پاکستان نے بریسویل کی سانس بحال کر دی: سمیع چوہدری کا کالم


Pakistan vs New Zealand

جب حریف عین نرغے میں آ چکا ہو اور وہیں لپک کر ٹینٹوا دبوچنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے تو ساری دانش دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور سانس بحال ہوتے ہی حریف پلٹ وار کرنے کی حیثیت میں آ جاتا ہے۔

مائیکل بریسویل سپن کی اس ورائٹی سے بالکل شناسا نہیں تھے جس سے ابرار احمد انھیں آزما رہے تھے۔ وہ جس مخمصے میں گِھر چکے تھے، اگر بابر اعظم وہیں ٹینٹوا دبوچنے کی کوئی تدبیر کر پاتے تو یقیناً کیوی اننگز اپنے انہدام کی سمت گامزن ہو جاتی اور پاکستان پہلی اننگز کی خطاؤں کا کفارہ چُکانے کے قابل ہو جاتا۔

پہلے سیشن میں میر حمزہ اور نسیم شاہ کی بولنگ نے کیوی ٹاپ آرڈر کو الجھائے رکھا اور حسن علی نے ہلکی سی ریورس سوئنگ کی جھلک ملتے ہی کیوی مڈل آرڈر میں دراڑ ڈال دی۔ یوں مائیکل بریسویل اپنی توقع سے کہیں پہلے ابرار احمد کی سپن کا امتحاں دینے کریز پہ پہنچے۔

یہ وہ موقع تھا جب بریسویل الجھے الجھے نظر آ رہے تھے۔ وہ ابرار کی انگلیوں کو پڑھ کر سپن کا تدارک کرنا چاہ رہے تھے مگر ان کی ساری کوششیں مضحکہ خیز ثابت ہو رہی تھیں۔ اگر حسن علی کا سپیل ختم ہونے کے بعد دوسرے کنارے سے بھی ان کے لیے سپن کا جال بچھا دیا جاتا تو معاملات یکسر مختلف ہو سکتے تھے۔

یہ سمجھنا دشوار ہے کہ چائے کے وقفے تک پہنچ کر یہ ٹیم کیوں تھکن سے چور نظر آنے لگتی ہے۔ تیسرے روز بھی جہاں سہہ پہر کے سیشن میں پاکستانی بیٹنگ بھرپور یلغار پہ مائل تھی، جانے چائے کے وقفے کے بیچ ایسا کیا بدلا کہ شام کا سیشن شروع ہوتے ہی اپروچ بدل چکی تھی اور کیوی بولنگ کی جارحیت کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا گیا۔

حالانکہ سعود شکیل اس مزاحمت سے بھرپور سینچری کے بعد وکٹ کی رگ رگ سے شناسا یو چکے تھے مگر سلمان آغا کی وکٹ گرتے ہی گویا ضبط کے بندھن سے ٹوٹے اور لوئر آرڈر باقی ماندہ کیوی برتری بے باق کرنے میں ناکام رہ گیا۔ جیسے مایوس کن رن ریٹ سے پاکستان نے سیشن کا آغاز کیا تھا، یہ نتیجہ بہرحال بعید از قیاس نہیں تھا۔

آج بھی جہاں پہلے دو سیشنز میں پاکستانی بولنگ نے شاندار ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوی بیٹنگ کی کوتاہیوں کو آشکار کیا، وہیں چائے کے سیشن کے بعد یکبارگی بازی پلٹ گئی جب پاکستان نے سیشن کا آغاز ہی مدافعانہ سوچ کے تحت کیا۔

Karachi Test Match

یہ بھی پڑھیے

بولرز جو شام کا سبق صبح بھول بیٹھے، سمیع چوہدری کا کالم

اگر ڈرا کا ‘مزہ’ بھی جیت سا لگنے لگے

اگر بابر اعظم بین سٹوکس سے ہی سیکھ لیتے

چائے کے وقفے کے عین بعد جب کچھ ریورس سوئنگ باقی تھی، وہاں اگر اٹیک میر حمزہ کی بجائے نسیم شاہ سے کروایا جاتا تو بلنڈل کے قدم بھی ضرور ڈگمگاتے اور دوسرے کنارے سے آتی ابرار احمد کی سپن کے لیے بھی امکانات کے نئے در کھلتے۔
مگر پاکستان نے لنچ کے بعد جس ڈسپلن اور جارحانہ اپروچ کا مظاہرہ کیا تھا، چائے کے بعد وہ ساری جارحیت ہوا ہو گئی۔

سلپ کے گوشے ویران پڑے تھے، فیلڈنگ باؤنڈریز پہ پہرہ دینے میں مگن تھے اور دو کیچز خالی سلپ کارڈن سے اڑتے اڑتے باؤنڈری پار بھی جا پہنچے۔

جہاں سے پاکستان واپس میچ پہ اپنی گرفت جما سکتا تھا، وہاں بیشتر توجہ اوورز کے بیچ وقت کھپانے پہ مرکوز رہی۔ ایک اعترافِ شکست اس چال ڈھال سے عیاں تھا۔ باقی ماندہ وکٹیں اڑانے کی بجائے وہ کیوی ڈکلئیریشن کا فیصلہ مؤخر کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

پاکستان کی اس تمام تر کارکردگی میں فیلڈنگ کی کوتاہیاں خوب اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ بلنڈل کو دو اضافی زندگیاں فراہم کی گئیں اور وہی بالآخر بریسویل کے ہمراہ کیویز کو اس سطح پہ لے گئے کہ جہاں سے میچ بچانا اب پاکستان کے لیے دشوار ہوتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments