جھلملاتی روشنیوں اور تحائف کا تہوار کرسمس اور سال نو کی آتش بازی


چوبیس دسمبر کو شام پانچ بجے گرجوں کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ کرسمس ایو شروع ہو چکی ہے۔ اس دن کی تیاری میں لوگوں نے گھروں کی دھلائی صفائی کی، اسے سجایا سنوارا اور اب اس تہوار کو منانے کا وقت آن پہنچا۔

ناروے میں کرسمس کو ”یول“ کہتے ہیں۔ تمام نورڈیک ممالک میں کرسمس کا یہی نام ہے۔ اسی مناسبت سے سانٹا کلاوز کو ”یولے نیسے“ کہا جاتا ہے۔ یوں تو کرسمس حضرت مسیح کی ولادت کی مناسبت سے منائے جانا والا تہوار ہے لیکن قبل از مسیح میں بھی یہ کسی نا کسی صورت منایا جاتا تھا۔ ناروے میں جب مسیحیت آئی تو کرسمس باقاعدہ ایک بڑا تہوار بن گیا اور پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ کرسمس کے علاوہ نارویجین سترہ مئی کو اپنا قومی دن مناتے ہیں اور ایسٹر بھی انتہائی ہنسی خوشی مناتے ہیں۔ سترہ مئی کو یہ اپنی قومی اتحاد اور آئین کے احترام میں مناتے ہیں۔ ایسٹر کی چھٹیوں میں اسکینگ اور کیبن کو اہمیت حاصل ہے جبکہ کرسمس خاندان کو یکجا کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔

جب گرجے کی گھنٹیاں بجتی ہیں تو ایک اچھی بڑی تعداد مذہبی سوچ نہ رکھتے ہوئے بھی اس میں شرکت کرتی ہے اور وہاں سے قبرستان جا کر اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول رکھتے ہیں اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔ اسی شام ہر گھر میں خاص کھانے پکتے ہیں اور خاندان کے لوگ کسی بڑے ایک گھر میں کرسمس ڈنر پر جمع ہوتے ہیں۔ کئی طرح کے کیک اور مٹھائیاں بھی میز پر ہوتی ہیں۔ آنے والے مہمان اپنے ساتھ پھولوں کا تحفہ ضرور لاتے ہیں۔

لیوینگ روم میں کرسمس ٹری سجا ہوتا ہے۔ کرسمس ٹری اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ناروے میں متعارف ہوا۔ یہ رسم جرمنی سے آئی جہاں پندرہویں صدی سے روایت تھی کہ کرسمس کا درخت سجایا جائے اور اس کے گرد گھومتے ہوئے کرسمس کے گیت گائے جاتے۔ پرانے زمانے میں اس درخت پر موم بتیاں جلا کر رکھی جاتی تھیں اس سے کئی بار گھر میں آگ لگنے کے واقعات بھی ہوئے۔ پھر بجلی آ گئی تو برقی قمقموں سے درخت سجائے جانے لگے۔ گھروں کو اندر اور باہر سے خوب سجایا جاتا ہے۔ عام طور پر گہرے سنجیدہ قسم کے رنگوں میں رہنے والے نارویجین ان دنوں شوخ رنگوں سے سجاوٹ کرتے ہیں۔ سرخ اور ہرا رنگ نمایاں رہتا ہے۔

کرسمس کی تیاریاں نومبر کے مہینے سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کے درختوں پر لائٹس لگائی جاتی ہیں۔ شاپنگ مالز اور دوسری دکانیں پر بھی بھرپور چراغاں ہوتا ہے۔ کرسمس شاپنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں دل کھول کر خریداری کی جاتی ہے۔ رشتے داروں، دوستوں اور جاننے والوں کے لیے تحفے خریدے جاتے ہیں۔ بچے بڑے نئے کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں۔ ہر سال ناروے کرسمس خریداری کو نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے اور اگلے سال خود ہی اسے توڑتا ہے۔ سجاوٹ میں گھروں کی بالکنی پر برقی قمقموں کی لڑیاں اور کھڑکی میں ایک روشن ستارہ بھی شامل ہے

کرسمس منانے کا سلسلہ کرسمس سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اسکولوں، دفتروں اور کام کاج کی جگہوں پر ”پری کرسمس پارٹیز“ شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ پارٹیز عام طور پر کسی ریسٹورنٹ یا کلب میں ہوتی ہیں۔ بکنگ بہت پہلے سے کر دی جاتی ہے۔ دیر ہو جایئے تو جگہ ملنا مشکل ہے۔

کرسمس ایک ایسے وقت آتی ہے جب راتیں لمبی اور تاریک ترین ہوتی ہیں۔ ایسے میں کرسمس کی جھل مل بہت ہی خوبصورت لگتی ہے اور اگر برف بھی خوب پڑ چکی ہو تو مزا دوبالا ہوجاتا ہے اور یہ سب سحر انگیز نظر آتا ہے۔ برف پڑنے کی گارنٹی تو نہیں کیونکہ موسم کسی کے بس میں نہیں لیکن امید قوی ہوتی ہے کہ ان دنوں میں برف پڑ چکی ہو گی یا پڑ رہی ہوگی۔ شہروں میں اگر نہ بھی ہو تو پہاڑوں پر ضرور پڑ چکی ہوتی ہے۔ نارویجین دعائیں کرتے ہیں کہ کرسمس پر زمین پر برف کی چادر تن جائے اور ”سفید کرسمس“ کا اہتمام ہو جائے۔

تئیس دسمبر کو ”چھوٹی کرسمس“ کہا جاتا ہے۔ اس شام کی روایت یہ ہے کہ کرسمس درخت کو سجایا جاتا ہے۔ گھر کے چھوٹے بڑے سب اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کرسمس کے گیت بھی گاتے ہیں۔

چوبیس دسمبر کو کرسمس کا مین ایونٹ ہوتا ہے۔ دن کا بیشتر حصہ تو تحفوں کو خوبصورت طریقے سے لپیٹنے اور کرسمس ٹری نے نیچے رکھنے میں گزرتا ہے۔ یہ تحفے خاندان کے لوگ ڈنر کے بعد مل کر کھولتے ہیں۔ ڈنر اپنی اپنی روایت کے مطابق بنتا ہے۔ کہیں مچھلی، کہیں دنبے کا گوشت اور کہیں پورک۔

کرسمس کا ایک اہم کردار سانتا کلاز ہے جسے ناروے میں ”یولے نیسے“ کہا جاتا ہے۔ ایک خوش مزاج موٹا سا سفید ڈاڑھی والا بوڑھا سرخ لباس میں ملبوس ہر دلعریز کردار ایک خیالی کردار ہے جو صدیوں کا سفر طے کر چکا ہے اور آج بھی مقبولیت کی اسی جگہ پر ہے جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ سانتا کا کردار بنیادی طور پر سینٹ نکولس سے لیا گیا ہے جو ترکی سے آیا ہے۔ اس کردار کا کام یہ تھا کہ غریب بچوں اور ان کے والدین کی مدد کرے اور انہیں کرسمس کے تحفے مل سکیں۔ اسکنڈے نیویا میں یہ 1800 صدی میں آیا اور یہاں بھی بچوں بڑوں سب میں مقبول ہوا۔ بچے اس کا انتظار کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے تحفے بھی لاتا ہے۔ گھر کی تقریب میں عام طور پر گھر کا ہی کوئی فرد یہ روپ دھار کر آتا ہے۔

ناروے میں کرسمس کا تہوار مذہبی سوچ سے بالاتر ہو کر منایا جاتا ہے۔ غیر ملکی لوگ بھی اس میں جوش و خروش دکھاتے ہیں۔ تحفوں کے تبادلے ہوتے ہیں۔ پارٹیاں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغام دیتے ہیں۔ یہ تہوار مذہبی سے زیادہ روایتی بن گیا ہے۔ یہ تہوار خاندان کو نزدیک لاتا ہے۔ کچھ وقت کام کاج اور دنیا کے جھمیلوں سے نکل کر بالکل آرام اور سکون سے اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارا جا سکتا ہے۔

پچیس تاریخ جو کرسمس کا پہلا دن ہے قدرے خاموشی اور سکون سے گزرتا ہے۔ مکمل چھٹی ہے۔ دکانیں بازار بھی بند ہیں۔ پچھلی رات کے ڈنر کا بہت سا کھانا بچ بھی گیا ہے وہی کھایا جائے گا۔ باہر بھی کوئی چہل پہل نہیں۔

اس کے بعد ایک اور ہنگامہ شروع ہوتا ہے۔ یہ کرسمس کی چھٹیوں کے بعد کے دن ہیں جسے یہاں ”روم یول“ کہتے ہیں۔ شاپنگ سینٹر کھلتے ہی لوگ اپنے تحائف کی واپسی یا تبدیلی کے لیے جوق در جوق دکانوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ضروری خریداری بھی کرتے ہیں اور باقی وقت پھر آرام سے گزارتے ہیں۔

انہی آرام کے دنوں میں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کی تیاریاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ کھانے اور کیک بنتے ہیں۔ پارٹیاں ہوتی ہیں۔ نیو ایر ایو پر عام طور ہر اون میں تیار کی گئی ٹرکی یا پھر مچھلی ہوتی ہے۔ اس ساتھ آلو اور کچھ سبزیاں بھی۔ خاص کیک بھی بیک کیے جاتے ہیں۔

اسی شام ناروے کے بادشاہ عوام سے خطاب بھی کرتے ہیں جو شوق سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ بادشاہ گزرے سال میں ہونے والے واقعات اور آنے والے سال کی امیدوں پر اپنی تقریر کرتے ہیں۔

نیو ایر ایو کو آتش بازی نہ ہو، یہ ہو نہیں سکتا۔ آتش بازی کا سامان چین سے منگایا جاتا ہے۔ آتش بازی کے شو کے لیے مخصوص جگہیں مقرر ہیں ہر جگہ اس کی اجازت نہیں۔ کھلی آتش بازی کے نتیجے میں کئی بار گھروں کو آگ لگی اور کچھ لوگ بھی شوق پورا کرتے خود کو جھلسا بیٹھے۔ اس لیے خطر ناک قسم کے پٹاخے اور راکٹس پر پابندی لگ گئی۔ صرف وہی آتش بازی کا سامان دکانوں پر ملتا ہے، جس کی اجازت ہے۔

بڑے شہروں میں شہری حکومتیں اپنے طور پر آتش بازی کا اہتمام کرتی ہیں اور لوگ دور سے نظارہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شہر کی اونچائی پر جا کر نظارے کرتے ہیں۔ سردی شدید ہوتی ہے اس لیے لوگ اپنے گھروں کی بالکونی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم صاف ہو تو رات کی تاریکی اور برف کی سفیدی میں یہ آتش بازی کی روشنیاں بہت ہی دلکش دکھائی دیتی ہیں ورنہ ابر اور دھند میں سب مزا ادھورا سا رہ جاتا ہے۔ کچھ بے صبرے لوگ شام پانچ چھے بجے سے ہی آتش بازی شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کیونکہ بچے جلدی سو جاتے ہیں اور اس نظارے سے محروم رہتے ہیں اس لیے بچوں کی خاطر کچھ جھلمل جلدی ہو جائے تو برا نہیں۔ بارہ بجتے ہی آسمان رنگ برنگی روشنیوں سے دمک اٹھتا ہے۔ آتش بازی کے یہ نظارے اکثریت کو بہت بھاتے ہیں لیکن اس پر تنقید بھی ہوتی ہے۔ کچھ کا خیال ہے یہ پیسوں کا ضیاع ہے۔ دولت کو آگ لگانا اور دھویں میں اڑانے کے مترادف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ناروے میں ہر سال تین سو ملین سے زیادہ رقم آتش بازی میں اڑا دی جاتی ہے جو سراسر اصراف ہے۔ اس کے علاوہ پالتو جانوروں کے مالکان کو شدید اعتراض ہے کہ آتشبازی کا شور ان جانوروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ جانور سہم جاتے ہیں اور اکثر ٹروما کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات نوٹ کی گئی ہے کہ مرد حضرات اس شوق کے عورتوں کے مقابلے میں زیادہ دلدادہ ہیں اور وہ اس پر خرچ بھی عورتوں کی نسبت کہیں زیادہ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments