میڈیا اور اندرونی کہانی


آج جو موضوع بحث کے لیے حاضر ہے وہ سیاسی، اخلاقی اور سماجی قدروں کے حوالے سے پیش ہے موضوع کو پڑھا جائے تو ایسا معلوم پرتا ہے کہ یہ مکمل طور پر سیاسی ہی ہو گا کیوں کہ قوم کی اکثریت روزانہ سیاسی اندرونی کہانیاں چینلز پر دیکھتی ہے اور جو ہمارے جیسے چینلز کی آواز بند کر کے کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی نظر بھی اندرونی کہانی کے ٹکرز پر ٹھہر جاتی ہے اور یہ ایک ایسی اندرونی کہانی ہوتی ہے جو سب چینلز پر ایک ہی وقت میں چلتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام رپورٹر کوئی ایک فقرہ بھی تبدیل نہیں کرتے اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی طرز کی اندرونی کہانی اپنے اداروں کو بھیج دیتے ہیں اور یہاں پر بھی کسی تبدیلی کے بغیر اس اندرونی کہانی کو نشر کر دیا جاتا ہے، ہم بھی اس میدان میں مختلف اداروں میں رپورٹر کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں اس لیے اندرونی کہانیوں سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں لیکن اتنا ضرور یقین ہے کہ ہم بطور رپورٹر ایسی اندرونی کہانیاں اخبار کے رجسٹر میں رکھ کر نیوز روم کو بھیج دیتے تو لازمی تھا کہ ہمیں کسی انتظار کے بغیر اگلے روز نوکری سے سبکدوش کا مراسلہ تھما دیا جاتا اور صحافتی اداروں میں بھی مشہور ہوجاتا کہ فلاں صحافی (ٹھمکیری) یعنی ٹیبل اسٹوری فائل کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ایسا داغ لگ جاتا جس کو ہر گز نہیں کہا جاتا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔

خیر جو اہم بات اپنے پیارے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں وہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ جو روزانہ آپ اندرونی کہانیاں سنتے ہیں جو سیاست دانوں کے اجلاس کے موقع پر منظر عام پر آتی ہیں وہ نوے فیصد اندرونی نہیں بیرونی کہانیاں ہوتی ہیں قصہ کچھ یوں ہے کہ جب سیاست دانوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں تو ان کے محل نما گھروں کے باہر چینلز کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اس اجلاس کے درمیان میں اندر سے ایک خاص بندے کو خاص قسم کے ٹکر نما خبر دی جاتی ہے وہ یہ خبر اپنے کچھ دیگر اداروں کے صحافیوں کو دیتا ہے اور پھر اچانک یہ خبر تمام ٹی وی چینلز کی زینت بن جاتی ہے اس پر نمائندوں کے لائیو اور آڈیو بیپر ہوتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی رام کہانی بیان کرتے ہیں اور خبر کے لیے عوام گھنٹوں ٹی وی کے سامنے صرف اس بیٹھے رہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ان کے حقوق کے لیے تاش کے پتوں پر سیاست کرنے والے کوئی اہم فیصلہ کریں لیکن عوام یہ نہیں جانتے کہ ان تاش کے کھلاڑیوں میں بادشاہ اور ملکہ کو ہی اہمیت دی جاتی ہے اور عوام خالی یکہ لے کر اٹے کی لائنوں میں لگ جاتے ہیں ان کو ہر بار یکہ پکڑا کر سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

اس اندرونی کہانی کی مزید وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ یہ اندرونی کہانی سیاست دان اجلاس کے موقع پر اندر سے وقت اور حالات اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر بیرونی دروازے سے باہر پھینک دیا جاتا اور صحافی کسی بارات میں پیسے لوٹنے والوں کی طرح اس پو ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر اس اندرونی کہانی پر ہر ادارہ اپنی پالیسی کے مطابق پروگرام نشر کرتا ہے یہ سب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اگلی اندرونی کہانی منظر عام پر نہیں آ جاتی۔

حقیقت میں سیاست دان بھی صحافت کے کچھ رموز سے آشنا ہو چکے ہیں اور ان سیاست دانوں کے الفاظ وہ آشنا ہیں جو ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ ان کے مفادات کے لیے دوسروں کے آشنا بن جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کی طرف سے جاری کی جانے والی اندرونی کہانی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے صحافی ( ٹمکیری) چھوڑتے تھے اب سیاست دان ایک ٹیبل اسٹوری تیار کر کے صحافیوں کے حوالے کر دیتے ہیں سب چینلز اسی نیوز کی طرف لگ جاتے ہیں اور اندرونی کہانی تیار کرنے والے اس کے بعد اپنی خاموش واردات ڈال کر کچھ ہی دیر بعد نئی کہانی منظر عام پر لے آتے ہیں اس لے عوام ایسی کہانیوں پر زیادہ پر جوش اور مایوس نہ ہوا کریں وہ اسی پر خوش رہیں کہ تاش کا یکہ ان کی جیب میں ہے اور ایک نہ ایک دن ان سیاست دانوں کو اپنا کھیل مکمل کرنے کے لیے اس تاش کے یکے کی ضرورت پڑے گی جب وہ اپنے یکے کا استعمال کریں ورنہ تو اقتدار پر بیٹھے بادشاہ اور ملکہ کب بچارے عوام کی بات سنتے ہیں۔

اب کچھ اصلی اندرونی کہانی کا ذکر بھی کر لیتے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ہمارا پیارا ملک اپنے ہی کرم فرماؤں کی بدولت معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے سیاسی طور پر کمزور ہو چکے ہمارے قومی نظریات کو ہمارے مفادات نے دفن کر دیا ہے اور خواہشات کی بھر مار نے ہماری اخلاقی اقدار کو اتنا پست کر دیا ہے کہ اخلاقیات کا سبق کسی اور جنم کی کہانی لگتا ہے ہم صرف معاشی، سیاسی اور نظریاتی طور پر ہی کھوکھلے نہیں ہوئے بلکہ ہماری اخلاقی قدروں کو ہماری بے معنی اناؤں، جھوٹی شان و شوکت، تکبر غرور فریب نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش بھی کریں تو لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں ہمیں سہارا دینے والوں نے بھی بیساکھیاں واپس لے لی ہیں ابھی ہم زمین پر گرے ہیں اللہ ایسا وقت نہ لائے کہ گہری کھائی میں گر جائیں پاکستان کو ان حالات پر پہنچانے والے ایک بار پھر سے نئے میک اپ کے ساتھ میدان کے باہر کھڑے ہیں قوم اپنی انکھیں بھوک مفلسی کے باوجود کھلی رکھے قوم ہی اپنا معیار زندگی انقلابی انداز میں بلند کرے جس میں اس کی اخلاقی اقدار محفوظ ہو سکیں اور یہ ایسا ناممکن کام بھی نہیں قوم ملک کی ترقی کا راستہ خود تلاش کرے اور گلستان کو ویران کرنے والوں کا بھی خود محاسبہ کرے کیونکہ جب فیصلہ سازوں کے گواہ ان کے ایک اشارے پر ہی کھڑے ہوں اور بیٹھ جایں تو پھر ایسے حالات میں قوم کے اندر سے ہی آواز بلند ہو گئی تو یہ ہی اصل والی اندرونی کہانی ہو گی جو پاکستان کے بد خواہوں کو بہا کر لے جائے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments