دیویکا رانی: بالی وڈ کے ’طویل ترین فلمی بوسے‘ سے جڑے افسانے


ایک حسین شہزادی نے جب جُھک کر اپنے محبوب کو بوسہ دے کر ایک نئی زندگی دینے کی کوشش کی تو سنیما کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔

یہ بوسہ 1933 کی فلم ’کرما‘ میں اصلی زندگی میں بھی ایک جوڑے کی حیثیت رکھنے والے دیویکا رانی اور ہمانشو رائے پر فلمایا گیا۔

ایک طویل عرصے تک اس بوسے کو بالی وڈ کا طویل ترین بوسہ قرار دیا گیا، کچھ نے اسے چار منٹ طویل کہا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک مفروضہ یہ بھی عام ہوا کہ بالی وڈ کے پردے پر اس نوعیت کا یہ پہلا بوسہ تھا۔

تاہم یہ دونوں ہی باتیں سچ نہیں ہیں۔

فلم کا یہ منظر سامنے آیا تو اس وقت پریس نے لکھا کہ یہ بوسہ چار منٹ طویل تھا۔ اس کے بعد سے ہی یہ منظر اور اداکاروں کا جوڑا انڈیا میں افسانوی حیثیت اختیار کر گیا۔

رائے اور رانی نے 1934 میں انڈیا کا پہلا پروفیشنل فلم سٹوڈیو بامبے ٹاکیز قائم کیا جس نے نئے رواج متعارف کروائے اور انڈین سنیما کی پہلی دہائی کے دوران راج کیا۔

2020 میں ایک کتاب لکھی گئی جس کو حال ہی میں انڈیا کے سنیما پر بہترین کتاب ہونے پر نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کتاب میں اس بوسے کی تاریخ درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

’دی لونگسٹ کِس‘ نامی کتاب کی مصنفہ کشور دیسائی کہتی ہیں کہ ’یہ فلم ایک ایسے وقت میں بنی تھی جب رائے اور رانی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے۔ اس لیے اگر جذبات سے بھرپور بوسہ سکرین پر دکھایا گیا تو یہ حیران کن نہیں تھا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا میں اس زمانے میں سکرین پر بوسے کا منظر دکھانا اس لیے غیر معمولی نہیں تھا کیوںکہ انڈیا پر برطانیہ کا راج تھا اور بہت سی فلمیں مغربی فلم بینوں کے لیے بنائی جاتی تھیں۔ ان کے مطابق 1920 اور 1930 کی دہائی میں بننے والی چند فلموں میں بوسے کے مناظر موجود تھے۔

کرما بھی ایک ایسی ہی فلم تھی۔

63 منٹ کی یہ فلم محبت کی کہانی پر مبنی تھی جس کے ہدایت کار برطانوی فلم ساز جے ایل فریئر ہنٹ نے دعوی کیا تھا کہ اس فلم میں اصلی شاہی محل اور مشرق کی شان و شوکت کے مناظر ہیں۔

یعنی اس فلم میں مشرق سے جڑی وہ تمام چیزیں تھیں جو مغرب کو اس کی جانب راغب کرتی تھیں جیسا کہ انڈین شاہی روایات، شیر کا شکار اور سپیرے۔

یہ بوسہ فلم کے آخر میں سامنے آتا ہے جب کوبرا سانپ کے کاٹنے سے بے ہوش ہو جانے والے شہزادے کو بچانے کے لیے شہزادی اپنا آخری حربہ استعمال کرتی ہے۔

کشور ڈیسائی کہتی ہیں کہ ’مفروضہ یہ ہے کہ یہ بوسہ چار منٹ طویل تھا لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ یہ بالی وڈ کا طویل ترین بوسہ تو ہرگز نہیں تھا۔ اگر آپ وقت کا حساب لگائیں تو یہ دو منٹ سے زیادہ کا نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس فلم سے جڑے افسانے بہت بعد میں بنے جن کی وجہ پریس تھی۔

واضح رہے کہ انڈیا میں پردے پر محبت کے اظہار کے ایسے طریقے حالیہ برسوں میں متنازع رہے ہیں۔

2007 میں جب ہالی وڈ اداکار رچرڈ گیئر نے بالی وڈ اداکارہ شلپا شیٹی کو ایک خیراتی تقریب کے دوران بوسہ دیا تو مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن میں ہالی وڈ اداکار پر انڈین ثقافت کی توہین کے الزام لگا کر ان کے پتلے جلائے گئے۔

چند سال بعد دلی میں ایک نئے شادہ شدہ جوڑے پر عوامی مقام پر بوسہ کرنے پر مقدمہ قائم کر دیا گیا تھا۔

شاید اسی لیے کارما فلم کو ایک افسانوی حیثیت حاصل ہوئی کیوں کہ یہ ایک ایسی فلم تھی جو بہت پہلے بنی اور اس میں بوسہ دکھایا گیا۔

اگرچہ کہ یہ فلم فلاپ ہو گئی تھی۔

کشور ڈیسائی کا کہنا ہے کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد مشہوری نہیں بلکہ دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ بمبے سے عالمی سطح کی فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمانشو رائے یورپ میں پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔ ’لیکن وہ ایک کاروباری ذہن رکھتے تھے اور بمبے میں سٹوڈیو شروع کرنے کا سوچ رہے تھے۔ ایسے میں کارما جیسی فلم سے وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ہالی وڈ کے مقابلے کی فلم بنا سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں زیادہ تر سرمایہ کار یا تو برطانوی تھے یا پھر مغربی ثقافت سے متاثر پارسی۔

اور اسی لیے رانی کی فلم میں موجودگی کام آئی۔ رانی نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے خاندان سے تھیں اور نو سال کی عمر سے ہی برطانیہ میں تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ وہ مغربی طور طریقوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

جب جیا بچن نے اس شرط پر فلم سائن کی کہ آئندہ امیتابھ ریکھا کے ساتھ کوئی فلم نہیں کریں گے

’دم مارو دم‘ کی شوٹنگ : جب زینت امان کو دیکھنے کے لیے پورا نیپال امڈ آیا

ارتھ: ’ناجائز‘ محبت پر بنائی گئی فلم جس میں حقیقت بھی شامل تھی

اپنی کتاب میں کشور کا کہنا ہے کہ کرما کی نمائش لندن کے ماربل آرک تھیٹر میں ہوئی جہاں برطانوی اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ یہ افواہیں بھی تھیں کہ بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ میری بھی فلم کی نمائش میں شریک ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ دیویکا رانی کے حسن اور لہجے نے ناقدین کو بہت متاثر کیا۔

ایک اخبار نے لکھا کہ ’ان سے زیادہ حسین عورت کو تلاش کرنا مشکل ہو گا‘ جبکہ ایک اور اخبار میں ان کی اداؤں کے قصیدے لکھے گئے۔

اس فلم نے دیویکا رانی کو انڈیا کی واحد بین الاقوامی شہرت یافتہ سٹار بنا دیا جن کا ہالی وڈ اور یورپی سینیما بھی معترف ہوا۔

تاہم وہ رائے کے ساتھ ممبئی واپس آ گئیں تاکہ انڈیا کا پہلا پروفیشنل سٹوڈیو بنایا جا سکے۔

دیویکا رانی نے تقریبا ایک درجن فلموں میں کام کیا اور اشوک کمار کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔

’انڈین سیمینا کی پہلی لیڈی‘ کہلائی جانے والی رانی خوبصورت بھی تھیں اور ہنر بھی رکھتی تھیں۔ لیکن رائے کے ساتھ ان کا رشتہ جلد ہی تنازعات کا شکار ہونے لگا۔

کشور ڈیسائی کا کہنا ہے کہ ’وہ بہت محنت کرتی تھی لیکن اس کو کریڈٹ نہیں دیا جاتا تھا۔‘ یہ تعلق اس وقت بھی خراب ہوا جب ان کو علم ہوا کہ ہمانشو رائے کی پہلے سے ایک شادی ہے اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔

اپنے دوسرے شوہر، روسی آرٹسٹ سویٹوسلاو ریورچ جن سے ان کی ملاقات اور شادی رائے کی موت کے بعد ہوئی، کے نام لکھے جانے والے خطوط میں دیویکا رانی نے بتایا کہ کیسے ان سے برا سلوک کیا جانے لگا تھا اور خراب طبعیت میں بھی ان کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا۔

ایک خط میں انھوں نے لکھا کہ رائے نے ایک بار ان کو مارا جس سے ان کا خون بہنا شروع ہو گیا۔

1936 میں تعلقات کی یہ خرابی راز نہیں رہی تھی جب رانی ایک ساتھی اداکار کے ساتھ چلی گئیں۔

تاہم کشور ڈیسائی کا کہنا ہے کہ ’ہمانشو رائے نے ان کے واپس آنے پر ان کا استقبال کیا کیوں کہ ان کا متبادل کوئی نہیں تھا۔‘

دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو بمبے ٹالکیز بھی اثر انداز ہوئی کیوں کہ اس کا جرمن عملہ گرفتار کر لیا گیا۔

1940 میں رائے کی موت ہوئی تو دیویکا رانی نے بطور پروڈیوسر سٹوڈیو چلانے کی کوشش کی۔ اس دوران انھوں نے مدھو بالا اور دلیپ کمار جیسے عظیم اداکاروں کو کام کرنے کا موقع دیا اور کئی سپر ہٹ فلمیں بنائیں۔

1945 میں انھوں نے اپنے حصے کے حصص فروخت کر دیے اور روسی آرٹسٹ سے شادی کے بعد پہلے ہماچل پردیش اور پھر بنگلور منتقل ہو گئیں جہاں وہ 1994 میں اپنی موت تک رہائش پذیر رہیں۔

کشور ڈیسائی کا ماننا ہے کہ دوسری شادی کے بعد ان کو وہ زندگی مل گئی جس کی وہ خواہش رکھتی تھیں۔

لیکن بمبے ٹالکیز ان کے جانے کے بعد زیادہ دیر نہیں رہا اور چند سال کے بعد 1954 میں بند ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments