موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟


آج کل ملک کے معاشی مسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ بحث ہو رہی ہے۔ اس بحث میں زیادہ تر حقائق کے بجائے پروپیگنڈا اور ملک کے بجائے سیاسی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس بحث میں ہر چیز پر بات کی جا رہی ہے سوائے حقائق کے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر موجودہ حکمرانوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ موجودہ حکومت کو آئے ہوئے کتنے مہینے ہوئے ہیں اور کن حالات میں ان کو حکومت ملی ہے۔

سال کے وسط میں سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا اور ملک میں ایک بدترین انسانی المیے نے جنم لیا۔ ہمارے فصلیں سیلاب کی تباہ کاریوں کی نظر ہو گئی۔ جس کی وجہ سے اجناس تک باہر سے منگوانا پڑا۔ عالمی کساد بازاری، روس یو کرین جنگ، بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات خراب ہونا، معاشی بحران میں اضافے کا سبب بنے، حکومت ملنے کے بعد کیا ملک میں سیاسی استحکام آیا؟ سیاسی استحکام اور معیشت کا اپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

اس کے بعد عمران خان نے جس طرح سیاسی بیانات دیے کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے جس کی وجہ سے کاروباری افراد اور عام آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے عمران خان کے بیانات کی وجہ سے ملک کے اندر اور باہر شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے پیسہ انویسٹ کرنے کے بجائے سونا اور پراپرٹی میں لگانا شروع کر دیا۔ بینکنگ چینل سے ترسیلات آنا کم ہو گئیں۔ جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھی۔ عمران خان پاکستان کی معیشت میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزیوں سے لے کر دوست ممالک کو ناراض کرنے کے عمل کے ذریعے بارودی سرنگیں بچھا چکا تھا لیکن حکومت سے جانے کے بعد بھی سیاسی عدم استحکام، دھرنا احتجاج اور بیانات سے پوری کوشش کی کہ ملکی معیشت میں بگاڑ پیدا ہو۔

ہمیشہ خود انحصار اور قرضوں کے شدید مخالف عمران خان کا دور پاکستان کے لئے سب سے خوفناک رہا۔ پی ٹی آئی حکومت نے 45 ماہ میں 49.23 ارب ڈالر کا قرض لیا، جو تاریخ میں کسی بھی حکومت کا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ وزرات خزانہ اور سٹیٹ بینک کو ایسے افراد کے حوالے کیا جو ہمارے نہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نمائندے تھے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے بنیادی معاشی مسائل کیا ہیں؟ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے ہر سال قرضوں کی قسطیں بڑھتی جا رہی ہیں ’واپسی کے لئے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔

کیا حکومت پاکستان اب تک قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے؟ اور یہ پالیسی کب تک چل سکتی ہے؟ آئندہ 3 برسوں میں یعنی مالی سال 2023 ء تا 2025 ء کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے جبکہ ہمارے زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر 7 سے 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس صورتحال سے کیسے نکلنا ہے اس کے لیے کوئی پالیسی کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ ملک پر لدے ہوئے بیرونی قرضے سے نجات حاصل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے؟

اس پر سوچنا اور اس پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ معاملات ہاتھوں سے نکل جائے۔ ملکی کی آمدنی بڑھانا سب سے ضروری ہے جو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھایا جائے۔ ہمارے مسائل کی وجہ ریونیو کا نہ بڑھنا ہے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا پڑے گا۔ ہمارے معاشی مسائل کا حل ”اخراجات کے مطابق وسائل“ کی پالیسی میں پوشیدہ ہے۔ جتنی جلدی ہم خود انحصاری کی راہ پر چلنا طے کریں گے، اتنی جلدی ہی ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔

غیر ترقیاتی اخراجات سول اور عسکری دونوں شعبوں میں کم کرنا ہوں گے۔ ملک کے معاشی بحران میں دفاعی بجٹ کو بھی کم کرنا پڑے گا۔ ہمسایوں کے ساتھ بہتر سفارتی اور کاروباری تعلقات بڑھانے ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت دونوں ممالک کی معاشی بہبود کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جاپان اور چین کو ہی لے لیں۔ تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ آپس میں تجارت بھی کرتے ہیں اور سرمایہ کاری بھی۔

سنگین معاشی بحران میں پھنسنے پاکستان کو بھارت سے سستی درآمدات کی وجہ سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے جبکہ بھارتی منڈیوں کو برآمدات سے کچھ انتہائی ضروری آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے حکومت اپوزیشن اور اداروں کو ایک پیج پر آنا پڑے گا۔ ملک کا معاشی بحران ایک جماعت حل نہیں کر سکتی۔ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے ملک میں معیشت کی بہتری کے لیے چارٹر آف اکانومی کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments