محنت سے اپنی قسمت بدلنے والے حامد حسین کی کہانی


حامد کی کہانی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ یہ کہانی ان تمام افراد کو متاثر کر سکتی جو اپنی زندگی میں بے روزگاری، غربت اور مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور اس دوران مایوسی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ حامد کی کہانی ملک کے ہر نوجوان کو ہمت دے سکتی ہے کہ وہ صفر سے شروع کر کے لاکھ پتی بن سکتے ہیں جس کے لئے حوصلہ، محنت، کفایت شعاری اور ایمانداری لازمی ہے۔

آج سے تیرہ سال قبل ایک دوست نے مجھے سے رابطہ کیا اور کہنے لگے کہ ایک غریب اور ایماندار لڑکا ہے کوئی نوکری میسر ہو تو بتا دیجئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہمارا آفس بوائے سرکاری نوکری ملنے پر چلا گیا تو ہم نے انہی دوست سے کہا کہ اس لڑکے کو ہمارے پاس بھیج دیں کن کو ملازمت درکار ہے۔

ابتدائی بات چیت سے معلوم ہوا کہ حامد حسین کو نوکری کی سخت ضرورت ہے۔ میں نے حامد سے پوچھا کہ آپ کیا کیا کام کر سکتے ہیں؟ حامد نے کہا کہ سر جو بھی دفتری کام آپ بتائیں گے میں کر لونگا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تنخواہ بہت قلیل ہے آپ کا گزارہ کیسے ہو گا؟ کہنے لگے سر دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہو جائے وہ کافی ہے۔

انتہائی قلیل تنخواہ پر میں نے حامد کو اپنے دفتر میں جز وقتی آفس بوائے کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔ حامد اس وقت میٹرک پاس کر کے ہمارے پاس آیا تھا۔ کچھ عرصے میں مجھے معلوم ہوا کہ حامد نہ صرف ایماندار ہے بلکہ انتہائی فرض شناس، کم گو اور کفایت شعار بھی ہے۔ وہ وقت پر دفتر آتے اور دفتر کی تمام چیزیں ترتیب سے رکھ دیتے تھے۔ جو کام ان کو بتاتے وہ پورے شوق اور لگن سے کرتے تھے۔

میں نے ایک دفعہ ان کو دفتر کی صفائی کرتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ ہمارے دفتر میں صفائی کے لئے الگ بندہ موجود ہے باوجود اس کے آپ دفتر کی صفائی کیوں کرتے ہیں؟ حامد کہنے لگے سر آپ بھی تو اپنا ٹیبل خود صاف کرتے ہیں، یہ ہمارے رزق کی جگہ ہے اس کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس دن میرے ذہن میں خیال آیا کہ حامد جیسے لوگ زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوتے ہیں۔ حامد کسی بھی کام کو سر انجام دینے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

حامد اپنی قلیل تنخواہ سے مہینے کے آخر میں کچھ نہ کچھ بچاتے تھے۔ وہ کھانا بہت کم کھاتے تھے۔ میری کمائی ان سے کئی گنا زیادہ تھی لیکن مہینے کے آخر میں حامد بوقت ضرورت مجھے قرضہ بھی دیتے تھے۔

ایک دن میں نے حامد سے کہا کہ آپ کھانا کم کیوں کھاتے ہیں؟ تو کہنے لگے سر جتنا میرے جسم کی ضرورت ہے اتنا میں کھاتا ہوں، اس سے زیادہ کھانا مناسب نہیں ہے۔ حامد کی یہ بات میڈیکلی بھی درست تھی کیونکہ کم کھانے کی وجہ سے ان کا دماغ اور جسم دنوں چست رہتے تھے۔

حامد نے مجھے بتایا کہ ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن معاشی مجبوریوں کی وجہ سے ان کو اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ میں نے پڑھائی سے متعلق ان کا ذوق و شوق دیکھ کر ان سے کہا کہ آپ کا دفتر میں زیادہ کام نہیں ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈسٹنس لرننگ پروگرام میں داخلہ لیں اور ایف اے کا امتحان دے دیں۔ حامد نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور دو سالوں کے اندر ایف اے پاس کر لیا۔

میں نے حامد سے کہا کہ اب آپ بی اے بھی کریں۔ انہوں نے وہ تجویز بھی مان لی اور اگلے دو سالوں میں بی اے پاس کر لیا۔ اب حامد میٹرک پاس نہیں بلکہ ایک گریجویٹ تھا جو میرے دفتر کا آفس بوائے تھا۔ اب میں ان سے آفس اسسٹنٹ کا کام بھی لینے لگا تھا۔ ان کی تنخواہ بھی کافی تک بڑھ گئی تھی۔ لیکن اب وہ ایک گریجویٹ تھا اس لئے ان کا خیال تھا کہ وہ کوئی اچھی سرکاری ملازمت حاصل کر لیں۔ میرا خیال حامد سے مختلف تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ ملازمت بہت بہتر طریقے سے تو کر سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ بہتر طریقے سے وہ کاروبار کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری کئی سالوں کی رفاقت کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ ان کے اندر ایک بہترین کاروباری فرد کی خصوصیات پائی جاتی تھیں۔

وہ روز کاروبار کا ایک نیاء اور منفرد آئیڈیا مجھے سے شیئر کرتے تھے۔ وہ ملازمت کے ساتھ ہلکا پھلکا کاروبار بھی کرتے تھے۔ وہ ایک چیز کہیں سے خریدتے تھے اور دوسری جگہ لے جاکر بیچ دیتے تھے اور کافی منافع بھی کماتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے سے کہا کہ سر میں لاہور سے سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکلیں لاکر بیچنا چاہتا ہوں آپ بھی شراکت دار بنیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے اس کاروبار کی شد بد کا نہیں معلوم اس لئے بہتر ہے آپ خود یہ کام کریں تاہم میں حسب توفیق آپ کی مالی مدد کروں گا۔ انہوں وہ کاروبار شروع کیا۔ کافی منافع کمایا لیکن کسی ایک فرد نے جب ان کو دھوکا دیا تو انہوں نے وہ کاروبار چھوڑ دیا۔

حامد ایسے کئی کاروبار سوچتے اور کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ کئی دفعہ ناکام بھی ہوئے لیکن کاروبار کی اپنی عادت نہیں چھوڑی۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور خیانت بھی نہیں کرتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ انتہائی حد تک کفایت شعار تھے۔ بہت قلیل کمائی کے باوجود ان کے جیب میں ہر وقت پیسے ہوتے تھے۔ نہ ان کے دوست احباب کا کوئی بڑا حلقہ تھا نہ وہ بسیار خور تھے اور نہ ہی وہ کوئی نشہ کرتے تھے۔ میں حیران ہوتا تھا کہ اتنی کم عمر میں یہ لڑکا اتنی احساس ذمہ داری کہاں سے سیکھ کر آیا تھا۔

تاہم یہ طے تھا کہ حامد کو مشکل حالات سے لڑنے کا گر آتا تھا۔ وہ باہمت اور حوصلہ مند تھا۔ اس نے مشکلات میں حوصلہ پست کرنے کی بجائے ان سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا عہد کیا تھا۔ حامد کی عیاشی ان کی محنت تھی اس کے علاوہ وہ کسی بھی قسم کی عیش و عشرت اور جوانی کی موج مستیوں سے نابلد تھا۔

چنانچہ ایک دن ہمارے درمیان یہ طے یہ ہوا کہ حامد ملازمت نہیں بلکہ کاروبار کریں گے۔ اس دوران حامد کا ان کے رشتہ داروں میں ہی رشتہ بھی طے ہوا تھا۔ 2017 میں حامد نے نوکری کو خیر باد کہا اور گاؤں شفٹ ہو گئے۔ میرا ان کا رابطہ برقرار تھا تاہم اب وہ تسلسل نہیں رہا تھا۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ حامد کی کامیابی یقینی ہے۔

مجھے ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ کچھ پیسے جوڑ کر انہوں نے گلگت کا مضافاتی گاؤں اوشکھن داس میں ایک دکان کھولی ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً مجھے فون کرتے اور میری خیریت دریافت کرتے اور اپنے کاروبار کے بارے میں بتاتے رہتے تھے۔

پانچ سال کے مختصر عرصے میں حامد نے اپنے کاروبار کو زبردست وسعت دی۔ صفر سے شروع کرنے والے حامد حسین آج ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔ انہوں نے اوشکھن داس میں ایک دکان سے تین دکانیں بنائی ہیں۔ ایک بہترین گھر بنالیا ہے اور گاڑی بھی لی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ حامد نے اپنے کاروبار میں چار نوجوانوں کو باقاعدہ ملازمت بھی دی ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ حامد کی مستقل مزاجی اور محنت ان کو موجودہ کامیابی سے کئی گنا آگے لے جا سکتی تھی لیکن دور افتادہ علاقہ اور مشکل حالات میں ری کر انہوں نے جو کامیابی حاصل کی ہے یہ ان کی بہت شاندار اور قابل تقلید کارکردگی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی مخصوص خصلتوں کی وجہ سے ترقی کے بام عروج تک پہنچ جائیں گے۔ حامد کی خاص بات یہ ہے کہ ان کو کبھی غصہ نہیں آتا ہے۔ میں جب بھی ان کو ڈانٹتا تھا تو وہ آگے سے مسکراتے تھے۔ وہ میرے لئے بھائیوں کی طرح عزیز اور میرے دوست بھی ہیں۔

گزشتہ اتوار کو ان کی شادی خانہ آبادی دھوم دام سے ہوئی۔ ہم نے ان کی شادی میں شرکت کی اور ان کو اس طویل جدوجہد اور کامیابی پر دل کھول کر مبارکباد دی۔ غربت، بے روزگاری، کسمپرسی، معاشی تنگ دستی کو اپنے عزم، حوصلہ، ایمانداری، کفایت شعاری، دیدہ دلیری، انسان دوستی، مثبت سوچ اور محنت سے شکست فاش دینے والے نوجوان حامد حسین کو ہمارا سرخ سلام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments