پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا


جدید ذرائع ابلاغ نے جہاں معلومات تک رسائی کو سہل بنا دیا ہے وہاں تہذیبی تصادم بھی مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے بد ظن کرنے کے لیے مستشرقین کا تیار کردہ متعصبانہ مواد ہر کس و ناکس کی دسترس میں ہے مزید بر آں فحاشی اور بے حیائی کا سامان بھی پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ مسلم نوجوان کی اخلاقیات و کردار کو جو خطرات آج لاحق ہیں وہ پہلے نہ تھے۔ ایسے میں جذبہ ایمانی سے سرشار کچھ لوگ آگے بڑھے اور انہی جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور اس کی ترویج کا بیڑا اٹھایا۔

اس ضمن میں روزانہ درجنوں پیغامات اسلامی تاریخ و ثقافت کے پرچار کے لیے تقریباً ہر کسی کو موصول ہوتے ہیں اور دو منٹ کی تحریر کے ذریعے عوام الناس کے قلوب و اذہان میں اخلاقیات کے وہ دروس انڈیلے جاتے ہیں جن کے لیے کبھی جمعہ کا خطبہ مخصوص تھا۔

انہی برقی مجاہدین کی محنت کی بدولت ہر شخص یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ ہارون الرشید کی سرگرمیاں صرف جعفر برمکی کے ساتھ داد عیش اڑانے تک محدود نہ تھیں۔ بلکہ وہ علم پرور خلیفہ ایک درد مند دل بھی رکھتا تھا اور رات کو گشت کرتے ہوئے اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوریاں لاد کر مفلسان بغداد کے گھر بھر دیتا تھا۔

سلطان مراد کے بارے انہی خاموش مجاہدین نے قوم کو بتایا کہ ایک ایسے شرابی کا جنازہ پڑھا جس کا جنازہ کثرت شراب نوشی کی وجہ کوئی پڑھنے کو تیار نہ تھا۔ لیکن سلطان مراد نے مع علما و زہاد اس کا جنازہ پڑھا کیونکہ سلطان مراد کو روحانی ذرائع سے خبر مل چکی تھی کہ یہ شخص شراب خانے میں موجود ساری شراب خرید کر بہا دیتا تھا تاکہ امت مسلمہ شراب پینے سے بچ جائے ( ایسے شخص کی عقل سلیم کی داد تو دینی ہی چاہیے ) ۔

محمود غزنوی وہ پہلا مسلمان بادشاہ تھا جس کی ذات پر غیر مسلم مورخین کی طرف سے کیے گئے انتہائی رکیک حملوں سے ہماری قوم اول اول آشنا ہوئی، لیکن سو سنار کی ایک لوہار کی۔ برقی مجاہدین نے آج سے سولہ سال پہلے انتہائی مہنگے ایس ایم ایس پیکج لگوا کر محمود غزنوی کے متعلق پھیلائے گئے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ محمود غزنوی جیسا منصف مزاج بادشاہ ہی لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کی آبرو ریزی کرنے والے اپنے بھانجے کو قتل کر سکتا تھا۔ حکمران طبقے میں موجود بد کرداروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے جس جذبہ ایمانی و شجاعت کی ضرورت پڑتی ہے تب وہ غزنی میں خال خال ہی تھا۔

پڑھنے والوں کے ذہن میں یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ اخلاقیات کی تبلیغ کیا خلفا و سلاطین کی مدح سرائی کے بغیر ممکن نہیں یا ان معدودے چند حضرات کے علاوہ اور کوئی شخص قابل ستائش نہ تھا؟ تو گزارش ہے کہ صرف انگریز ہی بیک وقت روایت پسند اور ترقی پسند نہیں ہو سکتے۔ ہم ان سے اس میدان میں کئی قدم آگے ہیں۔ ہم تو ہوا کا رخ بھانپ کر اڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں۔ جب افغانستان میں مثالی اسلامی دور تھا تو محمود غزنوی کی تاریخ سے پردہ اٹھا کر قوم کی ذہن سازی کی گئی۔

وہ دور گزر گیا تو خطہ عرب، جہاں ہمارا قبلہ و کعبہ ہے، سے تعلق رکھنے والے ہارون الرشید کے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ کیا گیا۔ اب جبکہ خطہ عرب پر کچھ ناعاقبت اندیشوں کے سائے منڈلا رہے ہیں اور امت کی نظریں ترکان عثمانیہ کی اولاد پر لگی ہیں تو سلطان مراد کے متعلق اوہام کا ازالہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ الحمدللہ ہمارے برقی مجاہدین صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ بدلتے عالمی حالات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر ممکن وسائل کو استعمال کرتے ہوئے عالم کفر کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments