آٹا آٹا کرتی میں رل گئی


آٹے کا بحران انتہائی سنگین ہو گیا ہے۔ جو مناظر اس وقت دکھائے جا رہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ شامت ہمیشہ غریب ہی کی کیوں آتی ہے؟ کچھ روز پہلے میری ملازمہ نے بتایا کہ ہم صرف روٹی ہی کھاتے ہیں، جب بھی بھوک لگے۔ اور کچھ تو ہوتا نہیں کھانے کو تو بس روٹی ہی کھاتے ہیں۔ اب سوچ سوچ کے دل بیٹھا جاتا ہے کہ روٹی بھی پہنچ سے دور ہو گئی ہو گی۔

صد افسوس کہ پاکستان جو وافر گندم پیدا کرنے والے ممالک میں سے تھا، اسی کے باسی اب آٹا خریدنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں۔ یہاں تک کہ اس دھکم پیل میں ایک دوسرے کے پیروں تلے روندے جا رہے ہیں۔ ہائے رے پاکستانیو! تمہاری قسمت۔ اس سے بھی بڑھ کے بدنصیبی کہ مقتدر حلقوں اور حکومت وقت کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تو عمران خان کو روکنا ہے۔ ایک بار پھر وہی کھیل دہرایا جا رہا ہے۔ ایک بار پھر اشرف المخلوقات کوڑی کے بھاؤ بکنے کو تیار ہے۔ سستے آٹے کی جگہ سستے ضمیر بک رہے ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی مہنگائی کا شور مچانے والوں سے پوچھنا تھا کہ آپ کے گھر تو آٹا پہنچ رہا ہے نا!

امپورٹڈ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر روٹی نہیں ہے تو ڈبل روٹی کھا لیں۔ سیاست کی نمبر گیم اور جوڑ توڑ میں انہیں پتا ہی نا چلا کہ اب تو ڈبل روٹی بھی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ یہ اشرافیہ کیا جانیں کہ لائن میں لگے سفید پوش لوگوں پہ کیا بیتتی ہے۔ مائیں، بہنیں، بزرگ ہاتھوں میں روپے پکڑے اور منہ سے پلیز پلیز کرتے آٹے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ مگر شہر اقتدار کے دکھ اور ہی ہیں۔ ان کا مسئلہ گولڈن نمبر کا حصول ہے۔ نمبر حکومت کے پورے ہیں یا اپوزیشن کے؟ تختہ پنجاب کس کا ہے؟ اب وہ تخت غریب کی لاش پہ ہی کیوں نا کھڑا ہو۔

لیکن یاد رکھئیے کہ ظلم آخر مٹ جاتا ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ آج آپ کی رسی دراز ہے۔ پکڑ میں تو آؤ گے ایک دن۔ تب وجہ خواہ ایک مچھر جیسی ہی کیوں نا ہو جس نے نمرود کو بالآخر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ وہ بھی طاقت کے نشے میں چور تھا۔ طاقت والے ہمیشہ یونہی بے خبر ہی رہتے ہیں لیکن وقت بدلتا ہے۔ اور وقت بدلے گا۔ اور میری نظر میں وقت بدل رہا ہے۔ عوام شعور کی سیڑھی پہ قدم رکھ رہی ہے لیکن بہت آہستہ۔ مجھے امید ہے کہ اب قوم روٹی، کپڑا اور مکان جیسے نعروں کے بہکاووں میں نہیں آئے گی۔ وہ لوگ جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن کے لیے صرف آٹے کا حصول ہی سب سے اہم ہے، وہ بھی اب ان نعروں کی حقیقت جان گئے ہیں۔

لیکن اصل ذمہ داری ان کی نہیں ہے۔ انہیں تو زندگی نے پیٹ کی آگ بجھانے کے سوا اور کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ اصل ذمہ داری اس طبقے کی ہے جنہیں 25 روپے کی روٹی اور 35 روپے کے نان سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر وہ بھی بے خبر رہ گئے تو بس پاکستانی آٹا آٹا کرتے ہی رل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments