ایل بی او ڈی اور پران ڈھورو کی تباہی اور بے بس عوام


حالیہ سیلاب میں جہاں پوری سندھ ڈوبی ہے لاڑ کے علاقے بھی سیلاب کی لپیٹ میں آ گئے اس تباہ کاریوں میں ایل بی او ڈی ( لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین) سیم نالے کا اہم کردار رہا کیونکہ سیلابی پانی کو اپنا راستہ نہیں مل سکا اس کی بڑی وجہ اس نالے میں مختلف زمینوں کا سیلابی پانی چھوڑ کر مختلف اضلاع کے شہر جھڈو، میرپور خاص، نؤں کوٹ، روشن آباد اور بدین کے مختلف گاؤں اس سیم نالے کی وجہ سے ڈوب جاتے ہیں، اس بار ان حالیہ بارشوں میں بھی ایل بی او ڈی کا پانی زیرو پوائنٹ تک نا پہنچنے کی وجہ سے جھڈو اور روشن آباد، کنری، ٹالھی، نبی سر روڈ سمیت مختلف علاقے پانی میں ڈوبے رہے اس نالے کا پانی سڑکوں کو بھی بہا کر لے گیا جس کی وجہ سے تھرپارکر اور جھڈو کا زمینی راستہ بھی منقطع ہو چکا تھا، اس سیم نالے کی تعمیر کوئی تیس سال قبل چار سو کلومیٹر لمبی نہر نما کینال گھوٹکی سے شروع ہوا تھا جس کا پانی سمندر تک چھوڑنا تھا اس منصوبے کی مالی معاونت عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے فراہم کی جبکہ واپڈا کے ادارے نے اس منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچایا۔

ایل بی او ڈی منصوبہ نوابشاہ، سانگھڑ، میرپور خاص میں زرعی فضلے سے پیدا ہونے والے سیم کو ختم کرنے کے لئے بنایا تھا تاکہ ٹیوب ویل کی مدد سے سیم کا پانی ایل بی او ڈی کے راستے سمندر پہنچایا جا سکے۔ میرپور خاص کی تحصیل جھڈو میں ایل بی او ڈی (لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین) کی وجہ سے سیلابی پانی آیا، ٹنڈو باگو کا گاؤں حیات خاصخیلی بھی سیلاب کی وجہ سے ڈوبا رہا اور مگر پانی کو نیکال کا کوئی راستہ نا ہونے کی وجہ سے علاقہ مکینوں شدید مشکلات کا سامنا رہا اور کئی دنوں تک ان کا شہروں سے ہی رابطہ منقطع رہا، مقامی باشندے بتاتے ہیں کہ یہاں سے پران ڈھورو نامی نہر کا قدرتی راستہ تھا مگر اس کو سیمنٹ کی دیوار بنا کر پانی کو روکا گیا جس کی وجہ سے یہ شہر ڈوب جاتے ہیں۔

زیرو پوائنٹ پر کٹ نا لگانے کی وجہ سے بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی وڈیروں اور با اثر افراد کی زمینیں بچانے کے لئے زیرو پوائنٹ پر کٹ نہیں لگایا گیا جس کی وجہ سے کئی گاؤں سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ گئے۔ حیات خاصخیلی سمیت 6 یونین کونسلز، ملکانی، جرکس، پیربودلو، پنگریو خیرپور کمبوہ، اولیاٰء خان شاہ سمیت سینکڑوں دیہات، گھر اور زمینیں پانی میں ڈوبے رہے۔ ان علاقوں میں سیلابی پانی نے تباہی مچائی تھی اور تمام تر گھر پانی کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے لوگ کچے راستوں پر اپنی مدد آپ کے تحت ٹینٹ لگا کر ڈوبے ہوئے گھر دیکھ رہے تھے مگر ان کو حکومتی سطح پر کوئی امداد نہیں ملی۔

ایل بی او ڈی ( لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین) اور پران ڈھورو کی تباہ کاریوں کے حوالے سے اعلی ایوانوں تک آواز پہنچانے والے سماجی ایکٹوسٹ محمد رمضان لنڈ کا کہنا ہے کہ ایل بی او ڈی جب سے بنی ہے اس کی بھل صفائی نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایل بی او ڈی کا گندا پانی شہروں کو ڈبو رہا ہے جبکہ اربوں روپے سے بننے والا یہ منصوبہ بدین ضلع سمیت مختلف اضلاع کے لئے اچھا ہونے کے بجائے عذاب بن گیا ہے اسی طرح سے پران ڈھورو کی بھی جو پانی کی گزرگاہیں تھیں ان کو بھی مقامی وڈیروں نے بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھی بدین ضلع کے مختلف شہر جھڈو، روشن آباد اور دیگر شہر ڈوبتے ہیں۔

محمد رمضان لنڈ کا کہنا ہے پران ڈھورو کی پانی کی گزرگاہیں کھولی جائیں اور ایل بی او ڈی کی بھل صفائی کی جائے تاکہ آئندہ آنے والی بارشوں اور سیلاب سے علاقے متاثر ہونے سے بچ سکیں۔ محمد رمضان لنڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ سال سننے میں آ رہا ہے کہ گزشتہ سال سے بھی زیادہ بارشیں ہوں گی اور پران ڈھورو کی گزرگاہیں نا کھولی گئیں اور ایل بی او ڈی کی بھل صفائی نہیں کی گئی تو اس سال بھی بدین، میرپور خاص اضلاع میں بڑی تباہی ہوگی۔

ایل بی او ڈی منصوبے کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے سماجی رہنماء محمد رمضان لنڈ نے کہا کہ 5 فروری کو ایل بی او ڈی اور پران ڈھورو کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں سندھ کے مختلف اضلاع سے لوگ پہنچیں گے اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے تاکہ حکمران اس منصوبے پر کام کر کے آئندہ آنے والی بارشوں اور سیلاب سے شہروں کو بچائیں۔ ایل بی او ڈی سیم نالے کے منصوبے کے خلاف مختلف ادوار میں بدین، جھڈو، میرپورخاص، کڈھن سمیت مختلف شہروں کے باشندوں نے تحریکیں بھی چلائیں گئیں ہیں۔

ایل بی او ڈی کے حوالے سے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واضح طور پر میڈٰیا کو بتایا تھا کہ ایل بی او ڈی سیم نالے پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے حالیہ بارشوں کے بعد سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی زمین کے پیسے سندھ حکومت کو دے گی وہ رقم ایل بی او ڈی پر خرچ کی جائے گی تاکہ آئندہ آنے والی قدرتی آفات سے اس سیم نالے سے تباہی نا ہو۔ ایل بی او ڈی اور پران ڈھورو پر انتہائی باریک بینی سے کام کرنے والے سینیئر صحافی اسحاق منگریو کا کہنا ہے کہ ایل بی او ڈی کا اصل نام ڈی پی او ڈی ( ڈھورو پران آؤٹ فال ڈرین) ہے جو دریاء کا نام تھا، اس کا پانی نیچرلی طور شکور جھیل جو رن آف کچ میں واقع ہے اس سے ہوتا ہوا انڈیا کی حدود میں داخل ہونا تھا مگر پاکستان اور انڈیا کے مابین تنازع کی وجہ سے انڈیا نے پانی آنے سے پاکستان کو روک دیا تھا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا۔

اسحاق منگریو کا مزید کہنا ہے کہ ڈی پی او ڈی کا نیچرل فلو انڈیا کی حدود میں جانا تھا مگر ایسا ہو نہیں سکا جس کی وجہ سے اب جب بھی شدید بارشیں ہوتی ہیں یا کوئی سیلاب آتا ہے تو یہ شہر ڈوب جاتے ہیں اسحاق منگریو کا کہنا ہے ایل بی او ڈی کا پانی ( کڈھن پٹیجی آؤٹ فال ڈرین ) جو اس وقت پران ڈھورو کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ایک نیچرل پران ہے جہاں سے ایل بی او ڈی کو ٹرن دیا گیا تھا جس کی وجہ سے بھی پانی کا فلو بڑھ جانے سے شہر ڈوبتے ہیں کیونکہ پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور ٹرن کی وجہ سے وہ مکمل طور پر کراس نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے پٹیجی جھیل سے سمندری کریک تک سمندر الٹا بہنے لگا۔

اسحاق منگریو کا کہنا ہے کہ سمندر نیچرلی طور پر ایک ماہ میں دو دفعہ تیز لہروں کے ساتھ بہتا ہے خصوصا جب چاند کی رات ہو اس میں تو اور مزید موج مستی میں آتا ہے، جبکہ روزانہ صبح سویرے اور عصر کے اوقات میں بھی سمندر میں تیز لہریں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بھی سمندر الٹا بہتا ہے۔ اسحاق منگریو نے بتایا کہ ایل بی او ڈی کی تباہ کاریوں سے بچنے کا واحد حل ایک ہی ہے کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کرے اور ایل بی او او ڈی کا پانی نیچرلی طور پر انڈیا میں داخل کروائے تبھی یہ شہر، دیہات بچ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments