سال نو، خود کو بدلنا سیکھیں!


گردش ایام زندگی کا اصول ہے۔ سالوں کی تبدیلی اور نئے سال کی آمد کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس تبدیلی اور بہتری کے لیے ایک شاندار موقع ہے جس سے ہمیں بھرپور طریقے سے

فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نیا سال ہی نہیں بلکہ ہمیں میسر ہونے والا ہر منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ہفتہ اور مہینہ اپنی ذات کی تطہیر اور ملک و قوم کی تعمیر کے لئے انتہائی قیمتی ہے۔ سال، مہینے، ہفتے، سیکنڈ اور منٹ سبھی در اصل وقت اور ہماری عمر کے مختلف نام ہیں، جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کوئی بندہ اپنے دونوں قدم نہیں ہلا سکے گا یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں ختم کی۔

دنیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو، لیکن یہ عمر نمکین پانی کی طرح ہے، جتنا انسان اسے پیتا ہے اتنا ہی پیاسا ہوتا ہے۔ خوش قسمت مگر وہی ہے کہ جسے لمبی عمر کے ساتھ اچھے عمل کی بھی توفیق ملے، ورنہ کافروں کے متعلق اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ وہ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، کیونکہ یہ مہلت تو اس لیے انہیں دی گئی ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ذلیل کرنے والے عذاب کا مزہ چکھ سکیں۔

نیا سال ہی نہیں ہر نیا موسم گزشتہ موسم کے اداس دنوں کے صفحات پلٹنے اور ہمیں اپنے احتساب کے لیے ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس دنیا میں ہم زندگی بھر ایک امتحان میں ہیں، کسی بھی وقت امتحانی پیپر کا وقت ختم ہو سکتا ہے اور پیپر ہم سے واپس لے لیا جا سکتا ہے، کامیاب وہی ٹھہرے گا جو لایعنی چیزوں کو چھوڑ کر اپنا پیپر حل کرنے پر توجہ دے گا۔

سال نو کا جتنا بھی استقبال کیا جائے، جتنی بھی آتش بازی کی جائے اور جتنی بھی رقص و سرود کی محفلیں سجائی جائیں اس نے آپ کو کچھ بھی نہیں دینا ہے جب تک آپ خود اس سے کچھ لینے کی کوشش نہیں کریں گے۔ جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے کوئی بھی سال ہمیں نہیں بدل سکتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کرتی۔

مشرکین مصائب کی نسبت زمانے کی طرف کرتے تھے، اللہ تعالی نے بتا دیا کہ زمانہ تو خود میرا پیدا کردہ مخلوق ہے، وہ کیسے کسی کو نقصان یا نفع دے سکتا ہے۔ نفع اور نقصان کا مالک تو صرف وہ خالق کون و مکان ہے جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کا ذرہ ذرہ ہے۔ وہی ہے جو رات اور دن کے دھارے کو تسلسل کے ساتھ بدلتا ہے اور اسی کے اختیار میں سورج اور چاند کی حرکت ہے۔ چیزوں میں تصرف بھی وہی کرتا ہے اور کائنات کا انتظام و انصرام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

وہی شر کا بھی خالق ہے اور خیر کا بھی۔ وہ چاہے تو رات، دن اور کائنات کی حرکت کو پل بھر میں روک دے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں ہی رات اور دن کو ادلتا بدلتا رہتا ہوں۔

نئے سال میں نیا پن ہے ہی کیا؟ بارہ مہینے تو اس دن سے چلے آرہے ہیں جس دن اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، ہمیشہ سے ایک سال گزرتا ہے اور دوسرا آتا ہے۔ نہ کوئی سال ہمارا مستقبل روشن کر سکتا ہے اور نہ کوئی مہینہ۔ نہ دن تکلیف پہنچا سکتا ہے اور نہ کوئی رات نفع دے سکتی ہے۔ یہ تو محض اوقات اور مواقع ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہمیں عمل کرنے کے لئے مرحمت فرمائے ہیں۔ عقلمند گزشتہ سال کی تلافی سال نو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

رخصت ہونے والے سال میں اپنی دنیا بنانے اور آخرت سنوارنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کر سکا تو اگلے میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دن میں نہیں کر سکا تو اس کی جانشین رات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک موسم کھو دیا اور اس میں پودے نہیں لگا پایا تو اگلے موسم میں لگا دیتا ہے۔ جون کے سیشن میں اگر امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے تو ستمبر کے سیشن کی تیاری کرتا ہے۔ الغرض! جب تک ہم زندہ ہیں، ایک موسم گزرنے پر دوسرا موسم ہمارے پاس موجود ہوتا ہے لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ خود ہم کب تک زندہ رہیں گے اور کتنے موسم نصیب ہوں گے؟

بالکل بھی نہیں۔ جب ایک سال گزرتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم نے گزار دیا لیکن حقیقت میں وہ ہم مار چکے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک ملازم کو جب پورے مہینے کی سالانہ چھٹی ملتی ہے اور وہ اس میں سے دس دن گزار لیتا ہے تو ان میں سے دس دن ضائع ہو جاتے ہیں اور مہینہ بیس کا رہ جاتا ہے۔ جب بیس دن گزرتے ہیں تو مہینہ دس کا رہ جاتا ہے اور جب پورا مہینہ ختم ہو جاتا ہے تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی فیملی میں ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں رہا۔ ہمارا وقت صرف وہی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہوتے ہیں اور اسی میں ہم مستقبل کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔ دین اسلام ایک عمل پسند مذہب ہے، سہل پسندی، بے کار پڑے رہنے، دوسروں پر تکیہ کرنے اور اپنے دنیوی یا دینی فرائض سے پہلو تہی کی حوصلہ افزائی اسلام ہرگز نہیں کرتا۔ چنانچہ

ایک حدیث میں یہاں تک آیا ہے کہ
”ان قامت الساعة وفی ید احدکم فسیلةٌ، فان استطاع ان لا تقوم حتى یغرسھا فلیغرسھا“

اگر قیامت بپا ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی قلم (شاخ) ہو تو بھی اس کو اسے زمین میں گاڑ دینا چاہیے۔ غور کیجیے! اس سے بڑھ کر جد و جہد کرنے کی خوبصورت تعلیم اور کیا ہو سکتی ہے؟ یعنی چاہے انسان اپنے لگائے گئے پودے سے فائدہ نہ بھی اٹھا سکے لیکن دوسروں کی خاطر اسے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

2022 میں اللہ تعالی نے ایسے دو تاریک سالوں کے بعد انسانیت کو معمول کی زندگی کی طرف لوٹا دیا تھا کہ جن میں پوری دنیا ناقابل تصور بندشوں اور پابندیوں کے رحم و کرم پر تھی۔ گزشتہ اڑھائی، دو سال میں پورے انسان جس آزمائش سے گزرے ہیں اس کے بعد تو کم از کم ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ زندگی کا یہ سفر کیوں ہے؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے اور روانگی کہاں ہے؟ آج وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ایک مسافر کی طرح دھیان دیں، کہ سفر کتنا باقی ہے؟ ایک سوداگر کی طرح غور کریں کہ اپنے سرمایہ حیات (وقت) سے فائدہ کتنا اٹھایا اور نقصان کتنا ہوا؟ یاد رکھیے! ہوائی جہاز میں بیٹھے ایک دانا مسافر کی نظر آرام دہ نشست اور بہترین کھانے پر نہیں ہوتی بلکہ جس ملک میں وہ جا رہا ہے وہاں اپنے پرامن اور پرسکون قیام کے لئے فکرمند رہتا ہے۔

ہم اپنے اپنے حالات پر غور کریں، قدم اگر بہک گیا ہے تو سنبھل بھی سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments