اقبال دیوان کی کتاب: وہ ورق تھا دل کی کتاب کا


محمد اقبال دیوان صاحب، صاحب کتاب ہیں۔ یہ کتابیں جو انہوں نے تحریر کی ہیں بیتے ہوئے مہ و سال کی داستانیں ہیں۔ شب کی تنہائیوں میں (تنہائیاں اس لیے کہ میں شادی شدہ نہیں، مطلب کنوارہ بھی ہوں ) تو سردیاں مجھے کتاب پڑھنے میں نعمت محسوس ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ، حبس، پسینہ کیا کچھ نہیں ہوتا۔

محمد اقبال دیوان صاحب کی کتاب ”وہ ورق تھا دل کی کتاب کا“ ایک ایسی تحریر کا مسودہ ہے جس میں گھمن گھیریاں ہیں، وقت کی، موضوعات کی، جگہوں کی اور بہت ہی خوبصورت موڑ ہیں، شاہراہیں ہیں، پوری کتاب آخر تک راز محسوس ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ استعارات ہیں اور بس استعارے ہی استعارے۔ خاص طور پر جو مخصوص بیوروکریسی والی انگریزی ہے کیا بات ہے اس کی۔

جس وقت میں نے محمد اقبال دیوان صاحب کی کتاب ”کہروڑ پکا کی نیلماں“ اٹھائی تھی ہاتھ میں میں نے بس ایک معمول کے مطابق کتاب ہی اٹھائی تھی پڑھنے کے لیے اور وہ کتاب پڑھنا میرے لیے بہت ہی پرلطف تجربہ رہا جیسے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہو۔

ایک بات اور کہ وہ معلوم نہیں کس وقت میرے ساتھ ایڈ ہو گئے تھے یہ احساس تک نہ ہوا تھا مجھے ایڈ ریکوئسٹ تو میں نے ہی بھیجی تھی پس جب مجھے علم ہوا کہ جناب محمد اقبال دیوان صاحب ہیں تو میں نے فرط جذبات سے اتنا ہی لکھا تھا انہیں کہ I am big fan of yours sir۔

دسمبر کی سردیوں کی اس صبح دیوان صاحب کی کال مجھے غیر متوقع محسوس ہوئی۔ سلام کرنے کے بعد سندھی میں روانی سے بات کرنے لگے کہ بھئی سندھیوں میں تو کوئی جناح ذات کا نہیں اور نہ ہی رکھتا ہے تم نے کیسے جناح لکھ دیا ہے یا کیسے جناح ہو گئے؟ تو میں نے کہا سر بچپن سے ہی قائد اعظم محمد علی جناح رح سے انسیت محبت اور الفت ہے۔ تو کہنے لگے جناح کا مطلب معلوم ہے آپ کو میں نے کہا نہیں سر کیوں کہ جو سنا دیکھا تھا میڈیا وغیرہ پر وہ معتبر ذرائع نہ لگے خیر، انہوں نے راؤنڈ دی کلاک، مفصل، جامع اور مثالوں کے ساتھ تاریخی پس منظر میں تعارف کروایا۔ پھر انہوں نے کچھ اپنے بارے میں بتایا۔

کہروڑ پکا کی نیلماں ”ایک ناول ہے، اس میں جو ہماری سیاسی اور بیوروکریٹ کلاس ہے اور جو کج کلاہ ہیں، اس کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا احوال پیش کیا گیا ہے۔ ان کا ایمان کیا ہے؟ ان کے قول و فعل میں تضادات ہیں یا تضادات ہی ان کا قول و فعل ہے۔ ان کی شخصی اہلیت کیا ہے؟ ان کا قبلہ کیا ہے؟ سیاست میں موجود خواتین کی حقیقت اور ہمارے پاکستان کے امام جو ہیں ان کی امامت کا تزکیہ کیا ہے؟ ان کے اپنے امام کون اور کیا ہیں؟ مذہب، دین اور اسلام کی ان کے پاس کیا اہمیت ہے؟

یہ سارے کوڑھی ہیں۔ صرف باتیں کروا لو پریزنٹیشن دلواؤ ان سے۔ تعفن بھرے کرداروں کا ایک مجموعہ ہیں یا زومبی کہہ لیں انہیں۔ جن کو کچھ ہوش نہیں رہتا جو بظاہر گھومتے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف تباہی ہوتا ہے۔

بعد میں دیوان صاحب کی کتاب ”پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ“ پڑھی۔ پھر دیوان صاحب کی جو کتاب پڑھی وہ ان کی کتاب ہے ”وہ ورق تھا دل کی کتاب کا“ جس کا اوپر تذکرہ کیا۔

میں محو حیرت ہوں ان کے مشاہدات اور تجربات پر۔ یوں تو بیوروکریٹس لکھتے ہیں شاید لکھنے پر ان کا عبور ہوتا ہے میں نے کئی ایک برس پہلے ممتاز مفتی صاحب کی کتاب الکھ نگری میں پڑھا تھا جس ممتاز مفتی کہتے ہیں کہ جناب قدرت اللہ شہاب صاحب کی ڈرافٹنگ اور لکھائی اتنی خوبصورت تھی کہ آفس نوٹ یا کورنگ لیٹر اور ڈرافٹس بڑے ہی رشک سے دیکھے جاتے تھے۔ بہت سارے نہیں تو کچھ بیوروکریٹ ایسے ہیں جو لکھتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔

لیکن یہ کیسا انداز ہے لکھنے کا؟ دیوان صاحب جیمز بانڈ کا کوئی کردار لگتے ہیں۔ بہت گہرائی اور منطق کے ساتھ مشاہدہ کرتے پیں۔ عمیق گہرائیاں جہاں عام فہم اور منطق نہیں پہنچ پاتے۔

”وہ ورق تھا دل کی کتاب کا“ ایک ورق اتنا وسیع تھا کہ چند ایک دہائیاں اس میں سمو گئیں۔ سچ کو اور مشاہدات کو جس انداز میں تحریری شکل دیتے ہیں وہ لاجواب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مشاہدہ، مجاہدہ، مطالعہ اور حاصل سب کچھ ان کے پاس موجود ہے اور محفوظ بھی ہے۔ بیوروکریسی کی دنیا میں انہوں نے اندر رہ کر بہت دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کئی موڑ آئے ہوں گے اس سب کچھ کے درمیان وقت ایسے گزارا ہے بقول شاعر جسے سہگل صاحب نے خوبصورت انداز میں گایا ہے کہ

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں۔

مذاہب، تاریخ، جاگرافی، جدید و قدیم فن تعمیر، موسیقی، شعر و سخن، ادب، روحانیت، تصوف مزاح نگاری، فکشن اینتھروپولوجی، سائنس، کمپیوٹر میں معلومات ہو یا پھر گاڑیوں، ہتھیاروں، شراب اور عورتوں کے بارے میں ان کی معلومات کی داد دینی پڑے گی۔ مجھے تو اب محسوس ہوا کہ جسے ہم عورت کہتے ہیں اس کی نفسیات اس طرح بھی ہوتی ہے!

کہتے ہیں
”عورت کو گر سمجھنا ہو تو اسے سنو مت، اسے دیکھا کرو“ ۔

جیسے مشن امپاسبل میں ایک جاسوس کردار آنکھ میں کیمرہ فٹ کر کے تصاویر لیتا ہے دیوان صاحب نے بالکل ویسے ہی زمانوں کی تصاویر چپکے سے لے لی ہیں۔ ڈیلیگیشن ہوں یا پاکستان کے چاروں صوبے یا انڈیا، افغانستان، مالدیپ مالٹا بھوٹان سری لنکا چین عرب روس امریکا ہر طرف ان کی مشاہدے کی آنکھ متحرک ہے دیوان صاحب کا فہم و ادراک بڑی گہری نظر رکھتا ہے۔ پاکستانی سیاست کی نبض پر مکمل گرفت ہے۔

وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، ایک تین یا چار دہائیوں پر مبنی ایک داستان ہے جسے اس کتاب کے کوزے میں بند کر دیا گیا ہے یعنی 455 صفحات میں۔ میں تھوڑی بہت جھلکیاں دکھاؤں گا آپ اندازہ لگا لیں

ذرا دیکھیے جملے کی بنت کیسی ہے۔ الفاظ میں شیریں و روانی سادگی و پرکاری کمال کی ہے
”طاقت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ اس سے روایت مزید طاقت ہی مانگ سکتی ہے“ ۔
عورت کی دنیا عیش کی دنیا ہے، possessions کی دنیا ”۔
یہ میرا بھی ہلاکو خان جیسی انگلس (انگلش) بولتی ہے۔
”سارا مسئلہ نوکر شاہی کی سوچ کا ہے۔ وہ کبھی سیدھا سوچ ہی نہیں سکتی“ ۔

کسی کو برباد کرنا ہو تو جو اس کی تباہی کا تیز ترین راستہ ہے عورتیں اس تباہی کا سب سے پر لطف ذریعہ اور نوکر شاہی کا اس کا سب سے مستند راستہ ہے ”

جن اشعار کا استعمال گاہے بہ گاہے کتاب میں وقت، جگہ اور بات کے حساب سے ہوتا رہا ہے وہ کمال حسن ہے ( کمال ہاسن مت پڑھیے گا) دیکھیے کتاب کی لطافت مجھ میں بھی آ گئی ہے۔ ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

جستجو جس کی تھی، اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا، ہم نے
اور آگے لکھا ہے
تجھ سے بچھڑے ہیں تو اب کس سے ملاتی ہے ہمیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں
اور
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
اور یہ
موسم آیا تو نخل دار پر میر
سر منصور ہی، کا بار آیا۔
پھر یہ دیکھیے
جب ہم ہی نہ مہکے، پھر صاحب
تم باد صبا، کہلاؤ تو کیا

میر، سودا، غالب، علامہ اقبال اور بہت سے شعراء کے اشعار کا استعمال برجستہ، بروقت اور برمحل ہوا ہے پورے ناول میں۔

جنرل نالج، کی داد بنتی ہے حالاں کہ اب جس اسٹیج پر وہ ہیں تعریف اور داد جیسے الفاظ سے بڑا قد ہے ان کا ماشاءاللہ۔ درحقیقت یہ سب ایک قسم کے وسیع تر مطالعے کا نتیجہ ہے کہ آپ بے تکان لکھ سکتے ہیں۔

تاثرات، رویوں اور انسانی نفسیات کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ ستاروں کی چال سے لے کر آدمی اور عورتوں اور سیاستدانوں اور بیوروکریٹ کی چال تک کا بہت خوب ادراک رکھتے ہیں۔

”ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے“
ایک جگہ عورتوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”کچھ عورتیں پورے بدن سے ہنستی ہیں“ ۔

بقایا میں کچھ صفحات رکھ رہا ہوں ایسے سنجیدہ اور نازک موضوعات کو چھیڑا ہے دیوان صاحب نے کتاب میں کہ یہ کتاب پڑھنے والے کی معلومات میں بہترین اضافے کرتی نظر آتی ہے۔ جہاں آپ کے دل و دماغ میں موجود بت پاش پاش ہوتے نظر آئیں گے۔

اس کتاب میں آخری باب آنٹی ایم کے نام سے ہے مجھے محسوس ہوا جیسے شہاب صاحب کی کتاب شہاب نامہ کا آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات“ ہو جیسے۔

محترمہ عطیہ صاحبہ کا تذکرہ ہوا جو پہلے ممتاز مفتی نے الکھ نگری میں تواتر سے کیا ہے۔ کچھ روحانی تجربات کا تذکرہ ہے جو مصنف نے کیے ہیں۔

کتاب میں دیوان صاحب پڑھنے والوں کو دنیا اور پاکستان کا نقشہ دکھا رہے اور حقائق سے آگاہ کرتے نظر آئیں گے جو حقیقت پسند پاکستانی بننے کے لیے از حد ضروری ہیں۔

آپ پڑھیے اور ملاحظہ کیجیے کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک قوم کے، ہمارے سیاستدان، بیوروکریسی، بزنس کمیونٹی کیا کہا اعمال سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کو کس نہج پر لایا جا چکا ہے۔

قرآن کریم اور تاریخ اسلام و تصوف سے بارہا ایسی ریفرنس دینا ان کی گہرے مطالعے کی طرف اشارہ ہے۔

حوالہ جات بہت سارے ہیں وہ ہمارے علاقائی ہوں، عالمی ادب سے ہوں جہاں دوستوفسکی، ٹالسٹائی، گورکی، چیخوف جیسے بڑے ناموں سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے وہیں جھونپڑ پٹی اور ٹپوری زبان کا استعمال بھی بتاتا ہے کہ یہ سب ان کے تجربے سے گزر چکا ہے۔ ہتھیاروں کی معلومات بھی کافی ہے اور جگہوں کے نام اس طرف اشارہ ہیں کہ کئی ایک ممالک میں اچھی طرح قیام کیا ہے اور گھومے پھرے ہیں جیسے وہاں کے باشندوں اور ان کے رہائشی ثقافت اور تہذیب کی معلومات قابل تحسین ہیں۔

آخر میرا مشورہ یہی ہے احباب کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں آپ بہت کچھ پائیں گے اس کتاب میں رویوں کی تجلیات ہیں مقناطیسی کشش ہے۔ رمزیں ہیں اور تاثرات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments