ملک کے سیاسی و معاشی حالات اور عوام؟


ملک کی معاشی صورتحال کی جانب کسی بھی حکمران نے توجہ نہیں دی جس کے باعث ملکی معیشت کمزور اور لاغر ہے اور اس کی بڑی وجہ بھاری بھر کم قرضے ہیں کوئی بھی ملک قرض کے سہارے نہیں چل سکتا اس بات پر معاشی ماہرین کا بھی اتفاق ہے ہمیشہ ممالک اپنی بہترین معاشی پالیسیوں اور پیداواری صلاحیت کے ہی بل بوتے پر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی انا پرستی نے بدترین سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اور ان حالات میں نہ حکومت کے پاس معاشی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی وژن ہے اور نہ ہی اندرونی معاملات کو حل کرنے کے لئے مستقل بنیادوں پر پالیسیاں ہیں۔

جن کے پاس معاشی و خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی وژن نہیں ہوتا اور اندرون خانہ معاملات کو حل کرنے کے لئے پالیسیاں نہیں ہوتیں تو ان حالات کی بڑی قیمت پبلک چکاتی ہے۔ اس وقت پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد ان صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں اور قومی اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دیے گئے تمام ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہو چکے ہیں ملک میں سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود حکومت اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے اے ’بی اور سی پلان بنا کر سیاسی گیم اسکورنگ اور سیاسی برتری کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اس سے آگے بڑھنے کے ان کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں رہا ہے۔

ہم دنیا کے سامنے کشکول لئے پھر رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ دوبارہ قرض سود سمیت لوٹا دیں گے دوست ممالک سے بھی قرض رول بیک کروا رہے ہیں لیکن کوئی معاشی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی استحکام پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے وسائل صرف کر رہے ہیں اور معیشت کا دھڑن تختہ ہو رہا ہے۔ ملک میں ایسی سیاسی بے یقینی کی صورتحال جنم لے چکی ہے کہ وطن عزیز پر ایک بار پھر سے دہشت گردی کا آسیب اپنے پنجے مضبوط کرنے لگا ہے دہشت گردی ریاست کے لئے ایک بار پھر چیلنج بنتی جا رہی ہے۔

ملکی مسائل‘ بحرانوں اور دہشت گردی کے ناسور سے کیسے نمٹا جائے ملک کی سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر پلان بنانے کی اشد ضرورت ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کرے گی۔ خدارا ملک پر رحم کریں عوام کی حالت زار کو دیکھیں دہائیوں سے بھاری بھر کم قرضوں کا بوجھ ’کمر شکن مہنگائی‘ بے روزگاری ’توانائی بحران‘ دہشت گری ’ڈوبتی معیشت ایسے مہلک مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔

ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار و اختیارات کی جنگ کا جو طبل بج چکا ہے عام آدمی ایسی بے ثمر سیاست سے بالکل بے زار ہو چکا ہے۔ حالات تو ایسے ہیں کہ ’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘ حکمران ایسے عوام سے بے خبر اور طوطا چشم ہوئے کہ اب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں مسائل کا چابک عام آدمی کی کمر پر ایسے برس رہا کہ بس توبہ ’بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کی چیخیں ایسے نکلوائی کہ فلک کا سینہ بھی شق ہو گیا۔

اگر ملک کے سیاست دان اپنے مفادات‘ اقتدار اور اختیارات کی جنگ میں سب کچھ بھول کر عوام سے بے خبر ہو گئے ہیں تو غریب آدمی کہاں جائے گا فرصت ملے تو غربت کدوں کے در دیوار سے کان لگا کر سنو جہاں مسائل کے نوحوں سے جنم لینے والی سسکیاں رک نہیں پاتیں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں ملک میں خودکشیاں اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ملک میں کیسی جمہوریت کا راج ہے جہاں غربت سربازار روٹی کی دہائی دے رہی ہے ملک میں آٹا نایاب ہو چکا ہے زراعت میں خود کفیل ملک کا ایسا حال کس نے بنایا کہ آج غریب کے منہ سے دو وقت کا نوالہ بھی چھن گیا۔

روز محشر تو سبحان تعالیٰ کو جواب دینا ہی ہے لیکن سیاسی اشرافیہ کو مکافات عمل بھی یاد رکھنا چاہیے کبھی ایسے زرعی ملک میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ عوام کو آٹا کے حصول کے لئے طویل لائنوں میں کھڑے ہونا پڑے گا لیکن ملکی سیاست نے قومی خزانہ اور وسائل پر ایسے شب خون مارا کہ عام آدمی در بدر ہو کے رہ گیا۔ ضد ’اناؤں‘ اختیارات ’مفادات اور اقتدار کی سیاسی جنگ میں ملکی معیشت اور عام آدمی کا بہت کچھ جل کر خاکستر ہو چکا ہے سیاست کے روپ میں نا خدا نہ بنیں عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال کریں جن کے ووٹ کے دوام سے آپ کے اقتداری ایوان آباد ہیں۔

پچھتر سال گزرنے کے باوجود مسائل اور بحرانوں سے دوچار عوام کے لئے اس جمہوریت نے عام آدمی کے رستے زخموں پر مرہم نہیں رکھا اشرافیہ آج بھی عشرت کدوں میں عیش کی زندگی گزار رہی ہے اور عوام آج بھی روزگار اور مہنگائی کے ہاتھوں پٹ رہی ہے۔ مسائل کا حل صرف عام انتخابات ہیں تاکہ ملک میں ایک مستحکم حکومت کا قیام ممکن ہو سکے سیاسی استحکام کو جب دوام ملے گا تو ملکی معیشت بھی آہستہ آہستہ پٹڑی پر آ جائے گی لیکن آپسی مفاداتی لڑائی جاری رہی تو بہت کچھ بہہ جائے گا سوائے ریت کے ذرات کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے اقتدار دیا اور حکمران اپنے منصب کے امین ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی عوام کے مفاد عامہ کے لئے حکمرانوں نے فیصلے اور اقدامات نہیں اٹھائے اور یہی وجہ ہے کہ ملکی معاشرے میں آج بھی غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ بحران سر پر کھڑے ہیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ایسے حالات کے سزا وار عوام نہیں بلکہ حکمران ہیں عام آدمی تو ان کیے دھرے کی سزا بھگت رہا ہے۔ ساٹھ فیصد ملک انتخابات کی طرف جا چکا ہے اگر سیاسی و معاشی استحکام نئے انتخابات کا ہی متقاضی ہے تو نئے انتخابات کروانے میں دیر کیوں مسائل‘ بحرانوں ’سیاسی و معاشی مسائل کے حل کے لئے اب مل بیٹھنا چاہیے یہی حالات اور وقت کا تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments