دراڑوں بھری سوچ


یہ تو سب نے کہا بھی ہو گا اور سنا بھی ہو گا کہ تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں 80 فیصد لوگ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں مگر 20 فیصد لوگ تصویر کے دونوں رخ پر توجہ دیتے ہیں اور یہ 20 فیصد انتہا کے ذہین لوگ ہوتے ہیں وہ ہر اس چھپے ہوئے راز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو عام لوگوں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہتا ہے۔ تصویر کا ایک رخ دیکھنے اور دکھانے والے ہمارے اردگرد بھرے پڑے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ انہی 80 فیصد میں کچھ اعلیٰ سرکاری افسران بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں ان کا ماتحت عملہ یا دیگر محکمہ جات کے افسران تصویر کا وہی ایک رخ بار بار دکھا کر اپنی کارکردگی کی خوب داد وصولتے ہیں۔ اسی طرح ہر چھوٹے بڑے شہر کے بھی دو رخ ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔

تصویر کا پہلا رخ کیا ہے آئیے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی چھوٹے بڑے شہر کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہونے والے تقریباً تمام داخلی و خارجی راستوں کو خوب اچھی طرح سجایا اور صاف رکھا گیا ہو گا تاکہ یہاں سے گزرنے کر جانے والے لوگ شہر کے بارے میں اچھا تاثر لے کر جائیں اور انتظامیہ کے لیے اچھے کلمات کہنے پر مجبور ہوجائیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جب ہم ایسے صاف ستھرے ماحول اور سڑکوں کے کنارے سبزہ، پھول دار پودے دیکھتے ہیں تو اش اش کر اٹھتے ہیں مگر ہمیں جب تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جائے تو یقین ہی نہیں ہوتا۔

اب آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہیں۔ ہر شہر کی انتظامیہ دو حصوں ضلعی اور تحصیل انتظامیہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ صرف احکامات جاری کرتی ہے اور ان احکامات کو بجا لانے کی ذمہ داری ماتحت تمام اداروں کے سربراہان کی ہوتی ہے۔ ہر متعلقہ محکمہ کا سربراہ دو طرح سے حکم بجا لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، ایک اگر کاغذی اعداد و شمار مانگے گئے ہوں تو فوری طور پر سچے جھوٹے اعداد تیار کر کے افسر کو پیش کر دیے جاتے ہیں اور اسی دوران ان سچے جھوٹے اعداد و شمار کو ہر صورت سچ ثابت کرنے کے لیے دیگر عملہ کو مقرر کر دیا جاتا ہے جو ریکارڈ میں انہی کاغذات کو شامل کر کے اعلیٰ کارکردگی کی داد وصول کرلیتے ہیں، دوسرا اگر سرپرائز وزٹ اور شہر میں صحت و صفائی کی صورتحال کا جائزہ لینا ہوتو تحصیل انتظامیہ فوری طور پر تمام تر ایلیٹ کلاس علاقوں کی سڑکیں، سٹی ایریا کی مرکزی سڑکوں کے گرین بیلٹس اور اسی طرح چند ایک خاص پارک ہر صورت صاف رکھتے ہیں تاکہ افسران کو یہ ماڈل ایریاز دکھا کر اعلیٰ کارکردگی کے تعریفی سرٹیفکیٹس حاصل کرسکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ افسران سمیت تمام عوامی نمائندوں، کنگ میکرز، بزنس ٹائیکونز کے رہائشی و کاروباری مراکز کو جانے والی سڑکوں سے گندگی اٹھا کر غریب آبادیوں کے بالکل قریب پھینک دی جاتی ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ غریب آبادیوں کا ذکر کہاں سے بیچ میں آ گیا تو ہر خوبصورت شہر کی تصویر کا دوسرا رخ یہی غریب آبادیاں ہیں جہاں پر کسی عوامی نمائندے، تاجر طبقہ، ضلعی اعلیٰ افسران کی قطعاً توجہ نہیں ہوتی۔ یہ لوگ ان علاقوں میں جانا اپنی توہین اور تضحیک خیال کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان غریب آبادیوں میں کبھی ترقیاتی کام ہوتے دکھائی نہیں دیے، عوامی نمائندے بھی صرف ووٹوں کی خاطر چند ایک گلیاں آدھ ادھوری مکمل کر واکر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ ان غریب اور گنجان آبادیوں کے مکین جو کہ شہر بھر کی 70 فیصد سے زائد آبادی ہوتی ہے زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم رہتی ہے۔ تصویر کے اس دوسرے رخ کی تلخ حقیقت کو قریب سے دیکھیں تو آپ جان سکیں گے کہ یہاں پر سڑکیں سیوریج کے پانی سے تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں تو گلیاں کچرے سے بھرے فلتھ ڈپو میں بدل چکی ہیں، چند ایک سرکاری سکول ہوں گے جہاں پر ٹیچرز طلبا و طالبات کی تعلیم و تربیت کے تقاضے پورے تو دور کی بات اس پر گفتگو بھی نہ کی جاتی ہوگی بلکہ ٹیچرز کے آپسی جھگڑوں اور معشوقوں کے قصے زبان زدعام ہوں گے اور مجال ہے کہ ان سکولوں کے ذمہ دار محکمہ کے افسران میں سنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ اسی طرح بنیادی صحت کے مراکز کی حالت بھی ابتر ہوگی ادویات ہوں گی تو ڈاکٹر نہیں ہوں گے اور اگر ڈاکٹر ہوں گے تو ادویات ندارد ہوں گی ، دونوں ہوں گے تو بلڈنگ خستہ حالت میں ہوگی یہ سب کچھ صرف غریب آبادیوں میں ہی ممکن ہے۔

تصویر کے اسی دوسرے رخ کا احوال یہ ہے کہ کچی اور غریب گنجان آبادیوں کے مکین پینے کے صاف پانی سے محروم دکھائی دیں گے یہاں پر چند ایک فلٹریشن پلانٹ ہوں گے جو کچھ دیر چلنے کے بعد بند کر دیے جاتے ہیں، اگر سرکاری واٹر سپلائی لائن ہوگی تو وہ لائن بھی کئی کئی ماہ بند رکھی جاتی ہے جس کے باعث لوگ دوردراز سے پانی بھر کر لانے پر مجبور نظر آئیں گے جبکہ پوش علاقوں میں پینے کا صاف پانی وافر مقدار میں موجود رہتا ہے اول تو انہیں منرل واٹر دستیاب ہوتا ہے تاہم واٹر سپلائی لائن بھی کبھی بند نہیں ہوتی۔

اسی طرح غریب علاقوں کی سڑکیں بھی عجیب نمونہ بن چکی ہوتی ہیں کہ آپ اچھی طرح پیٹ بھر کر ان سڑکوں پر چلیں تو آپ کا کھانا بہت جلد ہضم ہوجاتا ہے جبکہ پوش علاقوں کی سڑکیں اول تو خراب نہیں ہوتیں اگر چند ایک جگہ چھوٹے چھوٹے گڑھے پڑ جائیں تو گڑھوں کی مرمت کی بجائے انہیں مکمل سڑک کارپٹ کردی جاتی ہے بلکہ اچھی خاصی سڑک پر پھر کارپٹ سڑک بنا دی جاتی ہے۔ غریب علاقوں میں آپ کو کہیں بھی اسٹریٹ لائٹ نظر نہیں آئے گی کیونکہ غریب لوگوں کو اندھیرے یا روشنی سے غرض نہیں ہونی چاہیے بس جس طرح کی زندگی گزر رہی ہے انہیں ہرحال میں گزارنی چاہیے یہی امیری اور غریبی کے اصول ہیں۔ جبکہ پوش علاقوں میں وافر مقدار میں اسٹریٹ لائٹ نظر آئے گی اور وہ رات کے ساتھ ساتھ دن میں بھی روشن دیکھی جا سکتی ہیں۔

غریب علاقوں کے مکینوں کو خوراک کے نام پر ہر قسم کا زہر دیا جا رہا ہے مگر کسی ادارے نے آج تک ان مکینوں سے یہ پوچھنا تو درکنار دیکھنا بھی گوارا نہ کیا ہو گا یہ صرف اس لیے ہے کہ ایسے تمام 80 فیصد لوگوں کی سوچ میں دراڑیں پڑ چکی ہیں ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو دولت کی ہوس نے ختم کر دیا ہے جبکہ پوش علاقوں کے مکین ہی تو مل اونرز اور فیکٹریز کے مالکان ہیں جو غریب آبادیوں کو آٹے کے نام پر چوکر، چھان بور اور نا جانے کیا کچھ مکس کر کھلا رہے ہیں جس کے باعث بیماریوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

غریب علاقوں میں گلیاں اور سڑکیں سیوریج کے گندے بدبودار پانی کے تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں تو پوش علاقوں کی سڑکیں اور گلیاں ماڈل گلیاں کہلانے کا حق رکھتی ہیں۔ غریب علاقوں کے بچے گلیوں میں جمع سیوریج کے گندے پانی کو ہی سوئمنگ پول سمجھ کر نہاتے رہتے ہیں تو پوش علاقہ کے ہر بڑے گھرمیں صاف شفاف نیلی ٹائلوں کے سوئمنگ پولز موجود ہوں گے ۔

غرض کہ غربت کی ان پوٹلیوں کو اگر کھولتے جائیں گے تو ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ ٔ سامنے آ کر یہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا چلا جائے گا لہذا یہ سمجھ لیں کہ ہر اچھے اور خوبصورت شہر کی ظاہری حالت کو دیکھ کر آپ اس کے باطنی حالت کو بھی فوراً جان سکیں اور ہر اچھے انسان کے اندر چھپے بھیڑیے نما انسان کو بھی جان سکیں تاکہ آپ کی زندگی کے ہر موڑ پر جب تلخ حقیقت آشکار ہوتو آپ پریشان نہ ہو سکیں کیونکہ یہی زندگی ہے جہاں غم ہو گا وہاں خوشی بھی ضرور ملے گی اور جہاں شکست ہوگی وہاں کامیابی بھی آپ کے قدم چومے گی۔

انسان کے ظاہر اور باطن سمیت شہر کی ظاہری اور چھپی ہوئی کہانی بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے اپنے مردہ ضمیروں کو جگائیں اور انسانیت کی خدمت کے لیے برسرپیکار ہوجائیں، غلط اور درست کی نشاندہی کرسکیں، اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرسکیں۔ ہمیں اپنے مردہ ضمیروں کو جگانے کے لیے ذہنوں پر لگے زنگ اور سوچ پر پڑی دراڑوں کو ہر صورت ختم کرنا ہو گا۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی آسان اور سہل ہو سکے۔ 80 فیصد میں موجود افسران، عوامی نمائندوں، کنگ میکرز و بزنس ٹائیکونز کے لیے بھی لازمی ہے کہ بھیڑ چال کو ختم کر کے حقائق کو مدنظر رکھیں اور پوش علاقوں کی صورتحال کو چھوڑ کر گنجان آبادیوں کی جانب توجہ دیں جہاں کے مکین اپنے حقوق سے لاعلم رہتے ہوئے جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

با اثر، با اختیار اور باحیثیت لوگ اگر اپنی ان تمام خصوصیات کو تادیر برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو جو انہیں ان خصوصیات تک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں انہیں قائم رکھیں گے تو ہی با اختیار کہلا سکیں گے کیونکہ حکومت انسانوں پر کی جا سکتی ہے جانوروں پر نہیں کی جا سکتی۔ لہذا اپنی غربت کی چکی میں پس کر ختم ہوتی ہوئی اس انسانیت کو بچائیں اسی میں ہم سب کی عافیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments