کیا فلسفہ کی موت واقع ہو چکی ہے؟ (پارٹ 1)


فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہو سکی۔

فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔

فلسفہ کو ان معنوں میں ”ام العلوم“ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔ فلسفہ کی پانچ بنیادی شاخیں ہیں۔ جس میں منطق، علمیات، میٹا فزکس، اخلاقیات اور جمالیات ہیں۔ منطق ایک قدیم سائنسی علم ہے جس میں درست نتائج (استنتاج استدلال) اور دلائل کے اصولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

علمیات فلسفہ کی ایک صنف ہے اور اسی کے مطالعے کو علمیات کہتے ہیں۔ اس کے نظریہ کو معلومات شناسی یا شناخت شناسی بھی کہا جاسکتا ہے اور علم معلومات بھی، مگر علمیات کا لفظ اس شعبہ علم کے مفہوم سے زیادہ قریب تر ہے۔ اس کو انگریزی میں epistemology کہا جاتا ہے۔

ماوراء الطبیعیات (Metaphysics) یہ عالم کے داخلی و غیر مادی امور سے بحث کرتی ہے۔ وجودیت، الہیات و کونیات اس کی ذیلی شاخیں ہیں۔ خدا، غایت، علت، وقت اور ممکنات اس کے موضوعات ہیں۔

اخلاقیات یا فلسفہ اخلاق فلسفہ کی ایک شاخ ہے، جس میں اخلاق یا اخلاقی قدروں بارے بحث کی جاتی ہے۔ اچھائی اور برائی، درست یا غلط، انصاف اور انسانی قدروں وغیرہ بارے مباحثے شامل ہیں۔

جمالیات فلسفہ کی ایک صنف جو فن کے حسن اور فن تنقید کی قدروں اور معیاروں سے بحث کرتی ہے۔ فلسفہ کسی حقیقی (نظریے ) کو کہتے ہیں جس میں تمام حقیقی (زندگی) کے تصورات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ فلسفہ کے تین بنیادی سوالات ہیں۔ (زمان، مکان اور مادہ) جس پر فلسفہ غور کرتا ہے اور اب تک اس کا یہ سفر جاری ہے۔ لیکن یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو اڑھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود فلسفہ ان تین بنیادی سوالوں کے جواب دینے سے کیوں قاصر ہے؟

کیا یہ انسان کی بے بسی ہے یا قلت علم؟ دنیا میں اس وقت بہت سے علوم پیدا ہوچکے ہیں اور ان میں بتدریج ترقی ہو رہی ہے تاہم ہر علم اپنی اپنی حدود میں دن بدن ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ سائنس کا اپنا ایک دائرہ ہے۔ سائنس اشیاء پر غور کرتی ہے کہ یہ تمام عمل کیسے ہو رہا ہے؟ سائنس محض (کیسے ) کا جواب دیتی ہے البتہ فلسفہ اس سے آگے بڑھ کر (کیوں، کون، کیسے، کیا) پر جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میرے نزدیک انسان قلت علم کا شکار ہے۔

کیونکہ انسان کی علم کی کچھ حدود متعین ہیں۔ انسان اتنا بے بس ہے کہ کائنات تو دور کی بات خود انسان اپنے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خود کیا ہے؟ اور اسی مادے سے حیات کا ظہور ہوتا دیکھ رہا ہے۔ انسان کے پاس اب تک تین ہی ذرائع علم وجود میں آئیں ہیں جس میں تجربہ و مشاہدہ، عقلی استنباط اور مستند تاریخ ان تینوں کے علاوہ انسان کے پاس کوئی چوتھا ذریعہ علم نہیں۔ لیکن انسان ان تینوں ذرائع علم کے ذریعے اس کائنات کی توجیہ نہیں کر سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments