کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے ایم کیو ایم کا بائیکاٹ: شہر کے میئر کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں؟


انتخابات
صوبہ سندھ میں آج منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اسلام آباد میں واقع مرکزی سیکریٹریٹ میں مرکزی کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے جو انتخابات کے نتائج آنے تک بلا تعطل کام جاری رکھے گا۔

ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ہونے والی پولنگ کے دوران کسی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی ہو گی۔

پاکستان کے سب سے بڑے اور صنعتی شہر کراچی میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے والی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی حدود میں رہنے والی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح رہے ہیں۔

سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی تھی اور قانون کے مطابق بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے کے چار ماہ کے اندر انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاہم مردم شماری، حلقہ بندیوں اور قدرتی آفات کا جواز بنا کر ان بلدیاتی انتخابات کو متعدد مرتبہ ملتوی کیا جا چکا ہے۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ گذشتہ سال 24 جولائی کو ہونا تھا تاہم صوبے میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اسے تین بار ملتوی کیا گیا اور بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 15 جنوری کو انتخابات کا اعلان کیا جس کے تحت سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات ہوں گے۔

انتخابات سے صرف دو روز قبل حکومت سندھ نے کراچی اور دادو میں انتخابات ملتوی کر دیے جس کے ساتھ کراچی کی حلقہ بندیوں کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا گیا۔

ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد پریس کانفرنس میں تنظیم کی قیادت نے جمعے کی شب پریس کانفرنس میں ان حلقہ بندیوں کو مسترد کیا تھا اور الیکشن سے ایک رات قبل بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی انتخابات ملتوی کرنے درخواست مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ انتخابات 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔

جس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت نے اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کیا اور الیکشن کمیشن کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی مگر اگر وہ اتفاق نہیں کرتے تو پھر الیکشن 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔

ایم کیو ایم کا اعتراض

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے 15 جنوری کو انتخابات کے انعقاد کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس میں حالیہ مردم شماری اور اس کی بنیاد پر حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھائے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ حلقہ بندیاں دوبارہ کی جائیں۔

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کراچی کے ضلع غربی میں یونین کونسلز اور ٹاؤنز کی تشکیل غلط ہے اور ’بدنیتی‘ پر مبنی ہے۔

اس کے علاوہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اورنگی ٹاؤن، مومن آباد، بلدیہ، نارتھ ناظم آباد اور شاہ فیصل کالونی میں بھی حلقہ بندیاں ’غیر منصفانہ‘ ہیں۔

ان کا مؤقف ہے کہ اگر حلقہ اور حد بندیاں درست نہ ہوئیں تو ان کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات ’غیرمنصفانہ‘ ہوں گے۔ 

انتخابات

عدالت کی جانب سے ایم کیو ایم کا یہ اعتراض مسترد کیے جانے کے بعد انھوں نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کیا تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس کو بھی مسترد کر دیا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نامکمل ہونے باعث ان کے فیصلے قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔

ایم کیو ایم کے مطابق حلقہ بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے کیونکہ جب نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا اس وقت کمیشن میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نمائندے نہیں تھے تاہم سندھ ہائی کورٹ نے اس درخواست پر فیصلہ دیا کہ حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔

عدالتی محاذ کے علاوہ ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت سے بھی انتخابات ملتوی کروانے کی درخواست کی اور اس سلسلے میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقاتیں کی گئیں لیکن اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے جس کے بعد سڑکوں پر احتجاج کا اعلان کیا گیا اور وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی گئی۔

ایم کیو ایم کے دھڑوں کے انضمام کے بعد خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار نے سخت اور تلخ لہجہ اپنایا اور کہا کہ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور شاہراہ فیصل پر دھرنا دیں گے جس کے بعد سندھ کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں سندھ حکومت نے ان کا مطالبہ تسلیم کیا اور حلقہ بندیوں کا فیصلہ واپس لے لیا۔

انتخابات ملتوی ہونے کی کشمکش کے باوجود جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافط نعیم الرحمان کا ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پیغام چلتا رہا جس میں وہ لوگوں کو باہر نکل کر ووٹ دینے کی ترغیب دیتے رہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم حلقہ بندیوں اور مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات منسوخ کروانا چاہتی ہے حالانکہ یہ وہی ایم کیو ایم تھی جس نے مشترکہ طور پر مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تھا، جس میں  کراچی کی آبادی کو گھٹا کر نصف کر دیا گیا تھا۔‘

گذشتہ شب ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کراچی اور حیدر آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رویے پر ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے الیکشن میں جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ کہ ہم نے حلقہ بندیوں کو تسلیم کر لیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، مہاجر قوم اور سندھ کے شہری علاقوں کو دیوار سے لگانے اور دیوار میں چنوانے کے لیے کوئی قومی اتفاق رائے موجود ہے، لہٰذا ہم انصاف نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کے رویے پر اور بے حسی پر احتجاجاً انتخابات سے دستبردار ہو رہے ہیں۔‘

کراچی

کراچی کے میئر کے اختیارات

جنرل پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی انتخابات میں شہری حکومتیں قائم کی گئیں جس میں صحت، تعلیم، پولیس اور مقامی ریوینیو محکمے کے علاوہ واٹر بورڈ سمیت دیگر متعدد محکمہ میئر کے ماتحت کیے گئے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد یہ اختیارات واپس لے لیے گئے۔

کراچی کے میئر کے پاس ایم اے جناح روڈ اور شارعِ فیصل سمیت شہر کی 106 سے زائد سڑکوں کی دیکھ بھال، تعمیر و مرمت کی ذمہ داری ہے، اس طرح ان سڑکوں پر پل، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی تعمیر کا ذمہ بھی ان کا ہے۔

عباسی شہید ہسپتال یعنی شہر کے تیسرے بڑے ہسپتال سمیت شہر میں دانتوں و امراض قلب سمیت سات کے قریب ہسپتال بھی ان کی ماتحت ہیں۔

کراچی چڑیا گھر کا شمار پاکستان کے بڑے چڑیا گھروں میں ہوتا ہے۔ اس سمیت سفاری پارک، اکیوریم اور ساحل سمندر پر سو سے زائد ہٹس کے نگران بھی میئر کراچی ہوتے ہیں۔

کہیں کوئی آتشزدگی کا واقعہ پیش آ جائے تو اس کے لیے فائر بریگیڈ کا محکمہ موجود ہے۔ یہ محکمہ بھی میئر کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔

بلدیہ کراچی کی حدود میں آپ بائیک کھڑی کریں یا کار یہ چارجڈ پارکنگ فیس بھی میئر لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر غیر قانونی تجاوزات لگ جائیں تو اُنھیں ہٹانے کی ذمہ داری بھی ان کے پاس ہے۔

آپ کے گھر کے سیوریج کے پانی کی نکاسی اور بارش کے پانی کی نکاسی دونوں کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے یعنی برساتی نالوں کی دیکھ بھال و مرمت ان کا ذمہ ہے۔

تو پھر میئر کے پاس کون سے اختیارات نہیں ہیں؟ اگر آپ کے گھر کے باہر کچرا پڑا ہے تو یہ ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ کی ہے جو حکومتِ سندھ کے ماتحت ہے، اسی طرح اگر آپ کے گھر نلکے میں پانی نہیں آتا تو یہ محکمہ کراچی واٹر بورڈ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہے۔

ہاؤسنگ، پولیس اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کا بھی میئر سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ کچرا اٹھانے اور پینے کے پانی کی فراہمی کا اختیار میئر کے حوالے کرنے کی قانونی تجویز پیش کی جا چکی ہے جس کو ابھی متعلقہ فورمز سے منظور ہونا ہے۔ 

ایم کیو ایم ہو تحریک انصاف یا جماعت اسلامی، ان میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ تمام کراچی کے میئر کو خود مختار اور شہری حکومت کو بااختیار بنانے کے حامی ہیں۔

کراچی کا معرکہ

کراچی میں سنہ 1979 سے لے کر سنہ 2016 تک چھ منتخب میئر رہے ہیں جن میں تین کا تعلق جماعت اسلامی اور تین کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے رہا ہے۔

جنرل ضیاالحق کی حکومت میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دو بار میئر بنے، جب ایم کیو ایم نے شہر میں جڑیں مضبوط کیں تو جنوری 1988 میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار پہلے میئر منتخب ہوئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد کیے گئے تو ایم کیو ایم نے ان کا بائیکاٹ کیا اور جماعت اسلامی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس میں نعمت اللہ خان میئر منتخب کیے گئے۔

اگلے دونوں انتخابات میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال اور اس کے بعد وسیم اختر میئر منتخب ہوئے۔

متحدہ

یہ بھی پڑھیے

’داخلوں سے محروم‘ طلبا کراچی کے کنگ میکر کیسے بنے؟

دھڑوں میں بٹی ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟

ایم کیو ایم کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ: ’حکومت میں جانے نہ جانے کے فیصلے اُوپر سے ہوتے‘

کراچی میں اس وقت ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک لبیک پاکستان، مسلم لیگ ن سمیت متعدد چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سمیت 10 ہزار 629 امیدوار مد مقابل ہیں جبکہ اصل معرکہ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان اور لندن میں تقسیم ہونے کے بعد یہ دوسرا بلدیاتی الیکشن ہے جس کا ایم کیو ایم لندن نے بائیکاٹ کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حدود میں 84 لاکھ 76 ہزار سے زائد ووٹر ہیں جو 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز، 456 یونین کمیٹیوں اور 984 وارڈز کے لیے ووٹ دیں گے۔

گذشتہ انتخابات میں ایک کراچی میونسپل کارپوریشن اور پانچ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن تھی لیکن اب ان کی تعداد سات کر دی گئی ہے۔ ہر ڈی ایم سی میں دو سے لے کر پانچ ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز ہیں جن کی کل تعداد 25 ہے۔

کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوں یا ضمنی، ماضی میں پرتشدد واقعات پیش آچکے ہیں اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پولنگ سٹیشنز پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کر چکی ہیں تاہم وفاقی وزارت داخلہ کے انکار کے بعد اب پولیس کے ساتھ رینجرز کی ریپڈ ریسپانس فورس تعینات کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments