برف باری۔ سید فخرالدین بلے کی دو شاہکار نظموں میں خوبصورت منظر نگاری


فراق گورکھ پوری نے صاحب طرز شاعر و ادیب سید فخرالدین بلے کو لفظوں کا مصور قرار دیا اور لکھا ہے کہ وہ رنگوں کے بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ عبارت جمیل الدین عالی کے کالم کی زینت ہے۔ فضائیں آج کل شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس لئے کہ برف باری نے جھیلوں اور آبشاروں کو بھی جما کر رکھ دیا ہے۔ اس یخ بستہ موسم میں مجھے سید فخرالدین بلے مرحوم کی دو شاہکار نظمیں یاد آ رہی ہیں، جو انہوں نے وادیٔ بولان میں اپنی پوسٹنگ کے دوران رہتے ہوئے برف باری سے لطف اندوز ہونے کے بعد کہی تھیں۔

ان نظموں کو دیکھ کر احساس ہوا کہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی سید فخرالدین بلے کی منظر نگاری کے گن کیوں گاتے تھے۔ کوئٹہ میں برف باری دیکھنے کے بعد جو دو نظمیں سید فخرالدین بلے نے تخلیق کیں، وہ آپ کے ذوق کی تسکین کے لئے شریک اشاعت کی جا رہی ہیں۔ یہ دونوں نظمیں الگ الگ بھی ہیں اور ایک دوسری سے جڑی ہوئی بھی۔ پہلی نظم ہے باران کرم، جو کوئٹہ میں برفباری سے متاثر ہو کر کہی گئی۔ سید فخرالدین بلے کی یہ نظم منظر نگاری کا شاہکار ہے۔ انہوں نے مثبت پہلو دیکھ کراس نظم کو باران کرم کا عنوان دیا تھا۔ لہٰذا ملاحظہ فرمائیے، یہ نظم باران کرم۔ اس نظم کے بعد آپ پڑھ سکیں گے، برفباری کے حوالے سے ان کی دوسری نظم، جسے آپ تصویر کا دوسرا رخ بھی قرار دے سکتے ہیں۔

باران کرم نظم۔
نظم نگار : سید فخرالدین بلے
گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے
دھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف، سبک، نازک و خود رفتہ و خستہ
رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی
دوشیزگیٔ شام و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اجالے
چاندی میں نہائے ہوئے یہ کوہ و بیاباں
ہے عام بہ عنوان طرب زیست کا ساماں
انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں پر
غالیچۂ سیمیں ہے بچھا ہے جو زمیں پر
موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جوبن کی ترازو میں سحر تول رہا ہے
ہر برگ و شجر رشک تن یاسمنی ہے
صحن و در و دیوار کی کیا سیم تنی ہے
گو عارضی بخشش سہی فطرت کی یہ چھل ہے
ہر ایک مکاں آج یہاں تاج محل ہے
شوخیٔ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوئے شبستاں پہ سحر سوئی ہوئی ہے
چمپا سے چنبیلی سے ہراک زلف گندھی ہے
ہر ایک سر کوہ پہ دستار بندھی ہے
چشمے پہ یا جیسے کوئی مہناز نہا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چرا کر
ہے وادیٔ بولان کہ حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا
چاندی کا کٹورا ہے سر آب پڑا ہے
بلور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
ہیں کوثر و تسنیم بھی، ساقی بھی ہے، مے بھی
ہے ساز بھی، مضراب بھی، آواز بھی، لے بھی
مطلوب بھی موجود ہے، طالب بھی، طلب بھی
پائل بھی ہے، جھنکار بھی، مطرب بھی، طرب بھی
منظر بھی ہے، منظور بھی، ناظر بھی، نظر بھی
ہے ناز بھی، انداز بھی، انداز دگر بھی
ہیں ارض و سما، کون و مکاں نور میں غلطاں
باران کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں
ہر منظر پر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کہکشاں ہے
ہر ذرہ ہے مہتاب، ہر اک ذرہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشن جہاں تاب کی تمہید
اس برف سے رعنائی و شوخیٔ گل تر
یہ برف ہے پیشانیٔ بولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف نہیں فصل بہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز بنوں اور صنم دل میں بٹھاؤں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
انفاس کی حدت سے یہ گل جائے گی اک دن
باران کرم نظم۔
نظم نگار : سید فخرالدین بلے

اب آپ ملاحظہ فرمائیے، برف باری کی تصویر کا دوسرا رخ، جسے سید فخرالدین بلے نے ہنگام محشر کا نام دیا ہے اور اس میں بھی ان کی منظر نگاری اوج پر نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر اور ادیب عطا شاد نے خضدار سے سید فخرالدین بلے کے لاہور تبادلے کے موقع پرایک الوداعی شام میں انہیں مایہ ء ناز ماہر تعلقات عامہ اور منظرن گاری کے اعتبار سے ممتاز شاعر قرار دیتے ہوئے کہا تھا یہ مختصر عرصہ کوئٹہ، قلات اور خضدار میں رہے لیکن بڑے گہرے نقوش چھوڑ کر رخصت ہو رہے ہیں۔

انہوں نے وادیٔ بولان میں برف باری سے متاثر ہو کر جو نظم لکھی ہے، یہ ہر سال برفباری کے دنوں میں ان کی یاد دلاتی رہے گی۔ اور ایسا ہی ہے۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ برفباری گلگت بلتستان میں ہو یا سوات اور ہنزہ میں، بولان کی وادی میں یا بطور خاص کوئٹہ اور قلات میں۔ ادبی حلقوں میں سید فخرالدین بلے کی یہ نظمیں بڑے پیمانے پر شیئر کی جاتی ہیں۔ برف باری کی تصویر کا یہ دوسرا رخ ہے، جسے سید فخرالدین بلے نے۔ ہنگام محشر۔ کا نام دیا۔ وہ کہتے تھے برفباری کو تو خوب انجوائے کیا لیکن جب یخ بستہ ہوائیں چلنے لگیں تو کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ میں نے یہ نظم لکھی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے برفباری کی تصویر کا دوسرا رخ۔

نظم۔ ہنگام محشر
(کوئٹہ میں برفباری کی تصویر کا دوسرا رخ )
نظم نگار : سید فخرالدین بلے
ہے برف کے اس عکس میں سرشاری و مستی
لیکن ہے اسی عکس کا اک دوسرا رخ بھی
تصویر کے اس رخ میں ہے ژولیدہ جوانی
ہے ہوش ربا صبر طلب، جس کی کہانی
گھنگھور گھٹائیں ہیں دھواں دھار دھندلکا
یخ بستہ ہواؤں سے ہے اک حشر سا برپا
آبادیاں مانند بیاباں ہیں لق و دق
آتا بھی ہے ذی روح نظر کوئی تو منہ فق
حرکت ہے نہ ہلچل، نہ حرارت، نہ جنوں ہے
پر ہول فضا زیست گرفتار فسوں ہے
سنسان گلی کوچے ہیں اجڑے ہوئے بازار
ہیں برف میں مدفون چمن سبزہ و گلزار
ہر چیز ہے ٹھٹھری ہوئی افسردہ و بے رنگ
ہر آن ہوئے جاتے ہیں دامان نظر تنگ
ہے ساز نہ آواز، نہ بربط ہے نہ دف ہے
کل سلسلۂ ءکون و مکاں برف بکف ہے
بے جان ہیں احساس و گماں ہو کا ہے عالم
چلتی ہے ہوا جب تو شجر کرتے ہیں ماتم
سردی کا یہ عالم ہے جگر کانپ رہے ہیں
منہ برف کی چادر سے سبھی ڈھانپ رہے ہیں
پابند نشیمن ہے کوئی غار میں پابند
ہیں طفل و زن و پیر و جواں گھر میں نظر بند
راہوں میں رکاوٹ ہے، ہر اک گام پہ قدغن
یہ برف ہے یا زیست کے آثار کا مدفن
یہ برف ہے یا مرگ و قیامت کی نشانی
بے رنگ ہو جیسے کسی بیوہ کی جوانی
واللہ کہ ایمان لرزتا ہے دلوں میں
آتش کدے آباد مساجد میں گھروں میں
برفیلی چٹانوں کا ہر انداز ہے بھونڈا
بے رنگ ہو جیسے کسی خرانٹ کا چونڈا
محروم تپ زیست کا ٹھٹھرا ہوا تن ہے
ہے برف پہاڑوں پہ کہ کوڑھی کا بدن ہے
باغات خزاں دیدہ ہیں، پامال چمن ہے
یہ برف ہے یا مردہ پہاڑوں کا کفن ہے
گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے

کوئٹہ کی برفباری سے متاثر ہو کر لکھی گئی نظم باران کرم کے بعد تصویر کا دوسرا رخ۔ نظم کا عنوان ہے۔ ہنگام محشر۔

نظم نگار: سید فخرالدین بلے

کراچی کے معروف شاعر محسن اعظم المعروف محسن ملیح آبادی نے ایک بڑا طویل تحقیقی مقالہ سید فخرالدین بلے۔ ایک صاحب طرز شاعر لکھا، اور ان کے فن و سخن کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا۔ لکھتے ہیں وہ بیسویں صدی کے معتبر شعراء کی صف کے سخنور تھے۔ شاعری میں ان کا اعتراف علم و ادب کے ثقہ و مستند اساطین و زعما نے کیا ہے۔ بہت سے ناقدین کے اقتباسات بھی اپنے تحقیقی مقالے میں شامل کیے ہیں۔ اس لئے طوالت سے بچنے کے لئے یہاں ہم صرف ایک اقتباس دینے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ محسن ملیح آبادی نے لکھا ہے جوش ملیح آبادی فرماتے ہیں ”سید فخر الدین بلے کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔ تاریخ، ادب اور تصوف کا وسیع مطالعہ ان کے کلام میں بولتا ہوا، اور سوچ کے در کھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments