ہماری تعلیم۔ قومی زندگی کا المناک پہلو


قوموں کی تقدیر کا فیصلہ علم کرتا ہے۔ انسان کی تہذیب نفس کے لیے سب سے اہم چیز تعلیم ہے۔ اسی طرح دنیا میں ترقی کے لیے سب سے اہم چیز تعلیم ہے۔ آپ کو اگر قوموں کی برادری میں ایک باوقار جگہ پر کھڑا ہونا ہے تو اس کے لیے بھی تعلیم کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جن تبدیلیوں کے ہم خواب دیکھتے ہیں، جن تبدیلیوں کو ہم اپنا ہم اپنا نصب العین بناتے ہیں وہ بھی تعلیم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ تعلیم کی اس اہمیت کو ہر آدمی تسلیم کرے گا لیکن ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا المناک پہلو یہ ہے کہ تعلیم کبھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ ہمارے ارباب حل و عقد نے اسے کبھی یہ ترجیe دی ہے اور نہ ہمارے دانشوروں نے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی انقلاب کے لیے جدوجہد ہوتی رہی ہیں مگر کبھی بھی تعلیم کے لیے کوئی تحریک برپا نہیں ہوئی۔

تعلیم نہ صرف ایک بنیادی انسانی حق ہے بلکہ یہ مجموعی معاشرتی بھلائی کا ذریعہ ہے اس لیے تعلیم معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے اعلامیے کے آرٹیکل 26 میں مفت اور لازمی ابتدائی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بعد ازاں 1989 میں بچوں کے عالمی حقوق کے کنونشن میں یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ تمام رکن ممالک اعلیٰ تعلیم کو سب کے لیے یکساں قابل رسائی بنائیں گے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پائیدار ترقی کے دیگر 17 اہداف کے حصول کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ پائیدار ترقی کا ہدف 4 خاص طور پر 2030 تک جامع اور مساوی معیار تعلیم کو یقینی بنانے اور سب کے لیے زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینے کو بیان کرتا ہے۔ اسی طرح سے پاکستان کے آئین کی دفعہ 25 اے کے مطابق ریاست 5 سے 16 سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ لیکن ان معاہدات اور آئینی حق پر کبھی بھی کسی نے حقیقی عمل درآمد کی کو شش نہیں کی۔

پاکستان میں اس وقت شرح خواندگی تقریباً 62 فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ چھ کروڑ لوگ ناخواندہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے 44 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ دیہی آبادی کی 52 فیصد لڑکیاں سکول میں داخل نہیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 67 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں اور ان میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ میں 52 فیصد غریب ترین بچے ( 58 فیصد لڑکیاں ) اور بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔

ملک میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے فوری طور پر سکول واپس جانا مشکل نظر آتا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے 19000 سکول تباہ ہو چکے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام کو کئی مسائل درپیش ہیں۔ ان میں سے سب پہلا مسئلہ سب بچوں کے لیے یکساں عمومی تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی اور غیر مذہبی تعلیم کی تفریق، اردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم کی تفریق موجود ہے۔ منقسم نظام تعلیم سیاسی انتشار، طبقاتی تشدد، فرقہ واریت، دہشت گردی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ ہے۔ ہم جب تک ایف اے، ایف ایس سی تک سب بچوں کے لیے وسیع البنیاد تعلیمBroad Based General Education کا نظام نہیں لائیں گے اس وقت تک معاشرتی خلیج کو ختم نہیں کر سکتے۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام طلبا میں ہنر مندی پیدا کیے بغیر انہیں عام تعلیم کی طرف دھکیل دیتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ملک کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ موجودہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہم اپنے نوجوانوں میں تعلیم کے ذریعے ہنر مندی پیدا کریں۔ ہمارے نظام تعلیم کا تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس میں سائنس اور ٹکنالوجی کا خاطر خواہ استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے طلبا تنقیدی سوچ، استدلال، تجربہ اور ایجاد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

چوتھا بڑا مسئلہ جو دراصل تمام مسائل کی وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم تعلیم کے لیے درکار وسائل میسر نہیں کرتے۔ ہمارا تعلیمی بجٹ اس وقت 2.8 فیصد ہے جو کہ ابھی 4 فیصد ہدف سے بہت کم ہے۔ یہ تعلیمی بجٹ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جس نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے مطابق اپنا تعلیمی بجٹ مختص کیا ہے۔

تعلیم ترقی کی کلید اور غربت ختم کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی وحدت کے لیے فوری طور پر وسیع البنیاد یکساں نظام تعلیم متعارف کرایا جائے جس میں مسلمان بچوں کے لیے قرآن مجید کا ترجمہ اور عربی قواعد کی بنیادی تعلیم شامل ہو۔

نجی شعبہ کے اشتراک کے ساتھ سکول اور کالج کی سطح پر کیرئیر کونسلنگ لازمی کر دی جائے تاکہ طلبا کی استعداد کار اور مارکیٹ اکانومی کی ضروریات میں توازن پیدا کیا جا سکے۔ انسانوں پر سرمایہ کاری میں تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ ترقیاتی بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے بجٹ فوری طوری پر 4 سے 5 فیصد سالانہ تک بڑھایا جائے کیونکہ صرف تعلیم ہی سے مساوی معاشرہ اور معاشی مسابقت ممکن ہے اور صرف تعلیم کے ذریعے سے ہی کروڑوں لوگوں کے خواب پورے ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments