آر ایس ایس سے مسلمان دانشوروں کی ملاقات: ’ان سے کہا کہ وہ نفرت انگیز بیانات کو غلط کہیں‘


گیان واپی مسجد
گیان واپی مسجد
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی ایما پر تنظیم کے اعلی رہنماؤں نے کئی سرکردہ مسلم دانشوروں سے مذاکرات کیے ہیں۔ یہ ملاقات دلی میں 14 جنوری کو ہوئی تھی۔ مذاکرات میں آر ایس ایس کے نمائندوں نے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کی زمین کو ہندوؤں کے حوالے  کرنے کا بھی سوال اٹھایا  ہے۔

 

آر ایس ایس اور مسلم دانشوروں کے درمیان یہ اپنی نوعیت کی دوسری ملاقات تھی۔ یہ بات چیت، دلی کے سابق لفٹیننٹ گورنر نجیبجنگ کی رہائشگاہ پر ہوئی۔ مسلمانوں کی جانب سے اس میں نجیب جنگ کے علاوہ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، صحافی شاہد صدیقی اور بزنس مین سعید شیروانی شریک ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ اس بار ملک کی سرکردہ مذہبی تنظیموں کے نمائندے بھی اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔

 

شاہد صدیقی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا  ’ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم قوم وملت کے رہنما نہیں ہیں۔ ہم نے آر ایس ایس سے میٹنگ سے ایک روز پہلے اہم مذہبی تنظیموں اور سبھی مسلک کے رہنماؤں سے بات کی۔ ان کے نمائندے میٹنگ میں شامل کیے تاکہ ان کی آرا ء اور خیالات آر ایس ایس تک پہنچ سکیں۔‘

آر ایس ایس کی جانب سے اندریش کمار، رام لال اور کرشن گوپال نے اس بات چیت میں حصہ لیا۔ یہ اس طرح کی دوسری میٹنگ تھی۔ پہلی میٹنگ گزشتہ برس 22 اگست کو ہوئی تھی جس میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے شرکت کی تھی۔ ان میٹنگوں کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنا اور دونوں برادریوں کے درمیان موجود ان مشترکہ پہلوؤں کو تلاش کرنا ہے جن پر دونوں برادریوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 

14 جنوری کی گفتگو میں ہندو سادھؤں کی تنظیم دھرم سنسد کے رہنماؤں کے ذریعے دیے جانے والے مسلم مخالف بیانات، ہجوم کے ہاتھوں تشدد، مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کرنے کی سیاست اور مذہبی تفریق جیسے موضوعات پر تقریبآ تین گھنٹے تک بات ہوئی۔ مذاکرات میں آر ایس ایس کے نمائندوں نے بنارس کی متنازع گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے تنازع کو بھی حل کرنے یعنی ان عبادت گاہوں کی زمین کو ہندوؤں کے حوالے کرنے کا سوال اٹھایا۔

 

صحافی شاہد صدیقی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ تقریباً تین گھنٹے کے مذاکرات میں چند منٹ کے لیے اس پر بات ہوئی ’ہم نے کہا کہ یہ معاملات تو عدالت میں ہیں۔ یہ تو عدالت ہی طے کرے گی۔ اس پر بات کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی اس پر راضی بھی ہو جائے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد تین پھر تیس اور پھر تین ہزار اور مسجدیں نہیں مانگی جائیں گی۔ اس پر وہ خاموش رہے۔ اس سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔‘

یہ بھی پڑھیے

موہن بھاگوت: آر ایس ایس کے سربراہ کی مسلم دانشوروں سے ملاقات، مسجد اور مدرسے کے دورے کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟

گیان واپی مسجد کے احاطے میں پوجا کی اجازت سے متعلق مقدمے کی سماعت ہو گی

گیان واپی مسجد کا تنازع انڈیا میں نئے مذہبی تنازعے کا آغاز ہو سکتا ہے

آر ایس ایس کے نمائندوں نے بی جے پی کی حکومت کے ذریعے مسلم خواتین کو مساوی حقوق دینے کے اقدامات کا ذکر کیا۔ مختلف سکیموں کے ذریعے مسلم لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے اور دوسری فلاحی سکیموں میں کسی کے ساتھ تفریق نہ برتنے جیسے پہلوؤں کا بھی ذکر ہوا۔

شاہد صدیقی نے کہا ’زیادہ باتیں دھرم سنسد کے متنازع و نفرت انگیز بیانات پر ہوئیں۔  اس پر آر ایس ایس کے نمائندوں نے کہا کہ ہمارے یہاں سے ایسا نہیں ہوتا تو ہم نے کہا کہ آپ کو اس کی مذمت کرنی چاہیے آپ کو کہنا چاہیے کہ یہ غلط ہے۔‘

غلط فہمیاں اور دوریاں ختم کرنے کے لیے آر ایس ایس اور مسلم دانشوروں کے درمیان بات چیت کے اس سلسلے کو جاری رکھنے اور اسے مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شاہد صدیقی نے کہا ’ابھی تو سارے دروازے، کھڑکیاں بند ہیں۔ بات چیت جاری رہی تو آہستہ آہستہ دروازے کھلیں گے۔ ابھی تو ہم صرف ایک کھڑکی کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب ملک میں نفرت کی سیاست کا غلبہ ہے۔ مسلم اقلیت شدید دباؤ اور بے بسی کے دور سے گزر رہی ہے۔

مسلم خواتین کے حقوق کی علم بردار اور  سرکردہ دانشور ذکیہ سمن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کے مسلمان موجودہ حالات کا جمہوری طریقے سے سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مسلم رہنماؤں کی ساری توجہ ان پہلوؤں پر مرکوز تھی کی روزہ کیسے رکھا جائے، مدرسے کیسے بچائے جائیں، عورتوں کو پردے میں کیسے رکھا جائے۔ ایک جمہوری سماج میں آئینی حقوق، جمہوری اصولوں سے واقفیت، تعلیم، لڑکیوں کو برابر کے حقوق اور جمہوری چیلنجز کے بارے میں مسلمانوں میں آگہی کی کمی ہے۔ شہریت کے قانون کے خلاف جامعہ ملیہ سے مسلم طلبہ کی ایک جمہوری تحریک شروع ہوئی تھی لیکن وہ زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔‘

ذکیہ سمن آر ایس ایس سے ڈائیلاگ کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ ایک اچھی بات ہے ’مذاکرات ہونے چاہییں۔ غلط فہمیاں دور کرنےکا واحد راستہ بات چیت ہے۔ لیکن اس کے لیے دونوں جانب سنجیدگی ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بات چیت بھی چلے اور دھرم سنسد کے نفرت انگیز بیانات بھی جاری رہیں۔ ہر طرف نفرت کا عفریت کھڑے ہو رہے ہیں۔ انھیں شہ کہاں سے مل رہی ہے؟ حکومت کو پہلے نفرت کی سیاست پر لگام لگانی ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments