ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی تصنیف: وہ سب جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے


زندگی فطرت کا سب سے قیمتی عطیہ ہے اور صحت مند زندگی قدرت کا ایک ایک عظیم تحفہ۔

مگر جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، زندگی کی سہولتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور رہن سہن کے طریقے آسان سے آسان تر ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد، تن آساں اور سہل پسند بنتی جا رہی ہے۔ اکثر لوگ پیدل چلنے، جسمانی کام کرنے اور باقاعدہ ورزش جیسی عادات اپنانے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ جس کا فطری نتیجہ بیماریوں کی یلغار ہے۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی جسم کو مکمل طور پر صحت مند رہنے کے لیے حرکت اور کسی قدر مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جہاں، سادہ و متوازن غذا، تازہ ہوا اور صاف پانی بھی ایک صحت مند زندگی کے لیے لازمی عناصر ہیں وہاں جسم کے اندر موسمی اثرات برداشت کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بیماروں میں اضافے کے دیگر اسباب لوگوں کی دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی، غیر معیاری خوراک اور فربہ پن بھی ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے اسباب کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں ذیابیطس، بلند فشار خون اور امراض قلب صف اول میں آتی ہیں۔ اول الذکر دیگر دو بیماریوں کا ایک اہم سبب ہے اور دنیا کی دس مہلک ترین بیماروں میں چھٹا درجہ ذیابیطس کا ہے۔

12 نومبر 2021 ء کو جب دنیا بھر میں یوم ذیابیطس منایا جا رہا تھا تو انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن نے کچھ اعداد و شمار جاری کیے۔ جن کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد (دو سال قبل) 53 کروڑ 70 لاکھ تھی۔ یہ تعداد 2019 ء کے اندازوں سے 7 کروڑ 40 لاکھ زیادہ تھی۔ گویا ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ 26 فی صد سالانہ ہے۔

2021 ء کے اعداد شمار کے مطابق، پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ 26 فی صد شرح اضافہ سے 2023 ء میں یہ تعداد بڑھ کر 4 کروڑ 15 لاکھ سے اوپر ہو جائے گی۔ یعنی رواں سال میں ہر چار پاکستانی بالغ افراد میں سے ایک فرد ذیابیطس میں مبتلا ہو گا۔ جو دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے میں بلند ترین سطح ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا بھر میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی کثیر ترین سطح رکھنے کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے اور چین ( 14 کروڑ) اور ہندوستان ب ( 7 کروڑ 40 لاکھ ) بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں، قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس تعداد میں کمی کرنے کے لیے یا اس کے اسباب میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومتیں، معاشرہ اور افراد سنجیدہ نہیں ہیں۔

2021 ء میں ہی پاکستان میں 4 لاکھ افراد ذیابیطس کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے دل دہلا دینے والے اعداد و شمار میں دو اور باتیں بھی قابل ذکر ہیں :

پاکستان میں 26.9 فی صد سے اوپر افراد ذیابیطس کا شکار تو ہیں مگر وہ اس کی تشخیص اور علاج سے محروم ہیں۔

پاکستان میں 1 کروڑ 70 لاکھ سے اوپر افراد، امپئیرڈ گلوکوز ٹالرینس (IGT) یا نشاستہ برداشت نہ کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے افراد کسی وقت بھی ذیابیطس کی دوسری قسم ( DIABETES TYPE 2 ) میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ جب کسی وجہ سے ذیابیطس کی تشخیص نہیں ہو پاتی یا مناسب علاج نہیں کروایا جاتا تو انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ جن میں دل کا دورہ، فالج کا حملہ، گردوں کا فیل ہونا، اندھا پن اور ذیلی اعضا ء ( ٹانگ یا پاؤں کا کٹنا) شامل ہیں۔ ایسا ہو جانے سے نہ صرف مریضوں کا معیار زندگی کم تر ہو جاتا ہے اور زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے بلکہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات سے مالی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں تعینات بقائی انسٹی ٹیوٹ برائے ڈیابی ٹالوجی اینڈ انڈو کرینالوجی کے پروفیسر عبدالباسط کے مطابق: ”پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد، افراد اور معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔“

ڈاکٹر لبنیٰ کی تحریر کردہ کتاب :
وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں نروان پبلیکیشن لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر صاحبہ نے آسان زبان میں ذیابیطس میں مبتلا ہو جانے کی وجوہات، علاج اور حفاظتی اقدامات سے متعلق مفصل آگاہی دی ہے۔ اس کتاب کا سرورق نامور آرٹسٹ سعید ابراہیم نے ڈیزائن کیا ہے۔ طباعت کے لیے عمدہ کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کوئی طویل یا ضخیم کتاب نہیں بلکہ 221 صفحات پر مشتمل مختصر اور دلکش سی کتاب ہے جس کو آسان بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے 28 ابواب میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ تاکہ ذیابیطس کے ذیلی موضوعات الگ الگ پیرائے میں بیان کیے جا سکیں۔

کتاب ذیابیطس کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ:

” ذیابیطس کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ دنیا میں صدیوں سے موجود ہے۔ انڈیا اور چین کی ہزاروں سالہ پرانی کتابوں میں ذیابیطس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ذیابیطس کا پرانا ترین کیس مصر میں ملتا ہے۔ جس میں 1552 قبل مسیح میں مصری طبیب ’ہیسی را‘ کا لکھا ایک نوٹ ملا ہے ایک اس اس نے ایئک ایسے مریض کے لیے چھوڑا تھا، جس میں مریض کو بار بار پیشاب آنے کا ذکر تھا۔ ڈاکٹر کو یہ تو معلوم نہ تھا کہ یہ کیا بیماری تھی مگر انھوں نے مریض کو ایک خاص خوراک کھانے کا مشورہ دیا جس میں پھل، اناج اور شہد شامل تھے۔ اس غذا سے مریض کو کچھ فائدہ تو ہوا مگر اس کی بیماری دور نہیں ہوئی۔ دیگر ڈاکٹروں نے اس مریض کو بئیر، کھیرے کے پھول اور تالاب کا پانی استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔

’سسروتا‘ جن کو ہندوستان میں طب کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے 600 قبل مسیح میں ایک بیماری تشخیص کی جس کو بعد میں ذیابیطس کا نام دیا گیا۔ اور ’سسروتا‘ ہی وہ پہلے طبیب تھے جنھوں نے ذیابیطس کی اقسام، ذیابیطس ٹائپ ون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا فرق پہچانا۔ ”

نہایت آ سان زبان میں اور خاص ترتیب سے لکھے گئے 22 ابواب میں ذیابیطس کی علامات سے لے کر حفاظتی اقدامات تک کو سلیس اردو میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب میں شامل اہم موضوعات میں :

ذیابیطس کی تشخیص اور اس کا علاج۔
ذیابیطس کی مانیٹرنگ ( نگرانی) ۔
ذیابیطس کے مریض اور ورزش۔
ذیابیطس میں استعمال کی جانے والی دوائیں۔
ذیابیطس اور بلڈ پریشر۔
ذیابیطس اور ہائی کولیسٹرول۔
ذیابیطس اور ہمارے پاؤں۔
ذیابیطس اور موٹاپا۔
موٹاپے اور ذیابیطس کی ماحول کیا قیمت ادا کر رہا ہے؟
ذیابیطس اور سگریٹ نوشی، ۔
ذیابیطس اور سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری۔
ذیابیطس اور ٹیسٹاٹرون کم ہو جانے کی بیماری۔
ذیابیطس کی دیکھ بھال میں کتوں کی مدد۔
حمل کے دوران ہو جانے والی ذیابیطس۔
ذیابیطس اور روزے
اور
ذیابیطس میں پیش آنے والی ہنگامی سرگرمیاں، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

مجھے امید ہے کہ پاکستان، جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں موجود ذیابیطس سے متاثرہ افراد اس کتاب سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کو صحت مند، پرسکون اور خوشگوار بنا سکیں گے۔ یہ کتاب نروان پبلیکیشن لاہور سے شائع ہوئی ہے اور اس کے روح رواں سعید ابراہیم سے فیس بک پر رابطہ کر کے منگوائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا 1972 ء میں سکھر میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم سکھر میں حاصل کی اور چانڈکہ میڈیکل کالج لاڑکانہ سے ڈاکٹر بن کر اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلی گئیں۔ امریکہ جا کر انھوں نے انٹرنل میڈیسن میں ریذیڈینسی کرنے کے بعد متعدد پیشہ وارانہ کورسز اور ڈپلومے حاصل کیے۔ بعد ازاں طب کی مسابقتی دنیا میں اپنے فن کی مہارت کی بلندی کو چھونے کے لیے انھوں نے اینڈوکرینالوجی، ڈیابی ٹیز اور میٹابولزم میں سپیشلائزیشن کی۔

وہ عرصہ 25 سال سے انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ زمانہ حال میں امریکہ کی ریاست اوکلا ہوما کے شہر نارمن کے ریجنل ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن کی سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر مرزا طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی ہیں۔ ان کے پیشہ وارانہ اور سماجی مسائل پر مشتمل سینکڑوں مضامین معروف انٹرنیٹ میگزین ”ہم سب“ کی زینت بن چکے ہیں۔

سماجی فلاح و بہبود اور انسانی خدمت کی اس اہم کاوش پر میں ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments