سیاسی لیڈر کسی کشتی نوح کے انتظار میں نہ رہیں


ہر ذمہ دار قوم کے لیڈروں کو یہ باور کرنا ہوتا ہے کہ بعض اہم معاملات پر وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر قومی اہمیت کے کسی مسئلہ پر کوئی اصولی اختلاف موجود بھی ہو تو قومی تعمیر میں دلچسپی رکھنے والے لیڈر ان موضوعات پر پبلک بیان دینے یا سیاست کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

حکومت اپنے طور پر اپوزیشن کی رائے جاننے کی کوشش کرتی ہے اور اپوزیشن اگر کسی مسئلہ پر بعض ایسے پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہے جن پر اس کے خیال قوم و ملک کو درپیش کوئی خاص مسئلہ حل کرنے میں غور و فکر کرنا چاہیے تو وہ مناسب سیاسی ذرائع سے ایسے دلائل برسر اقتدار گروہوں تک پہنچاتی ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ہر سیاسی لیڈر خود کو عقل کل ہی نہیں بلکہ قومی مفاد کا سب سے بڑا چیمپئن بھی سمجھنے لگے اور دوسری سیاسی قوتوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے یہ سب لوگ ملک دشمن یا غدار ہیں۔

ایسی نعرے بازی سے کسی ایک لیڈر کے سخت گیر حامیوں کو تو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن عوام کی بڑی اکثریت کو گمراہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عوام گونا گوں مسائل کا شکار ہیں، ان کے ہاں تعلیمی سطح کم ہے اور سیاسی شعور کو متعدد تعصبات کی وجہ سے گہنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اہل پاکستان، قومی مسائل، ریجنل تعلقات اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں کسی حد تک آگاہ رہتے ہیں اور ان کے بارے میں اپنی رائے بھی ضرور بناتے ہیں۔ یہ رائے کسی ایک خاص پارٹی یا لیڈر کی حمایت سے عبارت نہیں ہوتی بلکہ اس میں بنیادی طور سے قومی ضرورتوں کو پیش نظر ہوتی ہیں۔

پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستانی عوام سیاسی طور سے اس حد تک باشعور ہیں کہ وہ ملکی صورت حال کا عالمی تناظر میں جائزہ لینے اور اس پر رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ ایسے لیڈروں کے پیچھے کیوں لگے ہوئے ہیں جنہوں نے قومی مسائل کو حل کرنے کی بجائے ابھی تک ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔ یہ ایک جائز سوال ہے لیکن اس کا جواب بھی اتنا ہی سادہ اور عام فہم ہونا چاہیے۔ پاکستانی عوام کا شعور اس لئے قومی مسائل حل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہو پایا کہ ملک میں جمہوری طریقے کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد اور پھر 1971 میں ملک دو لخت ہو جانے کے بعد مغربی پاکستان کے ’پاکستان‘ بن جانے تک میں ملکی تاریخ کے دونوں ادوار پر غور کیا جائے تو یہ حالات کی تصویر واضح ہوجاتی ہے۔ یا تو عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا یا پھر بار بار فوجی مداخلت کے ذریعے بنیادی آزادیوں پر ہی نہیں عوامی شعور کے احترام و تقدس پر بھی ڈاکا ڈالا گیا۔ اس سے مایوسی کی فضا پیدا ہونا بالکل فطری امر ہے۔

ماضی قریب کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اگر 1999 کے مارشل لا اور اس کے بعد قائم ہونے والی تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ پالیسی سازی تو بہت دور کی بات ہے، پاکستانی عوام کو اپنے نمائندے چننے کا حق دینے سے بھی گریز کیا جاتا رہا ہے۔ ملک میں بظاہر جمہوری نظام کام کرتا رہا ہے اور ایک متفقہ آئین بھی قوم کی رہنمائی کے لئے موجود رہا ہے۔ اس کے باوجود فوجی اسٹبلشمنٹ سے لے کر عدالتی فیصلوں تک نے اس جمہوری عمل کو عوام کی رائے کے مطابق کام کرنے کے کا موقع نہیں دیا۔ کبھی قومی مفاد کے نام پر سیاسی لیڈروں کو گمراہ کن حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور کبھی عدالتی فیصلے آئین کی یوں تشریح و توضیح کرتے رہے ہیں کہ ووٹ دینے سے لے کر اسمبلیاں قائم ہونے اور وہاں فیصلہ سازی کا سارا عمل اگر براہ راست جی ایچ کیو کے پاس گروی نہیں تھا تو عدالتی فیصلوں کے نام پر پارلیمنٹ کو غیر ضروری ’ادارہ‘ بنا دیا گیا۔

حالانکہ ملکی آئین اور یہاں پر مروجہ پارلیمانی جمہوری نظام اس وقت تک نتائج دینے میں ناکام رہے گا جب تک پارلیمنٹ کو ہی حقیقی خود مختار ادارہ نہ بنایا جائے اور سارے اہم فیصلے اسی فورم پر نہ کیے جائیں۔ سیاست دانوں پر تو یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرتے لیکن عملی طور سے ملک کے طاقت اداروں نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اقتدار و اختیار کی بندر بانٹ کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ سیاست دانوں نے بھی اس کا حصہ بننے میں ہی عافیت سمجھی تاکہ وہ بھی اختیارات کی تقسیم اور اس کے نتیجہ میں ملنے والے مفادات میں کسی حد تک حصہ دار بنے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاست قومی مسائل پر بات کرنے اور ان کے حل تلاش کرنے کی بجائے، اقتدار حاصل کرنے اور مفادات کے حصول کا ذریعہ بن چکی ہے۔

کسی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ ماضی قریب میں فوج کی براہ راست مداخلت سے ملک میں ایک خاص طرح کا جو نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسے کامیاب بنانے کے لئے جیسے ایک خاص لیڈر کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا، اس کے بعد اب ملک میں جمہوریت ہی کمزور نہیں ہوئی بلکہ تمام قابل ذکر ادارے بھی بے توقیر ہوئے ہیں۔ اب اس حوالے سے جس بھی طرف سے جو بھی معلومات فراہم ہو رہی ہیں، ان سے اسی تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں سب برہنہ ہیں اور اب اپنے اپنے طور پر دوسرے کی عریانی کو عام کر کے اپنی نیک نامی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستانی عوام معاملات کی جو تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس میں انہیں تمام بڑے بڑے نام اور نامی ادارے پست قد اور سازشوں کے مراکز دکھائی دینے لگے ہیں۔

ان اداروں میں صرف فوج کو مطعون کر دینا ہی کافی نہیں ہو گا۔ اگرچہ قومی معاملات میں طویل المدت غیر آئینی و غیر قانونی مداخلت کی وجہ سے صورت حال کا زیادہ بوجھ فوج ہی کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ البتہ اعلیٰ عدلیہ اور سیاسی پارٹیاں بھی اس آلودگی سے اپنا دامن بچانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں سنگین سیاسی بحران ہے اور عدم اعتبار کی افسوسناک صورت حال موجود ہے لیکن اسے پیدا کرنے والے ابھی تک محض دوسروں پر انگشت نمائی کر کے اپنی غلطیوں کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت یہی اس وقت پاکستانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ملک کو بعض اہم مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک معیشت، دوئم امن و مان کی صورت حال اور دہشت گردی کا بڑھتا ہوا خطرہ اور سوئم ہوشربا مہنگائی اور اس کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی صورت حال۔ سب اداروں اور لیڈروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مسائل نہ تو کسی ایک شخص کے پیدا کردہ ہیں اور نہ ہی کوئی ایک ادارہ، پارٹی یا لیڈر انہیں حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستانی لیڈر ایک ذمہ دار قوم کے طور پر فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے تو وہ ان مسائل کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہتھکنڈا بنانے کی بجائے مل جل کر اس مشکل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ فوج کو دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا جاتا کہ آپ نے کئی وزیر اعظموں کو کٹھ پتلی بنا کر دیکھ لیا۔ اب آپ منتخب حکومت کے احکامات کی پابندی کریں۔ عدلیہ کی بے لگام ’خود مختاری‘ کو قانون کی لگام پہنانے کے لئے پارلیمنٹ میں اشتراک عمل سے مناسب قانون سازی کی جائے۔ غیر منتخب ادارے اسی وقت منہ زور ہوتے ہیں جب منتخب عناصر اصولوں پر اتفاق کرنے کی بجائے شخصیت پرستی کی بنیاد پر دشمنیاں پالتے ہیں اور ان کا پرچار کر کے اپنے حامیوں کو آپس میں لڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ آج پنجاب اسمبلی کے مناظر نے اس کی درست تصویر پیش کی ہے۔

شہباز شریف، آصف زرداری اور عمران خان سمیت سب قومی لیڈروں کو کم از کم اتنا سیاسی شعور ضرور ہونا چاہیے کہ اس سال کے دوران منعقد ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت کا تصور خواب و خیال بن کر رہ جائے گا۔ اب ملک میں دو کی بجائے تین بڑی سیاسی قوتیں ہیں اور ان تینوں پارٹیوں کی قابل ذکر حمایت موجود ہے۔ ان حالات میں قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ بیشتر صوبائی اسمبلیاں بھی نام نہاد ’معلق‘ اسمبلیاں ہوں گی۔ یعنی کسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی بلکہ ہر پارٹی کو کچھ نہ کچھ حصہ ملے گا۔ اس لئے اب لیڈروں کو دو تہائی اکثریت حاصل کر کے مطلق العنانیت کا خواب دیکھنے کی بجائے دنیا کے متعدد مہذب ممالک کی طرح مل جل کر کسی متفقہ پروگرام کی بنیاد پر سیاسی گروہ بندی اور اشتراک پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

اسی طرح ذاتی دشمنیوں کو دفن کر کے مل جل کر قوم و ملک کی ترقی کے لئے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ البتہ اگر اب بھی جیت کو مخالفین کو مسترد کرنے اور ہارنے کے بعد دھاندلی کا شور مچانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو عوام کی مایوسی کسی طوفان کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ سیاسی لیڈر یہ بھول جائیں کہ ایسے کسی طوفان میں صرف مخالفین ڈوبیں گے اور ان کا دامن محفوظ رہے گا۔ اب کوئی کشتی نوح کسی پاک باز کو بچانے کے لئے دستیاب نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments