دیوالیہ ہونے کے نتائج خوفناک کیوں ہوتے ہیں؟


دیوانہ پن تو سنا ہے اور کچھ دیوانوں کو تو دیکھا بھی ہے مگر آج کل اس سے ملتا جلتا لفظ بھی بار بار سماعت سے ٹکرا رہا ہے۔ اس کی کیفیت بھی دیوانے پن جیسی ہی ہے وہ ہے دیوالیہ۔ آسان زبان میں ملکی معیشت جب دیوانے پن کا شکار ہو جائے تو اسے دیوالیہ کہا جاتا ہے۔ جی ہاں ملک اگر دیوالیہ ہو جائے تو ملکی نظام میں بہت بے چینی و بے قراری آجاتی ہے اور اس کا شدید اثر عوام تک پہنچتا ہے۔

لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ دیوالیہ آخر ہوتا کیا ہے تو اس کی آسان تعریف تو یہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنے بیرونی قرضوں کی اقساط اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو وہ ملک دیوالیہ کہلایا جاتا ہے۔ یعنی اصل مسئلہ ڈالرز اور بیرونی قرضوں کا ہے کیونکہ وہ ملکی کرنسی نوٹ کی طرح چھاپے نہیں جاتے بلکہ کمانے پڑتے ہیں۔

لیکن اگر کوئی ملک ڈالرز نہیں کما پا رہا اور دیوالیہ ہونے کے بھی قریب ہے تو پھر یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ کوئی معاشی ادارہ یا دوست ملک ملکی خزانے میں ڈالرز جمع کروائے، جس سے وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کر سکے اور اگر ایسا نہ ہو سکیں تو ملک دیوالیہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

لیکن اگر ملک دیوالیہ ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے اور ڈالر ملکی کرنسی بن جاتی ہے۔

لیکن یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک اچانک سے دیوالیہ نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ دیوالیہ ہونے کی جانب جاتا ہے۔

وہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں :
قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے۔
کریڈٹ ریٹنگز نچلی سطح پر پہنچ جاتی ہیں۔
ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگتے ہیں۔
وہ ملک برآمدات کی بجائے درآمدات پر زیادہ انحصار کرنے لگتا ہے۔
تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ غیر معمولی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
انٹرنیشنل مارکیٹ میں قرضے والے بانڈز میں انویسٹ کرنے والوں کو بہت زیادہ منافع دینا پڑتا ہے۔

لیکن اگر ملک دیوالیہ ہو جائے تو پھر پھر ملک میں کیا ہوتا ہے اور عوام کی زندگی کا اس پر کتنا اثر پڑتا ہے؟

دیوالیہ ہونے کے بعد ملک میں کچھ اس طرح کے معاملات ہو جاتے ہیں :
ادویات کی قلت ہوجاتی ہے۔
سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے لگتا ہے۔
افراط زر 50 فیصد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات میں بھی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔
10، 15 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول بن جاتی ہے۔
فیکٹریز، ہوٹلز اور بہت سے کاروبار بند ہونے لگتے ہیں۔
دیوالیہ ہونے کے بعد عوام کی قوت خرید انتہائی کم ہو جاتی ہے۔

یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ سال گزشتہ یعنی 2022 میں سری لنکا بھی دیوالیہ کا شکار ہو گیا تھا اور پھر وہاں پر عام افراد کی زندگی مکمل طور پر پلٹ گئی تھی۔ دیوالیہ ہونے کے بعد اس ملک میں مسلسل بے چینی تھی، مہنگائی سو فیصد بڑھ چکی ہے، ادویات ناپید ہو چکی تھی اور قیمتیں 10 گنا بڑھ چکیں تھی۔ پیٹرول ڈلوانے کے لیے دسیوں گھنٹوں تک لائن میں کھڑے ہونا پڑتا تھا، دال بھی لگژری آئٹم بن چکی تھی، چکن، فش اور گوشت خریدنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، حتیٰ کے بچے بھی دودھ سے محروم ہو گئے تھے۔ کیونکہ ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے در آمد ناممکن تھی جس کی وجہ سے بہت ساری اشیاء ضروریہ بھی ناپید ہو گئی تھی۔

مختصراً جس ملک میں ڈالرز ختم ہو جائیں اسے دیوالیہ مانا جاتا ہے چاہے ملک اعلان کریں یا نہ کریں۔ کوئی ملک اگر دیوالیہ ہو جائے تو پھر واپسی کا سفر انتہائی لمبا اور مشکل ہوجاتا ہے اور اس ملک کے عوام کی معاشی حالت بہت دیر بعد ٹھیک ہوتی ہے۔ دیوالیہ سے بچنے کے لئے کچھ مشکل فیصلے حکومت نے لئے ہیں جس کا اثر عوام پر پڑ رہا ہے جو کہ یقیناً مشکل اور سخت ہے۔ لیکن یہ اس نتائج سے بہت معمولی اور بہتر ہے جو کے دیوالیہ کے بعد نکلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments