افغانستان بدل گیا، طالبان بدل گئے


افغانستان پر طالبانی قبضہ کے بعد ”طالبان تبدیل ہو گئے“ کا بیانیہ اسی طرح زمین پر دھڑام سے آ گرا ہے جس طرح اگست 2021 کے وسط میں تخت کابل ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا۔ کل تک زلمے خلیل زاد سے لے کر طالبانی فکر کے بہت سے حامی ”طالبان تبدیل ہو گئے“ کا تاثر پیدا کرنے میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے تھے خلیل زاد کو تو اس بیانیے پر اتنا پختہ یقین تھا کہ غنی حکومت کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر کے افغانستان ان کی جھولی میں ڈال دیا ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ چند ہی دنوں میں کابل طالبان کی جھولی میں آ گرے گا شاید خود طالبان کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ آسانی سے کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ سوچ تو کوئی یہ بھی نہیں سکتا تھا کہ طالبان کو تبدیل شدہ قرار دینے والے بھی بہت جلدی اچھے طالبان اور برے طالبان کی فرسودہ سوچ میں پناہ لیں گے۔

جیسا کہ زلمے خلیل زاد کی اہلیہ چیرل بینارڈ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں طالبان کے عوام دشمن اقدامات کا ذمہ دار صرف قندھاری گروپ کو قرار دیا ہے وہ کہتی ہیں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی قندھاری گروپ کا فیصلہ ہے قندھاریوں کے نزدیک بھوک، شیر خوار بچوں کی اموات، غربت اور اقتصادی بد حالی کی وجہ تقدیر الہی ہے۔ اسی طرح لکھتی ہیں طالبان رہبر کے انداز حکمرانی کی وجہ سے افغانستان ایک بار پھر داخلی جنگ کا شکار ہو جائے گا۔

وہ حقانی گروپ کو تجویز کرتی ہیں کہ داخلی جنگ سے بچنے اور طالبان حکومت کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ قندھاری گروپ کو طاقت سے باہر کیا جائے۔ گویا چیرل بینارڈ کہنا یہ چاہتی ہیں کہ قندھاری برے طالبان جبکہ حقانی اچھے طالبان ہیں ان کے شوہر نے بھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بعد بیان دیا تھا کہ اکثر طالبان اس پابندی کے مخالف ہیں انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے حامی طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ اس پابندی کا راستہ روکیں ورنہ خواتین کی تعلیم اور نوکری پر پابندی افغانستان کی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔ برے اور اچھے طالبان کی تقسیم کے حوالے سے میاں بیوی ایک ہی پیچ پر ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان کے دو بڑے گروپوں ( قندھاری، حقانی ) میں کچھ باتوں پر اختلافات موجود ہیں مثلاً ایک گروپ القاعدہ کا حامی ہے تو دوسرا مخالف۔ اسی طرح قندھاری کہتے ہیں دوحہ معاہدہ کی وجہ سے انہیں افغانستان پر تسلط حاصل ہوا۔ حقانی کہتے ہیں ان کی قربانیوں کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا اس بنا پر ہر گروپ حکومت میں زیادہ حصے کا طالب ہے پاکستان کے حوالے سے بھی اختلافات موجود ہیں ایک گروپ اشاروں پر چلتا ہے تو دوسرا گروپ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت کا مخالف ہے۔

لیکن ان اختلافات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ اپنی بنیادی آئیڈیالوجی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں درست نہیں ہے اسی طرح ایک گروپ کو معتدل اور دوسرے کو شدت پسند قرار دینا بھی حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں گروپوں میں جزوی طور پر چند افراد معتدل سوچ کے مالک ہوں لیکن کلی طور پر کسی ایک گروہ کو شدت پسند اور دوسرے کو معتدل قرار دینا گمراہ کن ہے کلی طور پر طالبان اپنی بنیادی آئیڈیالوجی سے پیچھے ہٹے تھے نہ ہٹیں گے جن طالبان کو تبدیل شدہ، اچھا یا معتدل تصور کیا جاتا ہے وہ بھی ہرگز تبدیل نہیں ہوئے، صرف ان کی اسٹریٹجی اور طریقہ کار بدلا ہے۔

اگر ہم طالبان میں موجود معتدل طالبان کے وجود کو مان بھی لیں تو بھی فی الوقت ایسے لوگ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ شدت پسندانہ فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں دنیا کے ہر معاملے کو ایک خاص آئیڈیالوجی کی عینک سے دیکھنے والے کٹ تو سکتے ہیں لیکن اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے گزشتہ دنوں شعبہ تعلیم سے وابستہ کابل میں مقیم دوست سے طالبان کے موجودہ افغانستان کے حالات پر بات ہوئی تو جہاں پر انہوں نے طالبان کے غیر انسانی رویوں اور اقدامات کا ذکر کیا وہیں یہ امید افزا بات بھی کی کہ طالبان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بنیادی آئیڈیالوجی میں اصلاح چاہتے ہیں ممکن ہے مستقبل میں یہ اصلاح پسند کوئی کردار ادا کر سکیں۔

مبینہ طالب اصلاح پسندوں کے ممکنہ کردار کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا فی الحال ایک نگاہ طالبان کے موجودہ افغانستان پر ڈال لی جائے ممکن ہے ماضی، حال اور کسی حد تک مستقبل کو بھی سمجھنے مین معاون ہو سب سے پہلے اقتصادی حالات کی بات کی جائے تو طالبان حکومت میں آتے ہی غرور و تکبر کا شکار ہو گئے اور دوحہ معاہدے کی کچھ شقوں کو پاؤں تلے روند ڈالا جس کے جواب میں امریکا نے عالمی بنک میں پڑا افغانستان کا سرمایہ منجمد کر دیا اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جس کی وجہ سے ملک اقتصادی مشکلات میں گھر گیا۔

طالبان کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ عوام دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے۔ اس وقت ملک کی بڑی آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ “تبدیل شدہ طالبان”  نے آتے ہی پانچ لاکھ کے قریب مختلف سرکاری محکموں میں کام کرنے والے لوگوں کی ملازمتوں کو ختم کر دیا۔ حالات دیکھتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی جلد از جلد اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنے میں ہی عافیت جانی۔ نوکری پیشہ خواتین کو کلی طور پر ملازمتوں سے برطرف کر کے پابندیوں میں جکڑ کر گھر بٹھا دیا گیا۔

عشر اور زکٰوۃ وغیرہ تو پہلے ہی وصول کر رہے تھے لیکن ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا حتی کہ اس وقت خوانچہ فروشوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ “تبدیل شدہ طالبان” کے پاس کوئی اقتصادی پروگرام موجود نہیں ہے۔ اگر انہوں نے افغانستان کو فرسودہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر چلانے کا موجودہ سلسلہ جاری رکھا تو بہت بڑا اقتصادی بحران جنم لے گا جس کے اثرات سے یہ خطہ بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

افغانستان کی سیاسی صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ موجودہ سیاسی بندوبست میں افغان عوام کے نمائندوں کو کوئی عمل دخل حاصل نہیں اس وقت نام نہاد طالبان حکومت، کو چلانے کے لئے کوئی بھی عہدہ دینے کا معیار یہ ہے کہ وہی شخص حکومت میں شامل ہو سکتا ہے جو طالبان کے ساتھ گزشتہ حکومت کے ساتھ بر سر پیکار رہا ہو تجربہ یا اہلیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ مولویوں کو ہر فیلڈ میں گھسا دیا گیا ہے عملاً افغانستان کی باگ ڈور شدت پسندوں کے ہاتھ میں ہے 23 صوبوں کا اختیار حقانی گروپ کے پاس ہے جو طالبان کا شدت پسند ترین گروپ سمجھا جاتا ہے 313 بدری بٹالین کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے کہا جاتا ہے کہ یہ بٹالین جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے اور اس کے پاس ایک ہزار سے زائد خود کش حملہ آور بھی موجود ہیں۔

امن و امان کی صورت حال بھی قابو میں نہیں ہے طالبان ہزارہ لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکے جو آئے روز دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ایک بار پھر افغانستان دہشت گردوں کی جنت بنتا جا رہا ہے طالبانی دور میں دہشت گرد گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

“تبدیل شدہ طالبان”  نے اس تھوڑے سے عرصے میں افغانستان کو علمی حوالے سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے گزشتہ حکومت کی کرپشن اپنی جگہ لیکن علمی حوالے سے افغانستان میں ایک فضا بن گئی تھی۔ بڑی تعداد میں کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ ملک میں 57 کے قریب یونیورسٹیاں فعال تھیں جن میں سے اکثر کو بند کر دیا گیا ہے۔ 600 سے زائد پرائیویٹ سکول بند کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح میڈیا کا گلہ بھی دبا دیا گیا ہے۔ 100 سے زائد چینلز میں سے اب چند بچے ہیں افغانی عوام اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا ملک ویران ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ طالبان کی حکومت کا ہر ایک دن افغانستان کی ویرانی میں اضافہ کر رہا ہے۔

“تبدیل شدہ طالبان” نے اگست 2021 سے اب تک یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں دین کا درست فہم حاصل ہے نہ حکومت و سیاست کا کوئی علم۔ وہ صرف شدت پسندی، تکبر، جہالت سے افغان عوام کو اپنا محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ آج کا افغانستان 15 اگست 2021 سے بہت مختلف ہے جسے مزید ویران کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ دوحہ مذاکرات کے بعد طالبان نے اس نکتہ پر بہت زور دیا تھا کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے بہت سیکھا ہے۔ اب ذمہ دار حاکم ہونے کا ثبوت دیں گے اور افغانستان کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں گے لیکن آج کا افغانستان طالبان کے تمام تر دعوؤں کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments