پاکستان اور طفیلیے


آپ نے سنا ہو گا کہ فصلوں میں کچھ کیڑے ایسے ہوتے ہیں جنھیں طفیلی کیڑے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پڑے پڑے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ پھر انھیں فصل بچانے کیلے کیڑے مار دوائیوں اور سپرے کی مدد سے تلف کیا جاتا ہے۔ ہمارا پیارا پاکستان بھی ایسی فصل بن چکا ہے جس میں ان طفیلی کیڑوں کی بھر مار ہے بس فرق یہ ہے کہ ان کیڑوں کو تلف کرنے کا تریاق ہمیں نہیں مل رہا۔ عوام محنت کش ہاریوں کی طرح دن بدن سوکھتے جا رہے ہیں لیکن یہ جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان، بیوروکریٹ، بڑے بڑے مذہب کے جغادری، اور فوجی جرنیل اور ان کے حاشیہ نشین طفیلیے دن بدن پھل پھول رہے ہیں۔

مذکورہ اعلیٰ طفیلی طبقات کے بعد طفیلیوں کی بڑی کھیپ سرکاری دفاتر میں پائی جاتی ہے جو فائلوں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں۔ دیکھا دیکھی جملہ عوام بھی ان طفیلیوں کے رنگ میں رنگ چکے ہیں سو اوپر سے نیچے تک مفت خوری اور ہڈ حرامی کی روایت سرایت کر چکی ہے۔ مزدور طبقے سے لے کر صنعت کار تک ہر کوئی طفیلیا بن کے کھانا چاہتا ہے۔ ٹیکس ہم دینا نہیں چاہتے، کام کو کام سمجھنا ہم توہین سمجھتے ہیں، نوکری سرکاری چاہتے ہیں کہ طبیعت پہ کام کا بار گراں نہ ہو اور وظیفہ چلتا رہے۔

پھر کیسے ممکن ہے کہ ہمارے کھیت میں کوئی فصل اگے۔ انگریزوں نے جاتے وقت ایسی چال چلی کہ یہ ملک اپنے قیام سے ان طفیلیوں کے نرغے میں کچھ یوں پھنسا کہ نہ جائے رفتند نہ پائے آمدند۔ ان طفیلیوں کے ہاتھوں ہم اپنی آزادی کی قیمت چکاتے آرہے اور پتہ نہیں کب تک چکاتے رہیں گے۔ ان طفیلیوں نے بنگال کو بنگلہ دیش بنا کر آدھا ملک چٹ کر لیا ہے اور باقی آدھے کے پیچھے پڑے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک ان طبقات کے آگے بند باندھنا تو کجا الٹا ان طفیلی طبقوں میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔

ان طبقات میں بھتہ خور، منافع خور، رشوت خور، قبضہ مافیا، اسمگلر، ذخیرہ اندوز، ڈرگ مافیا، ملاوٹ کرنے والے، اقربا پروری کے پروردہ، بلیک میلر اور کرپشن مافیا وغیرہ شامل ہیں۔ سرکاری ادارے ان طفیلیوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ورنہ یوں ہی تو پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے، پی ایس او سمیت تقریباً تمام قومی اداروں کا برا حال نہیں۔ آج کل طفیلیوں کی ایک اور قسم بھی مارکیٹ میں ہے یعنی ہمارے پرانے مجاہدین جنھیں عرف عام میں آج کل دہشت گرد کہا جاتا ہے۔

جی ہاں! ہمارے ہاں دہشت گردی بھی ایک بہت بڑا بزنس ہے جس سے بہت سے طفیلیے مستفید ہوتے ہیں۔ یوں تو ہمارے ہاں نیب، ایف آئی اے، پولیس اور سیکیورٹی کے نام سے درجنوں ادارے کام کر رہے ہیں جن کا مینڈٹ کچھ ہے اور وہ کرتے اس کے بالکل برعکس ہیں، کیونکہ اگر انھوں نے کام کرنا شروع کر دیا تو ان اداروں میں بیٹھے طفیلیوں کا دھندا بند ہو جائے گا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں طفیلیوں کی آپس میں کچھ ایسی ملی بھگت ہے کہ کوئی ان کا بال تک بانکا نہیں کر سکتا کہ طفیلیوں نے ہر سطح پر اپنی کارٹیل بنائی ہوئی ہیں۔

شوگر مافیا کی کارٹیل، سیمنٹ مافیا کی کارٹیل، تاجروں کی کارٹیل، بیوروکریٹس کی کارٹیل، سرکاری اداروں میں یونینز کی کارٹیل، سیاسی جماعتوں کی کارٹیل، وکیلوں کی کارٹیل، ججوں کی کارٹیل، ڈاکٹروں کی کارٹیل، مدرسوں کی کارٹیل، مذہبی جماعتوں کی کارٹیل، صحافیوں کی کارٹیل، جاگیرداروں کی کارٹیل، جرنیلوں کی کارٹیل۔ کارٹیل کے کسی ممبر کو تکلیف پہنچے تو پوری کارٹیل حرکت میں آجاتی ہے۔ ان طفیلیوں کی تمام کارٹیلز اپنے مشترکہ مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتیں۔

طفیلیے کسی قانون کو نہیں مانتے بلکہ قانون ان سے پناہ مانگتا ہے۔ گو طفیلیے بظاہر قانون کو مقدس تو مانتے ہیں مگر ایسے ہی جیسے ہماری اکثریت قرآن کو مقدس مانتی ہے اسی لیے اس کو چوم چاٹ کر غلاف میں رکھ دیا جاتا ہے ایسے ہی قانون کو بھی چوم چاٹ کر قانون کی کتابوں میں رکھ دیا جاتا ہے کہ انصاف تو ان طفیلیوں کی رکھیل ہے۔ طفیلیوں کی سب سے بڑی تعداد سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی ہے کہ یہاں ان کے پھلنے پھولنے کے لئے وزیروں، مشیروں اور دیگر عہدوں کی صورت میں وسیع چراگاہ میسر ہوتی ہے۔ طاقتور سیاسی طفیلیے قیمتی چراگاہوں کے مالک بن جاتے ہیں اور اپنی کئی نسلوں تک کو سنوار جاتے ہیں، جبکہ نسبتاً کمزور سیاسی طفیلیے بھی پلاٹوں، ملازمتوں، ٹھیکوں اور دیگر ذرائع سے خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ جوزف سوبرن (Joseph Sobran) کا قول ہمارے ان سیاسی طفیلیوں پر ثابت آتا ہے کہ

Politics is the conspiracy of the unproductive but organized against the productive but unorganized.

” یعنی سیاست غیر پیداواری لیکن منظم عناصر کا پیداواری لیکن غیر منظم عناصر کے خلاف سازش کا نام ہے۔“ ان طفیلیوں کے تدارک کے لئے اگرچہ نیب، ایف آئی اے، پولیس اور دیگر بہت سی لیبارٹریاں ہیں جہاں ان کے تدارک کے لئے ریسرچ کی جاتی ہے لیکن چونکہ ان لیبارٹریوں کے ”سائنس دانوں“ کا تقرر یہی طفیلیے کرتے ہیں تو اس لئے ابھی تک کوئی تریاق ایجاد نہ ہو سکا ہے۔ طفیلیوں کی ایک شاندار قسم دانشوروں کی بھی ہے جن کا کام معاشرے میں کنفیوژن پھیلا کر اعلی نسل کے طفیلیوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے اور انھیں اپنے اس کام کا خاطر خواہ وظیفہ، اعلی عہدے اور پلاٹ وغیرہ مل جاتے ہیں۔

طفیلیوں کا ایک ہی نعرہ ہے کہ سٹیٹس کو برقرار رہے، ان کی قوت، اختیارات، دولت اور اقتدار کو کوئی چیلنج نہ کرسکے، ”گندے“ بنگالیوں نے جب ایسی جسارت کرنا چاہی تو انھیں کچل کر رکھ دیا گیا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ان طفیلیوں کی موجودہ نسلیں اپنے آباء و اجداد کی بھی استاد ہیں کہ ان کا بس چلے تو پورا کھیت ایک ہی دن میں چٹ کر جائیں۔ ان طفیلیوں نے ملک کا حال اس گائے کی طرح کر دیا ہے جس کا دودھ تو ہر کوئی پینا چاہتا ہے لیکن اسے کوئی چارہ کھلانے پر رضامند نہیں۔ اعلی نسل کے طفیلیے یہاں سے صرف کھاتے اور کماتے ہیں جبکہ جمع دوبئی، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طفیلیہ عوام کہاں جائیں گے؟ لہٰذا وقت ہے کہ ہم اپنے ذاتی طفیلیہ پن سے نجات حاصل کریں، محنت پر یقین رکھیں، سچ اور جھوٹ میں تمیز کریں اور ڈائنا سور کی جسامت کے طفیلیوں سے نجات حاصل کریں کہ ہمیں تو گرین کارڈ نہیں ملنے والے، نہ ہی ہماری لندن دوبئی میں جائیدادیں ہیں اور نہ ہی سوئس اکاؤنٹس، ہمیں تو یہیں رہنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments