قائد انقلابِ مصر جنرل نجیب کا جرم، ان کی نجابت


چھبیس جولائی انیس سو باون کی شام مصر کے معزول شاہ فاروق ایڈمرل کی وردی پہنے شاہی بجرے ماہ روسہ کے عرشے پر کھڑے تھے۔ جلا وطنی کا سفر شروع ہونے میں چند ہی لمحے تھے۔ طے شدہ معاہدہ کے مطابق فضائیہ بھی فلائی پاسٹ کرتے سلامی دے چکی تھی۔ مصر میں اس کی حکومت کا تختہ الٹنے والے آزاد افسران کے گروپ کا قائد اور مسلح افواج کا سربراہ جنرل نجیب اب ان سے صدر انقلابی کونسل اور ملک کے سربراہ کی حیثیت سے الوداعی مصافحہ کر رہا تھا۔

تب شاہ کے کانوں میں جنرل نجیب کا بہت دھیمے سے بولا یہ فقرہ گونجا، ”سر، میں اس سب کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ یہ سب دوسروں کا کیا دھرا ہے۔ مجھے صرف مہرے کے طور استعمال کیا گیا اور ہونا پڑ گیا ہے“ معزول اور جلاوطن بادشاہ نے یہ فقرہ دہراتے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ”مجھے اس فقرہ کی سچائی پر پورا یقین تھا۔ اور اب میں خود جنرل نجیب کی جان اور مستقبل کے متعلق فکر مند ہو گیا تھا۔“

مصری فوج کے پینتیس سال سے کم عمر کے آزاد افسران کا گروپ جمال عبدالناصر اور ساتھیوں نے تشکیل دیا۔ یہ تمام انیس سو اڑتالیس میں فلسطین کے خلاف جنگ میں بے جگری سے لڑے تھے۔ مگر بہت بڑی شکست مقدر بنی تھی۔ وہ ملک کی بدانتظامی اور شکست کی وجہ شاہ کی پالیسیوں کو قرار دیتے تھے۔ انقلاب لانے اور بادشاہی ختم کرنے منصوبہ تیار کیا۔ تئیس جولائی باون کو شروع بغاوت پچیس کی شام تک ملک میں کنٹرول حاصل کر چکی تھی۔ چھبیس کو شاہ کو معزول کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔

فوج کی حمایت لینے کے لئے جنرل نجیب کو قیادت (برضا یا بلا رضا ) سونپی (یا تھوپی ) گئی۔ وہ خود بھی جنگ فلسطین میں حصہ لیتے شدید زخمی ہوئے تھے۔ اور وہ اب صدر انقلابی کونسل کی حیثیت سے ملکی کمان سنبھال چکے تھے۔ انقلابیوں نے شاہ فاروق اور اس کے اہل خانہ کو قتل کر کے یا بمباری سے ہلاک کر کے خودکشی کا رنگ دینا تھا۔ اور اس کی بروقت بھنک پڑتے ہی شاہ معہ اہل خانہ اسکندریہ کے مضافاتی محل مونتازہ پیلیس سے شدید کرفیو میں گزرتے شہر کے وسط کے محل راس التین میں محصور ہو چکے تھے۔جہاں کچھ حمایت کی امید تھی۔

شاہ اپنے وزیر اعظم سے رابطہ کر کے امریکی سفیر جیفری کیمفری سے جانیں بچانے میں مدد کی درخواست پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور تھوڑی دیر بعد امریکی سفارت خانہ کی جھنڈا لگی کار کو معہ نمائندہ محل میں داخلے کی اجازت مل چکی تھی۔ یوں فوری حملے کا خطرہ ٹل چکا تھا۔ چھبیس جولائی کی صبح امریکی، برطانوی سفیروں اور انقلابی کونسل کے درمیان مذاکرات شاہ کو معزولی اور جلاوطنی کی راہ پر راضی کرتے اس کے چھ ماہ کے بچے شہزادہ فواد ثانی کو بادشاہت سونپے جانے کے معاہدہ پر دستخط کروا چکے تھے اور شاہ کی یہ درخواست بھی منظور ہو چکی تھی کے اسے شاہی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔

اور اب انقلابی کونسل کے سربراہ جنرل نجیب خود الوداع کہنے آئے تھے۔ یوں اگرچہ ملک خون خرابے سے بچ گیا مگر اصل انقلابی آزاد افسران گروپ کے ماسٹر مائنڈ جمال عبدالناصر اور ساتھیوں کے غصہ اور انتقام کی آگ نہ بجھ سکی تھی۔ شاہ اور اس کے اہل خانہ کی لاشیں نظر آنے کی بجائے، ان کو شاہی احترام اور اعزاز کے ساتھ رخصت کرنا پڑ گیا تھا۔ چھ ماہ کے شہزادہ کو، علامتی سہی، شاہی تخت پہ برداشت کرنا پڑ گیا تھا۔ موقع کی نزاکت کے پیش نظر، بالکل نہ چاہتے ہوئے بھی، بحیثیت صدر انقلابی کونسل جنرل نجیب کے کیے گئے اقدامات کو صاد کرنا پڑا تھا۔

باوجودیکہ یہ اقدام محض عوامی مخالفت اور برطانوی مداخلت کا خطرہ کم کرنے کے لئے تھا، جنرل نجیب اور جمال عبدالناصر کے درمیان دراڑ پڑ چکی تھی۔ نجیب خود کو ایک ذمہ دار اور اصل سربراہ مملکت سمجھتے جب کہ آزاد افسران کا گروپ انہیں صرف ایک مہرہ، نام کے سربراہ اور گروپ کے فیصلوں کا پابند سمجھتے۔ یہ چپقلش اور اندرونی اقتدار کی جنگ سیاسی دنیا میں ڈھکی چھپی نہ رہی تھی اور جنرل نجیب کے مستقبل کا اندازہ کچھ کچھ ہونے لگا تھا۔ سات ستمبر کو حکومت کی تشکیل نو ہوئی۔ نجیب سپریم کمانڈر اور وزیر اعظم بنے اور ناصر وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم کے عہدہ پر براجمان ہوئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب نومولود پاکستان فلسطین اور شمالی افریقہ کی سامراج کے چنگل کی آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش تھا۔ اور مسلم دنیا میں اپنی کامیاب خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی وجہ سے انتہائی توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے اپنی کتاب ”تحدیث نعمت“ میں اسی زمانہ میں اقوام متحدہ سے واپسی کے وقت جنرل نجیب کی دعوت پر چند دن مصر میں گزارنے کا ذکر کیا ہے۔ جنرل نجیب کی نجابت کی تعریف کرتے وہ پاکستان کے لئے عرب دنیا میں عزت و احترام کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

جنرل نجیب نے سپریم کمانڈر اور سربراہ مملکت ہوتے بھی خود پاکستانی وزیر خارجہ کا ہوائی جہاز کے اندر آ کے استقبال کیا تھا اور مشائعت کرتے ساتھ لائے تھے۔ سر ظفراللہ کا ان ہی ملاقاتوں میں گپ شپ مارتے یہ بتا دینا کہ برطانوی سفیر کی رائے میں جنرل نجیب زیادہ دیر سربراہ نہیں گے کیوں کہ وہ سخت گیر نہیں۔ اور جنرل کا جواب کہ گردنیں کاٹے بغیر کام ہو جائے تو گردنیں کاٹنے کی کیا ضرورت، نہ صرف ان کی نرم دلی صلح کل اور مدبر ہونے کے غماز ہیں بلکہ ناصر گروپ سے مزاج اور رائے کے اختلاف کے علاوہ اندرونی کشمکش کی موجودگی کا ثبوت بھی۔

اٹھارہ جون انیس سو تریپن کو بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ملک کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔ جنرل نجیب صدر بنے۔ ناصر وزیر اعظم۔ سال کے اواخر تک ہی دونوں  کی اقتدار اور اختیارات، فوج اور ملک پہ کنٹرول کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جنرل نجیب کا ملک کی مقبول سیاسی اور عوامی حمایت یافتہ جماعتوں نحاس پاشا کی وفد پارٹی اور ممنوعہ قرار دی جا چکی اخوان المسلمین سے روابط بڑھا ملک کے استحکام کے خواہاں تھے اور ناصر کی اپنی ترجیحات تھیں۔

کوئی سال بھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی اور اپنی برتری قائم کرنے کی جدوجہد میں جمال عبدالناصر جیت چکے تھے۔ نومبر چوؔن میں نجیب سے استعفا لیا جا چکا تھا اور وہ نحاس پاشا کی بیوی کے محل میں قید کر دیے گئے۔ اور جمال عبدالناصر صدر کا عہدہ سنبھال مختار کل ہو چکے تھے۔ نجیب کی کرسی وہی لوگ الٹا چکے جو اسے اس پر بٹھانے والے تھے۔ کہ سیاست میں بدلہ احسان نہیں اکثر انجام ہی پر منتج ہوتا دیکھا۔

اس وقت کے اخبارات اور بین الاقوامی سیاست میں جنرل نجیب کی جان بچ جانے پر حیرت کا اظہار بھی ہوا۔ مگر شاید یہ قدرت کا انعام تھا۔ جنرل نجیب نے شاہی خاندان کی جانیں بچانے ہر ممکن مدد کی تھی۔ اس کا صلہ تھا۔

صدر ناصر کی وفات تک جنرل گھر پر نظر بند رہے۔ انوار السادات کی حکومت نے انیس سو اکہتر میں انہیں رہا کر دیا اور اٹھائیس اگست انیس سو چوراسی میں خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments