سولہ پور جس نے 1930 ء میں آزادی کا اعلان کر دیا تھا


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے

صبح کے سات بج رہے تھے ہماری ٹرین سولہ پور پہنچ گئی۔ دن کی روشنی میں مجھے وہ شہر دیکھنا نصیب ہو رہا تھا جس کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم منفرد اور جرات مندانہ واقعہ جڑا ہوا ہے۔ میرے ساتھی بھی بیدار ہو چکے تھے۔ ہمارے ساتھ سفر کرنے والی خاتون اور ان کے بچے بھی جاگ گئے تھے۔ اب سب ناشتے کا انتظار کر رہے ہیں۔ حسب معمول ایک صاحب آئے اور انھوں نے ہم سے ہماری پسند کا پوچھا اور کچھ ہی دیر بعد ناشتہ ہمارے سامنے تھا۔

میں نے موقع غنیمت جانا اور سولہ پور شہر کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ یہاں پر ٹرین تھوڑی دیر کے لیے رکی۔ تامل ناڈو، آندھرا پردیش اور کرناٹکا سے ہوتے ہوئے اب ہم مہاراشٹر اسٹیٹ میں داخل ہو چکے تھے۔ میں نے تاریخ میں سولہ پور کے بارے میں ایک ایسا واقعہ پڑھا تھا جس نے میرے دل میں اس شہر کے لیے خاص دلچسپی پیدا کردی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کا ذکر ہماری تاریخی کتابوں میں بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں اس واقعہ کی طرف آؤں میں اس شہر کا مختصر تعارف آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سولہ پور مہاراشٹر کا ایک اہم شہر ہے جو بمبئی سے چار سو، پونا سے اڑھائی سو اور حیدرآباد سے تین سو تیرا کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاریخ میں اس کا نام شولاپور بھی استعمال ہوا ہے اور کہیں کہیں سولاگی بھی لکھا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں سولہ گاؤں تھے جن کی وجہ سے اس کا نام سولہ پور ہے۔ اس شہر کی تاریخ تقریباً اًیک ہزار سال پرانی ہے۔ شہر کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے اور مسلمانوں آبادی کا بائیس فیصد ہیں۔

اس شہر میں شرح خواندگی پچانوے فیصد سے بھی زائد ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے یہاں پر ایک صاحب رہتے تھے جن کا نام راؤ مالاپا واراد تھا۔ یہ صاحب انڈین چیمبر آف مرچنٹ جو کہ ملکہ وکٹوریہ نے بنائی تھی کے ممبر تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ہندوستان میں ٹریکٹر لانے والے پہلے شخص تھے۔ علاقے کی ترقی کے لیے بھی ان کی بے حد خدمات ہیں۔ آج بھی لوگ ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔

ہندوستان کی آزادی کی جد و جہد کے دوران ایک موقع پر انگریزوں کے خلاف ”ہندوستان چھوڑ دو“ کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک نے لوگوں میں بہت جوش و جذبہ پیدا کیا۔ اس تحریک سے متاثر ہو کر سولہ پور کے شہریوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا اور 9 مئی 1930 ء کو شہر کی میونسپل کمیٹی کی عمارت پر ہندوستانی پرچم لہرا دیا۔ موجودہ بھارتی پرچم تقسیم ہند کے بعد بھارت کا قومی پرچم بنا ہے۔ انھوں نے کون سا پرچم لہرایا اس کی تفصیل مجھے نہیں ملی۔ صرف انھوں نے پرچم ہی نہیں لہرایا بلکہ ایک طرح سے غلامی سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔

اس واقع کی تفصیل سوپان ایس جیوال نے اپنے ایک مضمون
1 MARSHAL LAW & FOUR MARTYRS IN SOLAPUR
میں اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

انگریزوں کو یہ کیسے برداشت ہو سکتا تھا۔ انھوں نے 11 مئی 1930 ء لوگوں کو گرفتار کیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا 12 مئی 1931 ء کو اس شہر کے چودہ افراد کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ اور یوں آزادی کا اعلان کرنے والے لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ پھانسی چڑھنے والے لوگوں میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ اس لیے لوگ اس شہر کو شہیدوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔

عام طور پر ہم شہید کا لفظ خاص مسلمانوں کے لیے بولتے ہیں لیکن میں نے بے شمار ہندوؤں اور سکھوں کو ان لوگوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کرتے دیکھا ہے جو کسی بڑے مقصد جیسے آزادی کی کوشش میں اپنی جان سے گئے۔ کچھ لوگوں کو غیر مسلموں کے لیے شہید کا لفظ استعمال کرنے پر اعتراض ہے۔ میرے خیال میں شہید کے لفظ کی وسعت کی وجہ سے اب بہت سے لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ انگلش میں اس کے لیے مارٹائر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

جب میں سولہ پور کی غلامی سے آزادی کے واقعات کی تحقیق کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اترپردیش میں واقع بلیلہ کے شہریوں نے بھی 19 اگست 1942 ء کو بغاوت کا اعلان کر کے چیتو پانڈے کو اپنا سربراہ بنا یا تھا۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس کے نتیجے میں انگریزوں نے بہت سے لوگوں کو پھانسی کی سزا دی۔ ایک اور بات یہ پتہ چلی کہ بلیلہ وہ شہر ہے جہاں منگل پانڈے نے جنم لیا تھا۔ یہ منگل پانڈے وہی صاحب ہیں جنہوں نے انگریزوں کے دیے ہوئے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کیا تھا اور بہت سے انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ منگل سنگھ پانڈے جنگ آزادی کا پہلا پھانسی پانے والا فرد ہے۔ اس کی موت نے 1857 ء کی جنگ آزادی کی بنیاد رکھی۔ بلیلا شہر میں پانڈے کا بڑا مجسمہ بھی موجود ہے۔

میرے علم کے مطابق اب تک بھارت اور پاکستان میں صرف یہ دو شہر ایسے ہیں جنہوں نے انگریزوں کے دور ہی میں بغاوت کا اعلان کر دیا تھا اور انھیں اپنے شہر سے بھگا دیا۔ یہ قبضہ بہت دیر تک تو برقرار نہ رہ سکا لیکن یہ ایک ایسا واقعہ ضرور تھا جس کی گونج لندن تک سنائی دی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں بھی بے شمار لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔

سولہ پور میں رانی لکشمی بائی آف جھانسی کا ایک بڑا مجسمہ جس میں وہ گھوڑے پر سوار ہیں بھی موجود ہے۔ اس سے اہل شہر کا آزادی کے لیے جانیں دینے والوں کی قدر ظاہر ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments