محسن افغاناں باچا خان


“باچاخان کہتے ہیں کہ میں لیڈر نہیں ہوں لیکن جب میں ہندوستان کے لیڈروں کی قطار میں باچاخان کو دیکھتی ہوں تو مجھے دوسروں سے گز بھر اونچے دکھائی دیتے ہیں”۔ مسز سروجنی نائیڈو اکتوبر 1934، ممبئی میں کانگرس کے جلسے سے خطاب۔

تقریباً 3 سال پہلے میں نے سب سے پہلے باچاخان کی کتاب ”میری زندگی اور جدوجہد“ کے بارے میں کسی سے سنا۔ جب سٹڈی کی اس کتاب کی وجہ سے میرا شوق تاریخی کتابوں کے ساتھ بڑھ گیا۔ 3 سال بعد آج پھر میں نے الماری میں دیکھا تو ذہن میں خیال آیا کہ کل تو باچا خان کا وفات کا دن تھا کیوں نا دوستوں کے ساتھ اس کے بارے میں کچھ شیر نہ کروں۔ کہتے ہیں کہ علم ایک ایسا سرمایہ ہے جو خرچ ہونے پر زیادہ ہوتا ہے

پیدائش : باچاخان کہتے ہیں کہ اس وقت تاریخ لکھنے کا رواج نہیں تھا لیکن ماں کے بقول اندازہً میرا تاریخ پیدائش 1890 ہے لیکن تاریخ میں 6 فروری 1890 لکھا ہے۔

غداری کے فتوے اور 39 سال قید اور جلاوطنی : اگر یہ کہا جائے کہ تقسیم برصغیر سے قبل اور پاکستان بننے کے بعد اس خطے میں جن رہنماؤں پر سب سے زیادہ غداری کے فتوے لگے، جلاوطن ہوئے اور لمبے لمبے عرصے تک جیلیں کاٹیں، ان میں باچا خان کا نام سرفہرست ہے تو شاید ایسا بے جا نہ ہو۔

تاریخ چارسدہ سمیت کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سہیل خان، باچا خان کی طویل قید کے حوالے سے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ باچا خان کو پہلی بار اپریل 1919 میں انگریز نے ’رولٹ ایکٹ‘ کے خلاف احتجاج پر گرفتار کیا، دسمبر 1919 میں دوسری مرتبہ انھیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی دوسری شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تیسری بار انھیں دسمبر 1921 میں اتمانزئی کے آزاد سکول میں بچوں کے لیے فٹبال گراؤنڈ بناتے ہوئے گرفتار کیا گیا، چوتھی بار انھیں نحقی کے مقام پر اپریل 1930 میں جلسے کے لیے پشاور جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا، پانچویں بار انھیں دسمبر 1931 میں گرفتار کیا گیا۔ ساتویں مرتبہ وہ اس وقت گرفتار ہوئے جب کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ کا اعلان کیا۔

ڈاکٹر سہیل کی تحقیق کے مطابق ان سات گرفتاریوں کا دورانیہ چودہ سال، چھ ماہ اور نو دن بنتا ہے جو پاکستان بننے سے پہلے کا ہے اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی دہرایا گیا اور وہ 12 مختلف مواقعوں پر گرفتار ہوئے اور کل ملا کر گرفتاریوں کا یہ دورانیہ 39 برس بنتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ پہلی بار 15 جون 1948 کو گرفتار ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ انھوں نے حریت کا سبق باچا خان سے سیکھا تھا۔

اقوال باچا خان : پشتون ایک بہادر قوم ہے فتح اپنے نام کر سکتے ہیں لیکن ان میں دو کمزوریاں ہیں ایک یہ بے اتفاقی پہ متفق ہیں اور دوسرا بک جاتے ہیں پیسے کے سامنے نہیں ٹک سکتے۔ اگر یہ ان دو کمزوریوں کو دور کریں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں فتح نہیں کر سکتی۔

میری قوم کی تاریخ فتوحات اور شجاعت کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن ان میں ایک کمی ہے وہ یہ کہ انتھک کوششوں اور بہت ساری قربانیوں کے بعد آگر کچھ ہاتھ لگا ہے تو وہ آپس کی دشمنیوں اور ذاتی حسد کی نذر ہو چکا ہے۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا کہ جب تک کوئی قوم اجتماعی طور پر بیدار اور منظم نہ ہو جائے تو ان میں سیاسی شعور اجاگر نہیں ہوتا اور جب تک سیاسی شعور پختہ نہ ہو تو ڈیموکریسی پروان نہیں چڑھتی۔ پشتون بڑی بڑی سلطنتیں بنوا سکتا تھا لیکن انہیں قائم نہیں رکھ پاتا اس کی وجہ پشتونوں میں اجتماعیت، قومیت، اور اتفاق کا فقدان ہے۔

پشتونوں میں یہ ایک بہت بڑی خامی ہے کہ جہاں کہیں جاتا ہے یا کہیں دیگر جگہ ان کی شادی ہو جاتی ہے تو اپنی مادری زبان چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے بیچ ہزاروں ہندو آباد ہیں لیکن انہوں نے اپنی مادری زبان کو چھوڑا نہیں حالانکہ وہ پنجابی اور پشتو بھی پڑھ سکتے ہیں۔

وفات: 20 جنوری 1988 بروز بدھ صبح 6 : 30 بجے۔ 21 جنوری جمعرات بوقت 3 : 00 بجے جناح پارک میں نماز جنازہ مولانا صاحب حق نے ادا کی۔

22 جنوری بروز جمعہ وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں شیشم باغ میں تدفین۔
آنا للٰہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments