کراچی ایٹ فیسٹیول: انتظامی نااہلی کے باعث ایک فیملی تقریب ہنگامے میں کیسے تبدیل ہوئی؟


کراچی ایٹ ’فیسٹیول کو اس سال دس سال مکمل ہو گئے مگر لوگوں کی سوچ اور انتظامیہ کی پیسے کی ہوس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ پروگرام تفریح کے لئے ہوتے ہیں، مگر ہمارے معاشرے کی سوچ 2023 میں بھی بدل نہیں سکی، گزشتہ سال کووڈ کی وجہ سے اس تقریب کو محدود رکھا گیا، جبکہ اس سے قبل لاک ڈان کی وجہ سے اس کا انعقاد نہیں ہوا تھا۔ اسی وجہ سے اس سال لوگوں کا سمندر، سمندر کنارے بیچ ویو پارک پر فیملی پروگرام سمجھ کر نکل آیا۔

گزشتہ ہفتے 6 جنوری سے 8 جنوری تک یہ میلہ منعقد کیا گیا جس میں کھانے پینے کے درجنوں سٹال لگائے گئے اور موسیقی کا پروگرام بھی منعقد کیا گیا۔ جس پروگرام سے لطف و اندوز ہونے کے لئے کراچی کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ مگر اتوار کے دن لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جس پروگرام میں لطف اندوز ہونے جا رہے ہیں، وہی لوگ ایک عذاب میں مبتلا ہونے جا رے تھے۔ اتفاق یہ ہوا کے میرا بھی اس پروگرام میں فیملی کے ساتھ جانا ہوا، کیونکہ گھر سے قریب تھا، پارک سے باہر کی حالت یہ تھی کہ کار پارکنگ کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی، اور تو پارک کے باہر اتنے کھڈے تھے کہ دن میں بھی کوئی چل نہیں سکتا، لیکن اندر جاکر دیکھا تو حالت یہ تھی کہ جہان تین ہزار لوگوں کی گنجائش تھی وہاں انتظامیہ نے پانچ ہزار لوگوں کو انٹری دے دی۔

دوسری بات لوگوں کی سیکورٹی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ پروگرام کی شروعات میں مجھے تو نہ کوئی پولیس کی نفری نظر آئی، ایک تو فیملی پروگرام کی مارکیٹنگ کی گئی، ہم نے سمجھا کہ فیملی پروگرام ہو گا، مگر کوئی فیملی پروگرام نہیں تھا۔ لڑکوں کی بڑی تعداد کو ٹکٹس سیل ہو رہے تھے، پروگرام میں اکثر کم عمر لڑکیاں شامل تھیں۔ لڑکے لڑکیوں کی آڑ میں اندر گھس رہے تھے، اور لڑکیاں انہیں ٹکٹس لینے میں مدد کر رہیں تھیں، اتفاق یہ ہوا کہ جب اندر داخل ہوئے تو گراؤنڈ لوگوں سے بھرا ہوا تھا، گھومنے کی بھی کوئی جگہ نہیں تھی لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم تھا کہ جیسے کوئی سیاسی جلسہ ہو، اور انتظامیہ پھر بھی صرف ٹکٹیں بیچنے میں مصروف تھی۔

ہنگامہ آرائی اور بد انتظامی کا ذمے دار کون ہے؟ انتظامیہ یا لوگ؟

انتظامیہ کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریاں اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے کانسپائرسی تھیوری کو اپنی ڈال بناتی ہے۔ بہت آسان سی بات ہے کہ جب آپ ایک گراؤنڈ میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو ٹکٹس فروخت کریں گے، اور فیملی پروگرام میں مردوں کی بڑی تعداد کو اندر داخل ہونے دیں گے، ظاہر ہے اگر آپ کی سیکورٹی ہوتی، آرگنائزرز ہوتے تو مرد حضرات کہاں سے اندر داخل ہوتے، ایک فیملی پروگرام کو بزنس کے طور پر انجام دیا گیا۔

تو لازمی سی بات ہے کہ بدانتظامی پیدا ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک فیملی پروگرام مردوں کا پروگرام کیسے بن گیا، ظاہر ہے انتظامی لاپرواہی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اور ہراساں کرنے کہ بہت سے معاملات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس بات کا ذمے دار کون ہے؟ یا ہمارا سماج اس بات کو بھی ہضم کرنے کا عادی ہو گیا ہے کہ رات گئی بات گئی!

اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ لوگوں کا کسی ایک مقام پر جمع ہونے سے پہلے سکیورٹی کے جائزہ لیا جاتا ہے، کیونکہ ایسے مقامات پر سکیورٹی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسی جگہوں پر کسی بھی بدانتظامی کی صورت میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

آنکھوں دیکھا حال یہ ہے کہ کانسرٹ شو میں مشہور گلوکار کیفی خلیل کے لئے لوگ گھنٹوں سے راہ دیکھ رہے تھے، مگر آرگنائیزر اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے۔ آخر تک لوگ انتظار کرتے رہے اور یہ پکارتے رہے کیفی خلیل۔ مگر لوگوں کو منتشر کیا گیا۔ لوگوں کے ہجوم کو منتشر کرنے میں انتظامیہ کی لاپرواہی تھی۔ جب آخر میں لوگوں کا ہجوم منتشر ہونے لگا اور باہر جانے کا راستہ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ چار دیواری کے کچھ حصے پہلے سے ہی ٹوٹے ہوئے تھے تو کچھ لوگ وہاں سے اندر کی طرف آ ر ہے تھے تو کچھ لوگ دیوار پھلانگ رہے تھے۔

کانسرٹ شو کے دوراں سگریٹ کا دھواں چاروں طرف پھلنے لگا۔ لڑکیوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اکثر لڑکیاں کانسرٹ شو سے باہر جانے کے لئے بے چین تھیں، مگر راستہ نہیں تھا کہ کوئی ہجوم سے باہر جا سکے۔ کیوں کہ لوگوں میں وہ سینس ختم ہو چکی تھی کہ کسی کو راستہ دینے کے لئے تیار نہیں تھے، ہمارے سماج میں صرف آٹے اور چینی یا بجلی کا بحران نہیں ہے مگر ہمارے معاشرے میں سینس اور رواداری کا بڑا بحران ہے۔ تیسری بات دور دور تک آرگنائیزر کا نام و نشان نہیں تھا۔

بہرحال بڑی جدوجہد کے بعد گیٹ کہ قریب پہنچے تو خدا کی اماں پائی۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک بڑے ایڈوینچر سے گزر آئے ہیں۔ بیچ ویو میں ہونے والے اس میلے کے عینی شاہدین نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیملی پروگرامز ایسے نہیں ہوتے یہ ایک بزنس تھا جو انتظامی ناکامی کا بولتا ہوا ثبوت تھا۔ لوگوں نے مزید کہا کہ کب ہم ذمے دار اور احساس رکھنے والے لوگ بنیں گے، کب ہمارے سماج میں نظم و ضبط اور دوسروں کے لئے احساس پیدا ہو گا۔

فیسٹیول کے آرگنائزر عمر اوماری نے ایک چینل کو بتایا کہ ہم نے پالیسی رکھی تھی کہ کسی سنگل شخص کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ پھر ایک فیملی پروگرام میں سنگل حضرات کو داخلہ کیسی ملا؟ ظاہر ہے کہ جب آرگنائزر کمزور ہوں گے ، اور صرف کمانے کو ہے ترجیح دیں گے، لوگوں کی جان مال عزت کو غیر اہم سمجھا جائے گا تو ایسے ہے حالت ہوں گے ، بیچ لگژری ہوٹل میں بھی ہر سال، کے ایل ایف اور ایس ایل ایف منعقد ہوتے ہیں مگر ان عوامی میلوں میں تو کبھی بدنظمی پیدا نہیں ہوئی، جب کہ وہاں ٹکٹس بھی فروخت نہیں ہوتے مگر پھر بھی بدنظمی پیدا نہیں ہوتی کیوں کہ سب سے اہم سیکورٹی ہوتی ہے اور آرگنائزر کا کردار اہم ہوتا ہے جو ایٹ فیسٹول میں نظر نہیں آیا۔

ایک کالم نگار کی حیثیت میں منتظمین سے اپیل ہے کہ وہ کراچی ایٹ جیسے بڑے ایونٹس کا انعقاد کرتے وقت بزنس سے زیادہ سکیورٹی کو اولین ترجیح دیں تا کہ لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا نہ ہو۔ اور خواتین خود کو محفوظ سمجھیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments