قتل کے بعد کیا ہوا؟


پاکستان بند فائلوں کا ایک بڑا دفتر ہے، قائد اعظم کی ایمبولینس کو کیا ہوا تھا اس پر تو کبھی تحقیق کی ہی نہیں گئی، بعد میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ٹھیک ویسی ہی نمائشی انکوائری جیسی عموماً پاکستان میں دھول جھونکنے کے لئے رچائی جاتی ہے، مشرقی پاکستان الگ ہو گیا، سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کی پھر چاندی ہو گئی، بہت سوں نے کتابیں لکھیں، اور جسے کراچی کی سادہ زبان میں کہا جاتا ہے اپنے اپنے مطلب کی الٹی کی، جو کرنے والا کام نہیں تھا وہی کیا گیا، یعنی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ عوام تک پہنچاتے لیکن کسی کو بھی اس کمیشن رپورٹ شائع کرنے کا خیال نہ آیا۔

وہ تو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھارتی میڈیا نے شور مچایا تو پاکستانی حکومت نے اس کے کچھ حصے شائع کر دیے، مکمل نہیں شائع کی۔ کوئی مسئلہ نہیں یقیناً اس میں ملک کی بہتری ہوگی، لیکن بعد میں بھی تو شائع کی ورنہ پہلے کر دیتے۔

بے نظیر کے قتل کی سازش کو ہی مثال کے طور پر لے لیں، پہلے جائے وقوع کو دھو دیا گیا، پھر ایک ایک کر کے گواہ مارے گئے، کچھ کڑوے سچ ہیں، ایک تو جائے وقوع دھونے کی ایسی کیا جلدی تھی، پھر چشم دید گواہ تو بچائے جا سکتے تھے۔ اگلی حکومت کے دور میں گواہوں کو بھی مارا گیا اور دو الگ الگ تحقیقاتی کمیشن بھی بنے، ایک اقوام متحدہ کی زیر نگرانی، دوسر اسکاٹ لینڈ یارڈ کی زیر نگرانی۔ دونوں سے حاصل وصول شاید کرنا مقصود ہی نہیں تھا، ایک دو انتقال پر ملال ہوجائیں اس وطن عزیز کی تاریخ میں، بے نظیر کے قتل کے معاملے پر بھی کتابیں آئیں گی اور بیسٹ سیلر بن جائیں گی۔ پاکستان میں اس حوالے سے ایک آدھ کتاب پر بین لگ جائے گا، جو باہر خصوصاً بھارت، امریکا میں بیسٹ سیلنگ بک بن جائے گی، یوٹیوب پر انکشافات اور گواہوں کی لائن لگ جائے گی، آڈیو بھی کسی کو کہیں سے مل جائے گی، لیکن جو کمیشن بنے اس کی رپورٹ کبھی پبلک نہیں کی جائے گی۔

بے نظیر بھٹو اور لیاقت علی خان کے قتل میں مجھے کچھ یکساں معاملات نظر آتے ہیں، دونوں پر مٹی ڈالنے کی کوشش کرنے والے سرکاری بھائی لوگ نظر آئے، پھر افغانستان سے اس کا کوئی نہ کوئی تعلق رہا۔ لیاقت علی خان کے وقت سید اکبر افغان شہری ایک پستول کے ہمراہ سی آئی ڈی اہلکاروں کی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔ بھائی کتنی ہی جلدی تھی، پوچھ لیتے کون ہو، کہاں سے آئے ہو، لیکن سب کو لیاقت علی خان کا ہی انتظار تھا۔ وہ آئے تو ان کی حفاظت پر مامور افراد کی بھی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، شاید لیاقت علی خان کی شخصیت کی چکاچوند میں، واحد سید اکبر ہی چشمہ لگا کر آئے تھے، جو سامنے ہی تشریف فرما تھے۔ باآسانی اٹھے، پستول نکالی اور فائر کھول دیا، پھر فوراً سیکیورٹی پر اہلکاروں کو یاد آیا اوہو یہ جو اسٹیج پر صاحب گرے یہ تو ہماری ذمہ داری تھے، چلو اب ان پر حملہ کرنے والے کو ہی دھر لیتے ہیں۔

دھر لیا گیا، چلو، وہ کیا اگلتا، اس کو وہیں گولی مار دی گئی، پھر سسٹم حرکت میں آیا، سیدھا سادہ سا سوال ہے، جس نے سید اکبر کو مارا اس کو پکڑ لیتے جی سب انسپیکٹر شاہ کی بات کر رہا ہوں، تاریخ میں عام تفصیلات یہاں گم ہیں، لیکن اس کا ریکارڈ پبلک کرو تو ظالم کو کس کس نے کب کب ترقی دی تو کچھ شواہد تو آج بھی مل جائیں گے۔ میں تو پیدا نہیں ہوا تھا، یہی اخباری بیانات جاری کیے گئے ہوں گے ، قتل کی شفاف تحقیقات کرائیں گے، شہید کے مشن کو جاری رکھا جائے گا، قاتلوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے گا، پھر ایک معزز جج کے زیر سایہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہو گا۔

قتل کے بعد کیا ہوا

جسٹس منیر انکوائری کے حکم جو رپورٹ سامنے آئی اس کو ناصرف بیگم رعنا لیاقت علی خان کو مطمئن نہ کر سکی، بلکہ پاکستانی عوام نے بھی اس کو سرے سے مسترد کر دیا، لیاقت علی خان کے قتل کے تقریباً گیارہ مہینے بعد 26 اگست 1952 ء کو لاہور سے پشاور جانے والا رائل پاکستان ائر فورس کا برسٹل فریٹر رجسٹریشن/ سیرل نمبر G۔ 783 تھا، جہاز کھیوڑہ کے مقام گر کر تباہ ہوا اور 18 کے 18 مسافر جاں بحق ہو گئے۔ جان بحق ہونے والوں میں انوسٹی گیشن جنرل پولیس صاحبزادہ اعتزاز قابل ذکر ہیں، جن کے ہمراہ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات سے متعلق اہم دستاویز تھیں، جو تاریخ کے اوراق سے ہمیشہ کے لئے گم ہو گئیں۔

جہاز کے حوالے سے مزید جو تفصیلات سامنے آتی ہیں (لنک نمبر 1 ) ( لنک نمبر 2 ) جہاز کا ایک انجن فیل ہوا تھا۔ جہاز برسٹل فریٹل 170 ایک ٹرانسپورٹ طیارہ تھا، جو برطانوی کامن ویلتھ ممالک میں خاصی تعداد میں زیر استعمال رہا، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں ڈکوٹا جیسے طیارے کے متبادل کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ 1948 ء میں پاک فضائیہ کے فضائی بیڑے میں یہ برطانوی ساختہ طیارے شامل کیے گئے، پاکستان میں یہ اس طیارے کا دوسرا حادثہ تھا، اس سے قبل رائل پاکستان ائر فورس کے زیر استعمال فریٹر 14 ستمبر 1950 کو بھی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ طیارے میں کوئی خاص برائی مجھے نظر نہیں آتی، لیکن شاید قدرت کو یہی منظور تھا یا پھر شاید کچھ لوگوں کو لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات سے ضرور پریشانی تھی۔

اس حوالے سے تحقیقات کے دوران، بی بی سی اردو کے لیے میرے لئے نہایت محترم عقیل عباس جعفری کی تحقیقاتی رپورٹ میں بیگم رعنا لیاقت علی خان کے چھ سوالات کا حوالہ ملا، جو نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ یہ چھ سوال کیا تھے؟ (لنک نمبر 3 ) گویا کھلے اشارے ہیں، شوہر کی شہادت کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے لئے ان دو بیٹوں کی زندگی اہم ترین تھی، بیگم رعناء لیاقت علی خان، نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اہم سرکاری ذمے داریوں میں اپنا کردار نبھاتی رہیں یقیناً وہ ایک قابل شخصیت تھیں، شاید اپنے بیٹوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہی بیگم رعنا لیاقت علی خان کو خاموش رکھنے کے لئے اہم سرکاری پوزیشنز دی گئی تھیں۔

یہ میرا ذاتی خیال ہے، میں ان کی نیت پر سوال اٹھانے والا میں کوئی نہیں، وہ ایک ماں بھی تھیں یقینا، لیکن غور کریں تو وہ بھی مجبور نظر آتی ہیں، معذرت قبول ہو میں محض سوال ہی اٹھا سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ خاموش دیت ہی ہو قاتلوں کی جانب سے۔ قاتلوں کے خاندان والوں نے پینشن وصولی کی، کمال ہی ہو گیا۔ اس وقت ملکی حالات دیکھ کر پریشان ہوں کہیں پھر قتل کے داستان تو دہرائی نہیں جانے والی؟


لنک نمبر 1 https://www.baaa-acro.com/crash/crash-bristol-170-wayfarer-21p-khewra-18-killed
لنک نمبر 2 https://aviation-safety.net/database/record.php?id=19520826-1
لنک نمبر 3 https://www.youtube.com/watch?v=4WFMQtRN2tY
لنک نمبر 4 https://www.spottingmode.com/opad/fleet/pakistan/air_force/bristol_freighter/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments