نظریہ ارتقا


محکمہ موسمیات نے خبردار کیا کہ دس سے پندرہ جنوری تک میدانی علاقوں میں بارشیں اور پہاڑی علاقوں میں شدید برفباری ہوگی۔ گاڑیاں نکال ہر زید بکر براستہ سرینگر ہائی وے مری، ایوبیہ، نتھیا گلی، مالم جبہ نکل پڑا۔

پچھلے سال برف میں پھنس کر ہلاک ہونے والوں کا سانحہ سب کے سامنے ہے۔ سارا دن سرگودھا فیصل آباد روڈ پر چلنے والے استاد بگے بلے بولانوں، کیری ڈبوں، جی ایل آئیوں، ہنڈا سٹیوں میں دوپائیوں کو لاد کر جب ناران اور کالام میں منہ پھاڑے کئی جانوں کو رسک پر لگائے کھڑے ہوتے ہیں تو جی چاہتا ہے کسی پروفیشنل جفت ساز سے سواروں سمیت ان کے سروں پر کفش کاری کی جاوے۔

اس ہجوم بدتمیز میں ہنڈا سوک والے یہ ثابت کرتے ہیں کہ پیسہ دنیا میں سب کچھ کر سکتا ہے نہیں کر سکتا تو جاہل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہو گا کہ باہر پندرہ پندرہ فٹ برف پڑ رہی ہے۔ درجہ حرارت منفی تیس تک گرا ہوا ہے۔ گرم بستر پر لحاف میں لپٹے گورے جوڑے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ دوسرے میں گردن مینا، قہقہے لگ رہے ہیں۔ سامنے بڑی ساری شیشے کی دیوار سے باہر کا منظر نہایت لطف پرور ہے۔ روئی کے گالے آسمان سے گر رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں بادلوں اور گھٹا کی گھن گرج ہوتی ہے تو مینا مصنوعی یا خدا جانے اصلی ڈر سے طوطے سے لپٹ لپٹ جاتی ہے۔

سنٹرل ہیٹنگ سسٹم لگے ہوئے ہیں۔ گیس فل پریشر پر آ رہی ہے۔ نہیں آ رہی تو تمام گیس پر چلنے والے آلات دوہرے کنکشن یعنی بجلی پر بھی ہیں۔ آٹو شفٹ ہو جاتے ہیں لیکن یوں کبھی نہیں ہوتا کہ لیٹرین میں گئے اور اٹھنے کے قابل ہی نہ رہے۔ بجلی کے نرخ انتہائی کم بلکہ یوں سمجھ لو جیسے بجلی گیس حکومت تقریباً مفت ہی فراہم کرتی ہے۔ انٹرنیٹ دو جی بی پر سیکنڈ کی رفتار پر چل رہا ہے۔ یعنی فردوس بر روئے زمیں است ”یہی است و یہی است و یہی است والا سین ہوا پڑا ہے۔

موسم کی پیش گوئی سنتے ہیں تو ایک ہفتہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ اشیائے خورونوش سمیت تمام اسباب ضروری لا کر سٹور کرلیتے ہیں۔ آٹھ دس دن جب تک یہ صورت حال رہتی ہے سوائے انتہائی ایمرجنسی کے گھر سے نہیں نکلتے۔ اگر نکل بھی جائیں تو ہر ایک کے پاس لگژری گاڑی موجود، ساتھ میں برفانی سڑک کے لئے جدید ترین آٹو میٹک آلات، جگہ جگہ فلنگ سٹیشنز، آٹو مکینک شاپس اور ویدر سٹیشنز بنے ہوئے جہاں مسافروں کو ہر قسم کی فائیو سٹار سہولت کم داموں میں میسر، راستے میں خرابی ہو جائے تو ایک کال پر منٹوں میں ہسپتال کی گاڑی اور منٹوں میں گاڑی سمیت آپ کو سروس سٹیشن تک لے جا کر گاڑی ٹھیک کر کے دینے کی سہولت موجود، یوں نہیں کہ مری کے جی پی او چوک میں باوا جی پنڈی کی مہران لگی سلپ ہونے اور نہ جانے کہاں سے ایک اجڈ گنوار ابلیس کی طرح نمودار ہوا اور چار دیگر شطونگڑوں ہمراہ زنجیر مار ایک دھکا لگایا اور رومال گلے میں ڈال کر نسوار کی پیک تھوکتے ہوئے غرایا پندرہ ہزار کڈو باوا جی۔ اگر آپ نے دوسری بات کی تو دست و گریباں ہونے کو تیار۔ پولیس ان کی اپنی لیکن پگڑی آپ کی۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

لکھتا جاؤں تو نوحہ ختم نہیں ہو گا۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں پھر چارلس ڈارون نظریہ ارتقا میں صحیح کہتا تھا کہ نہیں؟ ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments