کم عمری کی شادیاں اور قانونی سقم کے مسائل


قانون انسانی سماج کا بنیادی جز ہے کیونکہ انسانی سماج کی بقا اور اس کی تعمیر و ترقی قانون ہی سے مشروط ہے۔ قانون راتوں رات چھاپے جانی والی کتاب نہیں بلکہ صدیوں کی انسانی فکر کا عکاس ہے۔ ہر معاشرہ یا ملک اپنے نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے قوانین وضع کرتا ہے۔ انسانی سماج کا بغیر قانون کے تصور جدید و قدیم دور تہذیب میں ناممکن نظر آتا ہے۔ کسی بھی تہذیب کا قانون اپنے ماخوذ کا نگہبان ہوتا ہے۔ جیسا کہ مغربی قانون قانون سازی، عدالتی نظائر، عرف اور فقہی رائے سے اخذ کردہ ہے جنہیں عمومی طور پر قانون کے ذرائع کا نام دیا جاتا ہے۔

بعینہ تصور اسلامی فکر قانون میں پایا جاتا ہے اور یہاں بھی قانون کو اس کے ماخوذ یعنی ذرائع کی بنا پر اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی قانون کے گیارہ ذرائع وضع کیے گئے ہیں جن میں قرآن، سنت، اجماع، قیاس، استحسان، مصلحت مرسلہ، سد الذرائع، استصحاب، عرف، قول الصحابی اور شرع ما قبلنا ہیں۔ لیکن ان ذرائع میں قرآن و سنت کو بنیادی ماخذ قانون قرار دیا گیا ہے جبکہ بقیہ ذرائع کو قانون کے شعبہ میں ثانوی مقام دیا گیا ہے ۔

پاکستان کا موجودہ آئین اپنے افتتاحیہ اور اپنی شق 2 اے میں اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہو گا، جبکہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی تشکیل نہیں دیا جائے گا۔ نیز پاکستان کی عدالت عظمیٰ اپنے متعدد فیصلوں میں اس امر کا اعادہ کر چکی ہے کہ اگر ریاستی قانون اور شرعی قانون میں تضاد پایا گیا تو شرعی قانون کو فوقیت حاصل ہوگی، جبکہ اس مقصد کی تیز تر حصولی کے لئے آئین کے ذریعے ملک میں وفاقی شرعی عدالت کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کے فیصلوں کو ماسوائے عدالت عظمیٰ کے پاکستان کی سبھی عدالتوں بشمول عدالت عالیہ پر ترجیح و فوقیت حاصل ہے۔

تمہید مذکورہ بالا کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ممتاز بی بی کیس کے فیصلے پر تبصرہ مقصود ہے جس کے ذریعے عدالت عالیہ کے معزز جج بابر ستار نے اٹھارہ برس سے کم عمر شادی کو سرے سے ہی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ معزز جج صاحب نے چھپن صفحات پر مشتمل فیصلے میں دلائل و نظائر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی کی مرضی شمار نہ ہوگی اور اس کے نکاح کو سرے سے ہی غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہی ایک فاضل جج عامر فاروق نے اغوا کے مقدمے 365۔ بی تعزیزات پاکستان میں ملزم کی ضمانت منظور کی جس میں مغویہ کا موقف تھا کہ ملزم کی جانب سے عدالت میں دیے جانے والے نکاح نامے پر مغویہ کا انگوٹھا و دستخط جبرا لئے گئے ہیں۔ یہ کیس اس لئے بھی بحث طلب ہے کہ اس میں شریعہ کے اصول سد الذرائع کو زیر بحث لایا گیا اور قانون کے شعبے میں معتبر نام بیرسٹر ظفر اللہ خان اس مقدمے میں عدالتی معاون کے طور پر شریک ہوئے۔

سد الذرائع کی بنیادی تعریف جو فیصلہ مذکور سے اخذ ہے سے مراد وہ افعال جو عند الشارع جائز ہوں لیکن ان پر عمل کرنے سے معاشرے کو وسیع پیمانے پر ضرر پہنچنے کا احتمال ہو یا ان کی انجام دہی عوام الناس کے مفاد میں نہ ہو، کو ریاست ناجائز قرار دے سکتی ہے یا ان پر عملدرآمد کو غیر قانونی قرار دے کر پابندی عائد کر سکتی ہے۔

مذکورہ فیصلے میں فاضل جج نے تحریر کیا کہ ڈی ایف ملا نے اپنی تصنیف محمڈن لاء میں تحریر کیا ہے کہ عندالاحناف خواتین کی شادی کی عمر کی حد 15 برس مقرر ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک نکاح کی شرط بلوغت ہے اگر بلوغت کا تعین نہ ہو تو پھر عمر کا حکم لگایا جائے گا جس کے مطابق لڑکی کے لئے عمر کی حد 17 برس جبکہ لڑکے کے لئے 18 برس مقرر ہے۔ اس دوران فاضل جج نے سندھ میرج رسٹرین ایکٹ کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق لڑکی اور لڑکے دونوں کے لئے شادی کی کم سے کم عمر 18 برس مقرر ہے، لیکن اسلام آباد اور ملک بھر کے بقیہ حصوں کی حدود میں مذکورہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ فیصلے کے مطابق لڑکی یا لڑکے کا شادی کے لئے صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ان دونوں کا منزل رشد تک پہنچنا بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد اس مشورے کے ساتھ کہ اس اہم مسئلے پر وفاقی حکومت باضابطہ قانونی سازی کرے، فیصلے کی کاپی وزارت قانون بھی ارسال کردی گئی۔

اسلامی احکام کی رو سے لا نکاح الابالولی یعنی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہے، لیکن اس مسئلے پر فقہائے امت کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ جن میں ایک صائب رائے یہ بھی ہے کہ بلوغت کے بعد خاتون کو آزادی ہے کہ وہ نکاح کے لئے ولی سے اجازت لے یا نہ لے۔ جس کا ایک حوالہ عدالت عظمیٰ کے مشہور مقدمے حافظ عبدالوحید بنام عاصمہ جہانگیر وغیرہ میں بھی ملتا ہے جس کی رو سے عدالت نے قرار دیا کہ عاقل بالغ لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر بھی اپنی آزاد مرضی سے نکاح کر سکتی ہے جو کہ عند الشارع جائز ہے۔

اسی طرح وفاقی شرعی عدالت محمد فیاض وغیرہ کیس میں یہ قرار دے چکی ہے کہ نکاح کے لئے فقط بالغ ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دیگر جسمانی و ذہنی امور کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے نیز یہ کہ مختلف علاقوں کے احوال مختلف ہیں جس بنا پر مسلم فقہا نکاح کے لئے عمر کی کسی خاص حد پر اجماع نہ کرسکے ہیں۔

اسی طرح عدالت عظمیٰ کی ایک نظیر محمد بخش کیس بھی موجود ہے جس میں یتیم لڑکی کی والدہ نے دوسرا عقد نکاح کر لیا جبکہ لڑکی نے 15 برس کی عمر میں اپنی آزاد مرضی سے عقد نکاح کر لیا اور لڑکی کی والدہ مقدمہ کو عدالت عظمیٰ کے دروازہ تک لے کر آئی، لیکن عدالت نے لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ جس کے ساتھ چاہے اپنی آزاد مرضی سے جا سکتی ہے۔

مذکور شد بحث کا حاصل حصول کم عمری (اٹھارہ برس سے کم) کی شادی پر قدغن لگا دینے کی مخالف نہیں ہے بلکہ ایسے نکاح کو سرے سے غیر قانونی قرار دینے پر معترض ہونا ہے کیونکہ اگر اٹھارہ برس سے کم عمری کے نکاح کو سرے سے ہی غیر قانونی قرار دے دیا جائے تو معاشرہ ایک ایسی بند گلی میں پھنس جائے گا کہ جہاں سے نکلنے کا آسان راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ اگر اٹھارہ برس سے کم عمر نکاح کو سرے سے ہی غیر قانونی قبول کر لیا جائے تو پھر اس نکاح کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے کی قانونی حیثیت پر سوالات اور شکوک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں۔

شادی کے لئے 18 برس عمر کی حد مقرر کیا جانا خوش آئندہ ہے لیکن اس سے کم عمر کے نکاح کو غیر قانونی قرار دینا ناصرف خلاف شریعت ہے بلکہ معاشرتی روایات کو زک پہنچانے کے مترادف بھی ہے۔ لہذا اس فعل کو جرم کی تعریف میں لاتے ہوئے تعزیراً سزا مقرر کر دینا ہی کافی ہے جو کہ قانون ساز ادارے کا کام ہے نہ کہ عدلیہ کا اختیار ہے کہ جس امر پر قانون سازی نہ ہو وہ اس پر قانون سازی کرے۔ اس مسئلے پر باضابطہ قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے اور وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ارسال شدہ عبدالرزاق کیس کی ججمنٹ کی روشنی میں بھیجے گئے قانونی سوالات پر پارلیمان میں بحث نہ کروانا اور باقاعدہ قانون سازی پر توجہ نہ دینا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments