گڈی تے اکھ گڈھی


ریل گاڑی سے رومانس اپنی عمر سے بھی پرانا لگتا ہے۔ ہوش سنبھالنے سے قبل ہی ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن سے عمومی شناسائی کروا دی گئی تھی۔ خصوصی شناسائی محض دو ریل گاڑیوں ہی سے تھی ایک بلو (ب کے نیچے زیر ہے ) ٹرین سے تھی جو میرے آبائی شہر سے لاہور کے لئے علی الصبح چلتی تھی۔ اور دوسری گوروں کے زمانے کی لاہور سے راولپنڈی چلنے والی ریل تھی جو چلنے کی اجازت کے لئے اپنے گارڈ ’ٹی ٹی یا ڈرائیور کی مرہون منت نہ تھی۔ ریل کے اس سفر نے زندگی کے سفر میں بھی خوب ساتھ دیا۔ یا بہتر سمجھنے کے لئے یوں کہہ لیتے ہیں کہ جیسے ملک پاکستان ہمیشہ نازک موڑ پہ کھڑا ملا ہے ایسے ہی زندگی کے ہر نازک موڑ پہ اس ریل کا بڑا آسرا رہا۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں ’نانکے پنڈ‘ جانا ہو یا یونیورسٹی کے تفریحی دورے پہ ’خاندان میں منعقدہ شادیوں میں شرکت ہو یا انٹری ٹیسٹ جیسے پہاڑ کو سر کرنے کا سفر‘ شہروں شہر تبادلے کی کوئی نوبت ہو یا کسی دن صرف من پرچانے کے لئے ہی ریل کے سفر کا انتخاب ’ہر صورت میں ریل کے سفر نے نا صرف محظوظ کیا بلکہ کئی نئے دوست ملے‘ نئی کہانیاں بنیں ’کئی نئی باتیں سیکھیں۔ ریل کا تجربہ ایسا شاندار رہا کہ شاید ہی اکا دکا واقعات میں اردو والا سفر انگریزی والے سفر میں بدلا ہو۔

پلیٹ فارم کی رونق ہو یا انتظار گاہ کی خاموشی ’نان ٹکی والے کے ٹھیلے پہ لگا رش ہو یا دور اکلوتے پانی کے نل پہ وضو کرتا تنہا مسافر‘ سیٹی کی آواز سنتے ہی دروازوں کی طرف دوڑنے والا رش ہر جگہ اور ہر موقع پہ یکساں ہی نظر آیا۔

حضرت واصف علی واصف صاحب نے فرمایا تھا کہ حالات بدلتے ہیں تو حالت بھی بدل جاتی ہے۔ بعینہ ایسے ہی سفر متوازی پٹریوں پہ چلتی ریل سے ہوتا ہوا فضاؤں میں اڑان بھرتے جہازوں تک پہنچ گیا۔ ریل اور جہاز دونوں کے سفر میں کچھ قدریں مشترک دیکھیں۔ اگر وہاں پلیٹ فارم اور ریل میں رش پڑتا تھا تو یہاں بھی سامان کی بکنگ ’بورڈنگ اور اترتے وقت ویسا ہی گھمسان کا رن پڑتے دیکھا تھا۔ سب سے پہلے سوار ہونے‘ سب سے پہلے اترنے اور سب سے پہلے اپنا سامان اکٹھا کرنے کی کوشش ہر دو جگہ ایک سی ہی نظر آئی۔

سفر کوئی بھی ہو ’سواری کا انتظام ہو جائے تو سوار کو جلدی کرنی ہی پڑتی ہے۔ سفر لمبا‘ منزل دور ہو تو کوشش کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی بڑھنے لگتی ہے۔ وقت تو اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے لیکن وقت گزرنے کی رفتار اور انتظار کی مشقت کا اندازہ انتظار گاہ یا لاؤنج میں بیٹھا شخص ہی بہتر جانتا ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک کی چاپ میں اس کی نظریں اور سماعتیں ہمہ وقت متوجہ رہتی ہیں کہ کہیں سے بھی ’کوئی بھی سواری کی آمد کا اعلان کر دے گا تو سب سمیٹ کے نکلنا ہو گا۔

زندگی میں ملنے والے مواقع بھی ایسے ہی گاڑی کی مانند ہوتے ہیں۔ گاڑی کی طرح مواقع بھی اپنے وقت مقررہ پہ ضرور زندگی میں آتے ہیں لیکن مسافر کو ان موقعوں سے فائدہ تبھی ہو گا جب وہ ان سے پہلے وہاں پوری تیاری کے ساتھ موجود ہو۔ اسی طرح سے وہ ان ملنے والے موقعوں میں سے اپنے لئے بہترین موقع کا انتخاب کر سکے گا۔ جیسے ریل کے اسٹیشنوں پہ بہت سی ریل گاڑیاں یا ہوائی جہاز کے ہوائی اڈوں پہ بہت سے ہوائی جہاز کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہڑبونگ میں کسی بھی ریل یا کسی بھی جہاز میں سوار نہیں ہو جاتے بلکہ اپنی منزل کی مناسبت سے سواری کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

یعنی اگر منزل کا پتا معلوم ہے تو سواری کی منزل بھی معلوم ہونی چاہیے ’اپنی گاڑی یعنی اپنے موقع کا خوب علم ہونا چاہیے اور اس کا انتظار پوری تیاری سے کرنا چاہیے۔ گاڑی (موقع) اور اس کے راستے (اسباب) پہ نظریں گڑی رہنی چاہئیں تا کہ جلد بازی میں یا دھکم پیل میں یا کسی بھی اور غلط فہمی میں کسی دوسری گاڑی میں سوار نہ ہو جائیں کیونکہ اگر یہ سواری منزل کی سمت میں روانہ نہ ہوئی تو یقیناً منزل کھوٹی ہو جائے گی اور پریشانی بڑھے گی۔ ایسے ہی موقعوں کے انتخاب پہ بھی دانشمندی اور فہم و فراست کا ثبوت دینا چاہیے کیونکہ بظاہر اچھا‘ خوبصورت ’منفرد اور دلکش نظر آنے والا موقع بھی منزل سے دور لے جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments