بھکاریوں کی طرح لائنوں میں لگے عوام


جب دوسرے ممالک کو تیزی سے ترقی کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو فوراً اپنے وطن کا خیال آتا ہے۔ ہمارے پاکستان میں کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہو رہا ہر شخص پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔ جس طرف دیکھیں لوگ بھکاریوں کی طرح لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آٹے کے حصول کے لیے لمبی لائنیں ہیں ایسی ایسی دردناک داستانیں ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک لوگ آٹے کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنی دن بھر کی مزدوری بھی ضائع کرتے ہیں اور پھر آٹا بھی نہیں ملتا یہاں تک کہ ایک شخص اپنی جان کی بازی بھی ہار جاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ دردناک خواتین کا لائن میں کھڑے ہونا ہے۔ ایک طوفان بدتمیزی ہے خواتین کا احترام پامال ہو رہا ہے مگر آٹا ہے کہ پھر بھی ملتا نہیں ہے۔ سوچتا ہوں ہمارا ملک کس طرف جا رہا ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ جب ایک زرعی ملک کے اندر آٹا بھی میسر نہ ہو پھر اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کر رہا ہے۔

ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ کیا ہمارے مسائل ایسے ہی بڑھتے جائیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا چکے ہیں۔ یہاں پر عوام کا اعتبار اس نظام سے اٹھ چکا ہے۔ عوام کی اکثریت اس نظام سے باغی نظر آتی ہے۔ جس طرف نظر دوڑائی دوڑائیں عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ ایزی پیسہ والے کے پاس عوام کی لمبی لائنیں ہیں۔ سب لوگ حکومتی مدد کے طلبگار ہیں اور ہماری حکومت آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے۔

اتنا بڑا ملک زرخیز سرزمین سے بھرپور چار موسم والا یہ ملک خیبر سے کراچی تک اتنی وسیع و عریض زرخیز سرزمین مگر ویران پڑی ہے۔ ایسا شاندار ملک مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے لئے اس ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اگر اس ملک میں کسی کے لیے کوئی کشش موجود ہے تو صرف اور صرف ایسے مال دار شخص کے لئے جس کے پاس پہلے سے کروڑوں روپے موجود ہیں اور وہ مزید عوام کی کھال اتارنے کے لئے مختلف ہتھکنڈوں سے مال بنا رہا ہے۔ اس ملک کے اندر امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔

سیاست دان اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور اپنے اثاثوں میں اضافہ کیے جا رہے ہیں۔ عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ عوام کے لیے حکومت کے پاس کوئی وقت نہیں حکومت کو بس اپنی سیٹ کی فکر ہے۔ سب لوگ اپنا مال بنانے کے چکر میں ہیں۔ عوام اس قدر مسائل کا شکار ہو چکی ہے اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا آخر عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا یہ موجودہ پارلیمانی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔

عوام کے پاس ماسوائے انقلاب کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے لیکن انقلاب بہت بڑی قربانی مانگتا ہے شاید ابھی ہماری عوام اس انقلاب کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عوامی انقلاب کی منزل قریب تر آ رہی ہے۔ کیونکہ یاد رکھئے جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے۔ اور قوت برداشت جواب دے جاتی ہے تو پھر صرف انقلاب کا راستہ رہ جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں عام آدمی کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا گیا۔ پارلیمنٹ میں وہیں پہنچے گا جو کروڑوں روپے لگا کر الیکشن لڑ سکتا ہے جبکہ عوام کی ترجمانی کرنے والا ایک عام شہری پارلیمنٹ کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا اس لیے موجودہ پارلیمانی نظام کو میں مکمل طور پر ناکام نظام قرار دیتا ہوں۔

نظام وہ ہونا چاہیے جس میں ایک عام شہری اس نظام کا حصہ بن سکے لیکن موجودہ نظام میں صرف اور صرف امیروں کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے غریب عوام کے لیے صرف اور صرف ذلت و رسوائی رکھی گئی ہے۔ غریب عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ زندگی کو عام انسان کے لیے بوجھ بنا دیا گیا ہے ایسا نظام کب تک چلے گا۔ عوام کا موجودہ نظام سے دل بھر چکا ہے۔ آخر میں دعا گو ہوں پاکستان کی بہتری کے لیے جو بھی فیصلہ ہو وہ پاکستان کی بہتری کے لیے پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے کے لئے ہو اس ملک پاکستان میں غریب عوام کو باعزت رہنے کا حق دیا جائے ان کے حقوق ان کو باعزت طریقے سے فراہم کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments