ ہے اس میں جیت مستقیم لوگوں کی ہے۔ لہذا ”شاکر“ ایک آزاد حیثیت کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنا مقدمہ جب کبھی رکھتا ہے۔ تو اس پر ہر سوشل میڈیا یوزر کو اختلاف کا بھرپور حق ہے۔ میں 2014 سے اس پلیٹ فارم پر موجود ہوں۔

الحمدللہ ابھی تک کسی سے اس معاملے پر ٹیوشن اور ڈکٹیشن نہیں لی۔ اور نہ کسی سے تنخواہ لے کر اس کی دلالی کی ہے نا کسی کے کہنے پر کسی کی عزت نفس پر انگلیاں اٹھائی ہے۔ اس حوالے سے ضمیر مطمئن ہے۔ سوشل میڈیا کے وہ تنخواہ دار جو اپنا ضمیر رکھتے نہیں، بوس کی زبان بولتے ہیں۔ بوس جو کہتا ہے پھر آگے وہ پھیلاتا ہے پھر بیشک غلط کیوں نہ ہو، ایسے ضمیر کی قیدیوں کے لئے باری تعالٰی سے باعزت روزگار کی فراہمی کے لئے دعا گو ہوں۔
والسلام۔
آپ سب کا خادم اور بھائی: خلیل شاکر

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments