ایم کیو ایم کا بائیکاٹ۔ الیکشن سے فرار یا سیاسی حکمت عملی؟


سوا دو سال کی تاخیر کے بعد آخر کار کراچی میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات مکمل ہوئے۔ کراچی کی 246 یونین کونسل میں سے پیپلز پارٹی نے 93 یوسیز میں کامیابی حاصل کی، جبکہ جماعت اسلامی 86 یوسیز میں کامیابی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو 40 یوسیز پر کامیابی ملی، جبکہ مسلم لیگ نون نے 7، جمعیت علمائے اسلام نے 3 اور تحریک لبیک نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ ایک یوسی پر اور تین آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

کراچی کے الیکشن کا سب سے بڑا اپ سیٹ ضلع جنوبی میں ہوا ہے، پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر اور رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کراچی سے 14 قومی اسمبلی اور 40 صوبائی اسمبلی رکھنے والی جماعت کا صرف 40 یوسیز میں جیتنا اس کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف تنظیمی طور پر بہت کمزور ہے۔ عمران خان کی کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں عدم دلچسپی، کمزور اور غیر فعال تنظیمی ڈھانچے کی وجہ سے پی ٹی آئی ایک ڈسٹرک میں اپنا چیئرمین نہ لاسکی۔

بلدیاتی انتخابات سے قبل سروے یہ بتا رہے تھے کہ جماعت اسلامی حیران کن نتائج دے گی۔ کامیابی کا سہرا یقیناً حافظ نعیم الرحمن کو جاتا ہے جنہوں نے کراچی کے مسائل پر پھر پور آواز اٹھائی۔ انہوں منظم انداز میں الیکشن مہم چلائی، سوشل میڈیا کا استعمال کیا، حافظ نعیم کراچی کی آواز بن کر ابھرے، انہوں نے مذہبی سے زیادہ لبرل انداز سیاست کو اپناتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ جماعت اسلامی کی کامیابی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دو سال پہلے ہی جماعت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میئر کراچی حافظ نعیم الرحمن ہوں گے۔

ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے جماعت اسلامی نے ضلع وسطی، شرقی اور جنوبی سے 72 نشستوں پر کامیابی حاصل کیں۔ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کو ہوا ہے اگر ایم کیو ایم الیکشن میں حصہ لیتی تو یہاں سے نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی سے 93 یوسیز میں کامیابی حاصل کی، یہ نتائج عام آدمی کے لئے یقیناً ً حیران کن ہیں۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات سے بہت پہلے نئی حلقہ بندیوں اور نئے ڈسٹرکٹ بنا کر اپنی کامیابی کو یقینی بنالیا تھا۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد امید یہی کی جا رہی تھی پی پی پی کراچی کی 70 سے 80 نشستوں پر کامیاب ہو جائے گی۔

ایم کیو ایم نے اس بنیاد پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے حلقہ بندیوں کے نام پر کراچی سے 70 یوسیز کی سیٹیں کم کردی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان طویل مذاکرات اور پھر آصف علی زرداری کی مداخلت کے بعد سندھ حکومت اس بات پر مان گئی تھی کہ 70 کی بجائے 53 یونین کونسل کی نشستوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ پیپلز پارٹی نے ایک خط الیکشن کمیشن کو بھی لکھا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہم نشستوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی وقت دیا جائے جیسا کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم پر امید تھی حکومت سندھ کے لیٹر کے بعد الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کو دو سے تین ماہ کے لئے بڑھا دے گا، اس دوران ایم کیو ایم اپنا ہوم ورک بھی مکمل کر لے گی۔ تاکہ تینوں دھڑے مل کر الیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی تمام تر کوششوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے 15 جنوری کو انتخابات کرنے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔

وسیم اختر یکم ستمبر 2020 تک مئیر کراچی رہے۔ اصولی طور پر نئے انتخابات چار ماہ بعد ہو جانے چاہیے تھے چونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتے تھے لہٰذا بلدیاتی انتخابات کی کوئی تاریخ ہی نہیں دی گئی۔ سندھ میں غیرمتوقع بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے چار بار انتخابات کو ملتوی کیا گیا، ایسا سندھ حکومت کی درخواست اور ایم کیو ایم کی خواہش پر کیا گیا۔ بالآخر 22 نومبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے لئے 15 جنوری 2023 کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس بار الیکشن کمیشن اس پر ڈٹ گیا کہ مقررہ تاریخ پر ہی انتخابات ہوں گے۔

ایم کیو ایم جب پی ٹی آئی کی حکومت چھوڑ کر پی ڈی ایم کا حصہ بنی تو اس وقت بھی اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترامیم کے مطالبے کو تحریری معاہدے کا حصہ بنایا تھا جس پر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بھی دستخط کیے تھے۔ مگر گزشتہ 8 ماہ کے دوران پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے مطالبے پر حلقہ بندیوں کو تبدیل کیا اور نہ ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی۔ جب بلدیاتی انتخابات میں ایک دن باقی رہ گیا اس وقت پیپلز پارٹی نے بحالت مجبوری حلقہ بندیوں میں تبدیل کا خط الیکشن کمیشن کو لکھا۔ ایم کیو ایم کے پاس اس وقت نادر موقع تھا جب ایم کیو ایم کے ووٹوں کی بدولت شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان بن رہے تھے اور آصف علی زرداری، شہباز شریف کے لئے راہ ہموار کر رہے تھے۔ اگر اس وقت ایم کیو ایم حلقہ بندیوں کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتی تو اس کی بات مان لی جاتی۔

بلدیاتی انتخابات جب سر پر پہنچ گئے تو ایم کیو ایم نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو پیغام دیا کہ اگر بلدیاتی انتخابات انہی حلقہ بندیوں پر کرائے گئے تو وہ پی ڈی ایم سے الگ ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم کی دھمکی کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کراچی تشریف لائے انہوں نے آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی مگر اس ملاقات کے نتیجہ میں حلقہ بندیوں کی تبدیلی پر تو کوئی پیش رفت نہ ہو سکی لیکن ایم کیو ایم اپنے اس مطالبہ سے پیچھے ہٹ گئی کہ وہ وفاق سے علیحدہ ہوگی۔

آخری کوشش کے طور پر سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی مشاورت سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترمیم کا مسودہ بھی تیار کر لیا گیا تھا اور یہ فیصلہ بھی ہو گیا تھا کہ کیوں کہ سندھ اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو رہا لہٰذا گورنر ایک آرڈیننس جاری کر دیں تو الیکشن کا انعقاد روکا جاسکتا ہے، لیکن ”نامعلوم۔“ وجوہات کی بنا پر یہ آرڈیننس جاری نہیں ہوسکا۔

الیکشن سے ایک روز پہلے، رات گئے ایم کیو ایم کا وفد آصف علی زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، سے ملاقاتیں کرتا رہا اور یہ کوشش کی جاتی رہی کہ کس طرح دو سے تین ماہ کے لئے الیکشن ملتوی ہو سکیں مگر الیکشن کمیشن اس بات پر بضد تھا کہ الیکشن ہر صورت 15 جنوری کو ہی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی بھی ایم کیو ایم کے مطالبہ پر انتخابات کا مزید التوا نہیں چاہتی تھی۔ اس صورت حال میں ایم کیو ایم ایک بند گلی میں داخل ہو چکی تھی۔

وہ نا تو وفاقی حکومت سے باہر آ سکتی تھی اور نہ ہی الیکشن میں حصہ لے کر اپنی سیاسی کمزوریوں کو ظاہر کرنا چاہتی تھی اس صورت حال میں ایم کیو ایم کے پاس بائیکاٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، ایم کیو ایم کو بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ الیکشن لڑنے کی صورت میں اسے واضح اکثریت نہیں مل سکے گی۔ سو ایم کیو ایم نے نا چاہتے ہوئے بھی بائیکاٹ کا کڑوا گھونٹ پی لیا۔ 13 اور 14 جنوری 2023 کی درمیانی رات کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تمام کوششوں کے باوجود الیکشن کمیشن نے ہماری بات نہیں سنی، ووٹر سے گزارش ہے گھروں میں بیٹھیں اور بائیکاٹ کریں۔

ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات جہاں دیگر مسائل کا سامنا تھا وہاں یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ انضمام سے پہلے ایم کیو ایم، پی ایس پی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے امیدواروں نے الگ الگ کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے۔ مختصر وقت میں یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل تھا کہ تینوں دھڑوں میں کہاں کہاں سے کس کس امیدواروں کو بٹھایا جائے اور پھر یہ مسئلہ بھی تھا کہ اپنے ووٹر کو یہ کیسے سمجھائے کہ اس نے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وسیم اختر نے بحیثیت میئر کراچی جو ”کارکردگی“ دکھائی تھی وہ بھی ایم کیو ایم کے لئے پریشانی کا باعث تھی۔

ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال، سابق مئیر کراچی وسیم اختر پر کرپشن کے انتہائی سنگین الزامات لگا چکے ہیں۔ لہٰذا ایم کیو ایم کس بیانیے کو لے کر عوام میں جاتی۔ گزشتہ چھ برسوں میں ایم کیو ایم میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی، گروپ بندی سے جو نقصان پہنچا اور پھر بڑی تعداد میں کارکنان مایوس ہو کر گھروں پر بیٹھ گئے ہیں ان تمام معاملات کو ٹھیک کیے بغیر الیکشن میں اترنا سیاسی خود کشی کے مترادف تھا۔

ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا آغاز تو 2016 ء سے شروع ہو گیا تھا جب جنوری میں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے الطاف حسین سے بغاوت کرتے ہوئے ان سے علیحدگی کا اعلان کیا اور پھر پاک سر زمین پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر احتجاجی دھرنے میں بانی و قائد کی ایک تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم نے ان سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ اگست 2016 کے بعد ایم کیو ایم ”پاکستان“ اور ”لندن“ دو حصوں میں تقسیم ہوگی۔

پاکستان کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کے حصے میں آئی مگر کچھ عرصے بعد ہی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور عامر خان سے اختلافات کے نتیجہ میں پہلے ڈاکٹر فاروق ستار کی بنیادی رکنیت معطل کی گئی اور پھر انہیں پارٹی سے ہی باہر کر دیا۔ ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کراچی سے قومی اسمبلی کی چار نشستیں جیت سکی۔ جب کہ پی ایس پی کو بھی انتخابات میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر فاروق ستار آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کا اندازہ کرچکے تھے۔ مسلسل شکست، ناکامی، گرتی ہوئی ساکھ، مہاجر ووٹ بینک کی تقسیم، آئندہ انتخابات میں ممکناً ناکامی کے خوف نے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو دوبارہ ایک ہونے پر مجبور کیا۔ یہ کارنامہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی ”جادوگری“ کی بدولت ممکن ہوسکا۔

ایم کیو ایم، پی ایس پی اور فاروق ستار کا انضمام ایک ایسے وقت میں ہوا جب بلدیاتی انتخابات سر پر تھے، تینوں دھڑوں کا انضمام جس عجلت میں ہوا، الگ یہ رہا تھا کہ یہ صف بندی بلدیاتی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کے لئے کی جا رہی ہے۔ عوامی حلقے جہاں ایم کیو ایم کے تینوں دھڑوں کے یک جاں ہونے پر حیران ہیں، وہیں وہ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کو سیاسی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ ماضی کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بائیکاٹ کے فیصلے سے ہمیشہ دوسرے فریق کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ایم کیو ایم کی طاقت کا منبع ہمیشہ بلدیاتی ادارے رہے ہیں ایم کیو ایم نے بلدیاتی اداروں کی بنیاد پر ہی کراچی اور حیدرآباد میں اپنے پیر جمائے ہیں اور سیاسی طاقت حاصل کی۔

ایم کیو ایم نے 87 میں بلدیاتی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی اور ایک سال بعد جب 88 کے قومی اور صوبائی کے الیکشن ہوئے تو بلدیاتی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح 1990 کے انتخابات سے قبل ایم کیو ایم نے ہفتہ صفائی منایا اور کونسلروں نے گلی محلوں میں بھر پور انداز میں انتخابی مہم چلائی اور یوں 1990 کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی۔ اس کے برعکس جب 2001 میں ایم کیو ایم نے مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو ایم کیو ایم کو اس کا نقصان ہوا۔

ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ ”ناظم کراچی“ منتخب ہوئے اور جب اگلے سال قومی و صوبائی انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی نے کراچی سے چار اور حیدرآباد سے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ حیدر آباد میں جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے مضبوط امیدوار آفتاب شیخ کو شکست دی۔ چار سال بعد بلدیاتی انتخابات ہوئے تو مصطفی کمال ناظم کراچی بنے تو انہوں نے کراچی کا نقشہ ہی بدل کر کے رکھ دیا تھا۔ کراچی کا شمار دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے شہروں میں ہونے لگا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر ایم کیو ایم نے 2008 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو شکست دی بلکہ مجموعی طور پر پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے جو غلطی کی ہے اس کا فائدہ آنے والے وقت میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو پہنچے گا۔ حیدر آباد کی میئر شپ جس طرح پیپلز پارٹی نے ”پیار“ سے حاصل کی ہے اس پر صرف حیران ہی ہوا جاسکتا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حیدر آباد کی دونوں سیٹوں پر کامیابی حاصل تھی پھر ان چار سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے حق میں دستبردار ہوگی۔

اگر میئر کراچی اور میئر حیدرآباد شہریوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گے تو پھر ایم کیو ایم کے لیے مزید مسائل جنم لے سکتے ہیں ان شہروں میں دوبارہ قدم جمانے، قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور یہ دعویٰ کرنے کے لئے ”ایم کیو ایم کراچی کی واحد نمائندہ جماعت ہے“ بہت محنت اور جستجو کرنا ہوگی۔ اس سے زیادہ اہم بات آپس کا اتحاد اور خود کو متحد رکھنے کی ضرورت ہے۔

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments