کیا ججوں کو ہی دوسرے ججوں کو منتخب کرنے کا اختیار ہونا چاہیے؟


سپریم کورٹ
انڈیا کا سپریم کورٹ دنیا کی بااختیار عدالتوں میں سے ایک ہے
کیا ججوں کو جج چننا چاہیے؟

انڈیا کی اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے انتخاب کے لیے طویل عرصے سے ایک طریقہ کار رائج ہے جسے کالجیم سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت جج ہی دوسرے ججوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر انڈیا کے صدر دوسرے ججز سے مشاورت کے بعد کرتے ہیں۔ (وزیر قانون ججوں کی سفارشات وزیراعظم کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ صدر کو ان کی تقرری کا مشورہ دیتے ہیں۔)

حکومت کا خیال ہے کہ اس نظام میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حالیہ ہفتوں میں وزیر قانون اور نائب صدر جمہوریہ سمیت کئی سینیئر عہدیداروں نے کالجیم کے خلاف بات کی ہے۔ وزیر قانون کرن ریجیجو نے کہا: ‘دنیا بھر میں ججز کی تقرری ججز ہی نہیں کرتے ہیں۔ لیکن انڈیا میں، وہ ایسا کرتے ہیں۔’ انھوں نے کالجیم کے نظام کو ‘مبہم اور غیر جوابدہ’ قرار دیا۔

سنہ 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ایک نئے قانون کے ذریعے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ حکومت کو ججوں کی تقرری میں مزید اختیار حاصل ہو۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا تو یہ دہائیوں پرانے کالجیم سسٹم کو ایک وفاقی کمیشن سے بدل دیتا جس میں وزیر قانون بھی شامل ہوتے۔

سپریم کورٹ نے اس قانون کو ‘غیر آئینی’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے ایک جج نے زور دے کر کہا کہ ’اسے (عدلیہ کو) حکومت کے دوسرے اداروں سے بالکل الگ اور آزاد رکھ کر‘ صرف عدلیہ ہی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے۔

ایک آزاد عدلیہ جمہوریت کے مرکز میں ہوتی ہے اور وہ انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان توازن کے طور پر کام کرتی ہے۔

لیکن انڈیا کی غیر معمولی طور پر طاقتور اعلیٰ عدلیہ نے ماضی میں حکومتوں کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔ معاملات کو نظر انداز کرنے یا تاخیر کرنے پر بھی اس پر تنقید کی گئی ہے۔ ایک وکیل، ابھینو چندرچوڑ اپنی کتاب ’سپریم وِسپرس‘ میں لکھتے ہیں کہ حکومتوں نے اکثر عدلیہ سے سبقت لے کر، ججوں کے تبادلے کر کے اور ان کی تصدیق نہ کر کے ‘عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا ہے۔’

انڈیا ججز ہی ججوں کی تقرری کرتے ہیں

انڈیا ججز ہی ججوں کی تقرری کرتے ہیں

کالیجیم نظام

تقریباً دو دہائی پرانے کالجیم نظام نے شاید حکومت سے ڈرانے کا اختیار چھین لیا ہو لیکن اس کے باوجود خود سیاست دانوں، ججز اور سکالرز کی طرف سے اس نظام کو شفاف اور جوابدہ نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ایک تو اس پر سست روی کا الزام لگایا جاتا ہے جو کہ خالی آسامیوں کو پُر کرنے میں تاخیر کا باعث ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ میں اس وقت 27 ججز ہیں جو کہ منظور شدہ 34 کی تعداد سے سات کم ہیں۔ (جج مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے چھوٹے پینل میں بیٹھتے ہیں)۔ ہائی کورٹس کے لیے کالجیم کے ذریعہ تجویز کردہ 100 سے زیادہ ججوں کی تقرری حکومت کے پاس زیر التوا ہے۔

کم ججوں کا مطلب انصاف میں بھی سست روی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انڈیا کی عدالتوں میں چار کروڑ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 70,000 سے زیادہ تو سپریم کورٹ میں ہی التوا کا شکار ہیں اور ان میں سے کئی تو پانچ سال سے زیادہ پرانے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا کے راہل ہیمراجانی کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنی پوری تاریخ میں شاذ و نادر ہی پوری طاقت سے کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عدالت عام طور پر اپنی منظور شدہ طاقت کی 87 فیصد طاقت کے ساتھ کام کرتی ہے جس کے سبب اسامیوں کی اوسط تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حالیہ برسوں میں خاص طور پر یہ زیادہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں تین خواتین ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری قبل از وقت جشن تو نہیں!

انڈیا میں جج ایک دوسرے کی ذہنی صحت پر شبہ کیوں کر رہے ہیں؟

کیا عدلیہ کی آزادی خطرے میں ہے؟

سنہ 1950 سے 2020 تک عدالت کی تقرری اور ریٹائرمنٹ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہیمراجانی نے پایا کہ سنہ 2015 سے اعلیٰ عدلیہ میں اوسطاً، حالیہ تاریخ میں کسی بھی دوسری مدت کے مقابلے میں زیادہ آسامیاں ہیں۔

ججوں کی منظور شدہ تعداد میں اضافے کے باوجود سنہ 2015 اور 2020 کے درمیان سپریم کورٹ میں صرف 28 ججوں کی تقرری ہوئی ہے، جبکہ اس سے پہلے کے پانچ سالوں میں یہ تعداد 30 تھی۔ سنہ 2015 کے بعد تقرریوں میں بھی تاخیر ہوئی ہے اور اسامی کے اشتہار اور تقرری کے درمیان اوسطاً 285 دن لگے  جبکہ پہلے یہ 274 دن تھے۔

قانونی سکالرز کا کہنا ہے کہ تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ کالجیم کا اجلاس بہت کم ہوتا ہے۔ میٹنگز اسی وقت ہوتی ہیں جب چیف جسٹس اور چار سینیئر ترین ججز دستیاب ہوں۔ ہیمراجانی نے پایا کہ اکتوبر 2017 اور 2020 کے درمیان سپریم کورٹ میں تقرریوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کالجیم کی صرف 12 میٹنگز ہوئيں۔ (ان میں سے تین ایک جج کے نام پر بحث سے متعلق تھیں۔)

وزیر قانون کرن ریجیجو

وزیر قانون کرن ریجیجو نے کالیجیم کے خلاف بات کہی ہے

سست روی کا شکار

زیادہ تر آسامیاں متوقع ہوتی ہیں کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن کالجیم کا تبدیلیوں سے متعلق منصوبہ بندی کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ سنہ 1977 سے سپریم کورٹ کے کسی جج کا تقرر آسامی خالی ہوتے ہی فوری طور پر نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ، نئے ججز سے متعلق سفارشات انفرادی اسامیوں کو پر کرنے کے بجائے بیچز میں حکومت کو بھیجی جاتی ہیں۔ ہیمراجانی نے پایا  کہ سپریم کورٹ کے آخری 100 ججوں میں سے 81 کی تقرری دو سے پانچ کے بیچز میں کی گئی تھی۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے ’مداخلت اور تاخیر‘ ججوں کی تقرریوں میں تاخیر کی وجہ ہے۔ دسمبر کے وسط میں کالجیم نے سپریم کورٹ کے لیے پانچ ججوں کے ناموں کی تجویز پیش کی تھی لیکن حکومت نے ابھی تک ان پر کارروائی نہیں کی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج مدن لوکور کا خیال ہے کہ ‘حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے۔’

تو کیا انڈیا کی عدلیہ کہیں بیچ میں پھنس کر رہ گئی ہے؟ ماہر قانون گوتم بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ ‘عدالتی غلبے کا جواب انتظامی غلبہ نہیں ہے، یہ ایک ایسا راستہ جس سے ہم پہلے گزر چکے ہیں۔’ ان کا خیال ہے کہ ‘متوازن عمل کی ضرورت ہے جو تمام سٹیک ہولڈرز کے مفاد پر غور کرے، لیکن فی الحال ایسی کوئی تجویز سامنے نہیں ہے۔’

ایک سینیئر وکیل فالی نریمن کا کہنا ہے کہ کالجیم سسٹم میں ‘بہت سی خرابیاں’ تھیں لیکن یہ پھر بھی ‘چھوٹی برائی’ ہے۔

ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی نامی تھنک ٹینک کے ارگھیا سین گپتا جیسے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ کالجیم کی جگہ عدلیہ، بار کونسل اور سول نظام کے نمائندوں کے ساتھ ایک عدالتی کمیشن بنایا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘کالجیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عدالتی تقرریوں کا نظام کامل نہیں ہو سکتا، لیکن اس میں چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔’

واضح طور پر جیوری ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ آیا ججوں کو ہی ججوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments