سیلاب اور تعلیمی نقصان


سیلاب 2022 نے پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد بچوں کو شدید متاثر کیا ہے جن میں 35 لاکھ وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان میں ایک موضع مکول تونسہ شریف کی رہائشی 16 سالہ رابعہ بی بی بھی ہے۔ جس کا والد محنت مزدوری کر کے رابعہ اور اس کی 3 بہنوں کو پڑھا رہا تھا۔ رابعہ دسویں جماعت کی طالبہ ہے جس نے نویں جماعت کے بورڈ امتحانات میں اے گریڈ حاصل کیا تھا۔ تاہم 28 جولائی اور پھر 14 اگست 2022 کو آنے والی تباہ کن بارشوں نے پہلے ایک دم سے اس کے تعلیمی سلسلے کو منقطع کیا تو گھر بار بھی چھن گیا اور وہ اپنے خاندان سمیت کھلے آسمان تلے آ گئی۔ مزدور والد کی ملازمت ہاتھ سے گئی تو جان کے بھی لالے پڑ گئے۔ سیلاب ختم ہوا لیکن اس کی مشکلات کم نہیں ہوئیں اور کھلے آسمان تلے روایات کا شکار اس علاقے میں زندگی گزارنے کے لئے والد نے بے سرو سامانی کی کیفیت میں اس کی شادی کر کے تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے ہیں۔

دسمبر 2022 میں جاری ہونے والی، یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب نے ملک بھر میں 26 ہزار 600 سے زیادہ سکولوں کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا ہے اور کم از کم 7 ہزار 60 دیگر سکولوں و تعلیمی اداروں کو عارضی ریلیف کیمپوں اور بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں 35 لاکھ سے زائد بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب سے پہلے بھی پاکستان میں سکول نہیں جانے والے بچوں کی دنیا میں دوسری سب سے زیادہ آبادی تھی۔ جس میں سے 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 28 لاکھ روپے، یا اس عمر کے 44 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔

یونیسیف کے عالمی تعلیمی ڈائریکٹر، رابرٹ جینکنز نے پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنے بیان میں کہا، ”پہلے ہی کووڈ۔ 19 وبائی بیماری کی وجہ سے دنیا بھر کے ساتھ سیلاب متاثرہ سکولوں کی طویل بندش کو برداشت کرنا پڑا اور اس کے کے بعد ، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بچوں کو اپنے مستقبل کے لیے ایک اور خطرے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس میں تقریباً راتوں رات پاکستان کے لاکھوں بچے انتہائی تکلیف دہ حالات میں اپنے خاندان کے افراد، گھر اور اپنی تعلیم سے محروم ہو گئے۔ اب بھی بچوں کو اس غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کہ وہ کب اسکول واپس آ سکیں گے اور وبائی امراض کی وجہ سے دنیا کے سب سے طویل سکول بند ہونے کے بعد ، وہ اپنے مستقبل کے لیے ایک اور خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔

رابعہ کے والد محمد ظفر نے بتایا کہ چھت جانے سے جوان بچیاں کھلے آسمان تلے تھیں اور بچیوں کا سکول 2 ماہ تک پانی میں ڈوبا رہنے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جلد شروع ہونے کا امکان نہیں تھا۔ اس لئے اس کو یہی بہتر لگا کہ اس نے میٹرک کے بعد بھی اس کی شادی کرنی ہی تھی۔ اس لئے اب کر دی ہے۔ اس کے علاقہ میں دیگر کئی والدین نے بھی اسی طرح کیا ہے اس لئے یہ کوئی غلط اقدام نہیں ہے۔

پلاننگ کمیشن کی پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈ اسیسمنٹ (P ڈی این اے ) رپورٹ نے تعلیم کی بحالی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 19 ارب 70 کروڑ روپے کی مالیاتی ضرورت کی رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ رقم ملک کے لیے اقوام متحدہ کی کل 81 کروڑ 60 لاکھ روپے کی انسانی امداد کی اپیل سے کہیں زیادہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ سیلاب کے کووڈ۔ 19 کے وبائی مرض کے دوران تعلیم کو پہنچنے والے نقصان کو مزید بڑھانا ہے۔ کووڈ۔ 19 کے دوران مارچ 2020 سے مارچ 2022 کے درمیان پاکستان بھر کے سکول 64 ہفتوں کے لیے مکمل یا جزوی طور پر بند تھے اور مہینوں بعد کھلنے والے سکولوں کی تدریس دوبارہ 4 ماہ بعد ماہ اگست 2022 میں روک دی گئی تھی۔

اگرچہ یونیسیف نے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں 500 سے زیادہ عارضی تعلیمی مراکز قائم کیے ہیں، لیکن جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں ضلع ڈی جی خان، ضلع راجن پور، ضلع مظفرگڑھ، ضلع علی پور اور ضلع لیہ میں تعلیم کے آغاز کے لئے اقدامات نہیں کیے ہیں جہاں بھی تعلیمی نقصان کا پیمانہ بہت زیادہ ہے اور لاکھوں بچوں کی تعلیم پر اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

صوبہ پنجاب نے سال 1988 میں جمہوری دور بحال ہونے پر گزشتہ 44 سالوں میں جتنا بھی سکول انفراسٹرکچر سیلاب متاثرہ ڈی جی خان ڈویژن بنایا تھا، اس کا نصف سے زیادہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آ کر تباہ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم جنوبی پنجاب نے سیلاب سے تباہ ہونے والے سکولوں کی تفصیلات مرتب کی ہیں۔ اس ضمن میں ڈپٹی سیکرٹری جنوبی پنجاب سکول ایجوکیشن آغا ظہیر عباس شیرازی نے بتایا کہ سیلاب نے جنوبی پنجاب کے علاقوں جام پور، تونسہ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، فاضل پور، بھکر، لیہ اور کئی دیگر علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے 200 سے زیادہ پرائمری، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سکول تباہ ہو چکے ہیں جبکہ 70 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ نے ڈسٹرکٹس ایجوکیشن حکام سے تباہ شدہ اور جزوی متاثرہ سکولوں کی عمارتوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ کے ساتھ بحالی کے لئے بجٹ تجاویز بھی طلب کیں جو حکومت کو بھجوا دی گئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے ہونے والی وسیع تباہی کی وجہ سے سیلاب زدہ اضلاع میں تعلیمی سرگرمیاں تقریباً معطل ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں سکولوں میں کلاسز منسوخ کر دی گئیں کیونکہ عمارتوں کو نقصان پہنچا، علاقوں میں تباہی ہوئی۔ جس سے طلباء، اساتذہ اور والدین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ان کے نجی گھر بھی تباہ ہو گئے ہیں۔ تاہم جہاں ممکن ہے وہاں کھلے مقامات پر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا جو موجودہ سرد موسم میں پھر معطل ہو کر رہ گیا ہے۔

ادارہ تعلیم و آگاہی کے کوارڈینیٹر جمشید عالم نے بتایا ہے کہ مقامی لوگوں کو خوراک کی دستیابی، بیماریوں کے پھیلنے اور ان کے نقصانات کا اندازہ لگانے سے متعلق مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم میں خلل کے ساتھ ان کے اثاثوں، جائیدادوں، زرعی زمینوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس طرح ڈویژن میں سکولوں کے بنیادی ڈھانچے اور تعلیم کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے تقریباً نصف سکولوں میں تدریسی عمل متاثر ہوا ہے۔ تباہ شدہ سکولوں کی تعداد 54 فیصد ہے۔ یہ صوبے کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جہاں خواتین کی شرح خواندگی 20 فیصد تک انتہائی کم ہے۔

پنجاب ٹیچرز یونین کے سرپرست اعلیٰ رانا ولایت علی نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں کے لئے سال 2019 میں کی گئی پروفائلنگ کے مطابق ڈی جی خان ڈویژن میں سیلاب کے بعد 170 سکولوں کی چاردیواری مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور 100 سکولوں کی چار دیواری کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے 72 فیصد باؤنڈری والز کو نقصان پہنچا ہے۔ 200 سکولوں میں بیت الخلاء تباہ ہو چکے ہیں۔ ان سہولیات کا سکولوں میں داخلہ اور حاضری پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں کی سماجی ثقافتی ترتیب کے تحت، چاردیواری اور بیت الخلاء خاص طور پر لڑکیوں کے سکولوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

جمشید عالم کے مطابق تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور مرمت میں ممکنہ طور پر کئی سال لگیں گے۔ حکومت پنجاب نے گزشتہ 44 سالوں میں ڈویژن بھر میں جو بھی سکولوں کا انفراسٹرکچر بنایا تھا۔ اس میں سے آدھا سیلاب کی زد میں آ کر گر گیا ہے۔ اس ڈویژن میں 30 ہزار سے زائد طلباء کی تعلیم خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس لئے انسانی برادری اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری بنیادوں پر ان اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے وسائل کا رخ کریں۔

سماجی و قانونی رہنما عاصمہ خان کا کہنا ہے کہ عمارتوں کی عدم دستیابی کو غیر معینہ مدت کے لیے سکول کی تعلیم کو روکنا نہیں چاہیے۔ حکام اور سماجی طبقوں کو دوسرے احاطے کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ سکول فعال ہو سکیں۔ بچ جانے والی سکول کی عمارتوں کو دوپہر کے وقت تباہ شدہ سکولوں میں داخلہ لینے والے طلباء کو تعلیم دینے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح دیگر سرکاری دفاتر کو بھی شام کے وقت سکول کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح متاثرہ علاقوں کے مخیر افراد کو سرد موسم میں اپنے گاؤں کے سکولوں کو چلانے کے لئے اپنے گھر اور ڈیرے بھی عارضی طور پر عطیہ کرنے چاہئیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments