آزاد کشمیر کا تاریخی ورثہ۔ گوردوارہ کیرتن گڑھ (علی بیگ)
تقسیم ہندسے قبل جموں وکشمیر ایک آزاد ریاست تھی، جس پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ ریاست جموں و کشمیر کی آبادی زیادہ تر مسلمان باشندوں پر مشتمل تھی، جب کہ صوبہ جموں میں زیادہ تر سکھ اور ہندو آباد تھے۔ مسلمان آبادی کی اکثریت ہونے کے باوجود ریاست میں ڈوگرہ خاندان کی حکومت تھی جن کے سربراہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے مبینہ طور پر برطانوی راج سے یہ ریاست پچھتر لاکھ نانک شاہی روپوں میں خریدی تھی۔ میرپور ریاست کا ایک بڑا اور امیر شہر تھا جس کی زیادہ تر آبادی سکھ اور ہندووں پر مشتمل تھی جب کہ مسلمان آبادی شہر کے گرد و نواح کے دیہات میں رہتی تھی۔ وادی میں ہندو، سکھوں اور مسلمانوں کی بہت سی عبادت گاہیں موجود تھیں۔ جس گاؤں میں جس مذہب کے لوگوں کی اکثریت تھیں، وہاں انہوں نے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر رکھیں تھیں، انہی میں سکھوں کا گوردوارہ کیرتن گڑھ تھا۔
اس گوردوارہ کا نام گاؤں کے نام کی مناسبت سے کیرتن گڑھ رکھا گیا تھا۔ تقسیم کے بعد اس گاؤں کا نام تبدیل کر کے علی بیگ رکھا گیا۔ علی بیگ (کیرتن گڑھ) نہر اپر جہلم سے پانچ چھ سو گز مشرق کی طرف ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا گاؤں تھا جس میں مسلمان آبادی کی اکثریت تھی۔ سکھ اور ہندو بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ کیرتن گڑھ کے باسی سکھ اور ہندو خاندان زیادہ امیر اور جائیداد کے مالک تھے۔ جب کہ مسلمان پیشہ کے لحاظ سے کسان، لوہارو بڑھئی، مستری اور چمڑے کا کام کرنے والے تھے۔ گاؤں کے کچھ افراد برطانوی راج کی فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ گاؤں کے کچھ رہائشی گاؤں سے دو میل دور برطانوی راج کے علاقوں سرائے عالمگیر اور جہلم میں بھی کام کرتے تھے۔ گاؤں میں مسلمانوں کے مکان زیادہ تر کچے، جبکہ ہندو اور سکھوں کے مکان پختہ اینٹوں سے بنے ہوئے تھے۔
کیرتن گڑھ گاؤں میں سب سے امیر ایک ہندو کندن لال تھا۔ اس کی دو منزلہ ایک بڑی حویلی تھی۔ گاؤں کے رہائشی ایک مذہبی اور متمول سکھ سنت سندر سنگھ نے 1901 ء میں گاؤں میں کیرتن گڑھ کے نام سے بہت بڑا دو منزلہ گوردوارہ تعمیر کروایا۔ سنت سندر سنگھ سکھوں کا ایک مذہبی پیشوا تھا۔ میرپور اور کیرتن گڑھ کے ملحقہ علاقوں کے علاوہ نزدیکی پنجاب کے اضلاع جہلم اور گجرات کے سکھ بھی اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ اس نے زندگی بھر اپنے لوگوں کی لوگوں کی بہت خدمت کی۔ گوردوارے کی تعمیر میں گاؤں کے رہائشیوں کے علاوہ نزدیکی گاؤں کلری، گورا نکہ، کموترہ اور میرپور، سرائے عالمگیر، بھمبر کی سکھ آبادی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور کافی مالی مدد کی۔
گورودروارہ کی عمارت کے گرد چار دیواری تعمیر کی گئی۔ گوردوارے میں داخل ہونے کے لئے بہت بڑا دروازہ تعمیر کیا گیا جس میں لکڑی کے بھاری کواڑ نصب کیے گئے۔ اس زمانے کی تعمیر ات کے رواج کے مطابق مرکزی بیرونی دروازے پر بڑی محراب بنائی گئی۔ بیرونی مرکزی دروازے سے گوردوارے کے اندر داخل ہوں، تو ایک بڑا سا صحن نظر آتا ہے۔ سامنے ایک جبوترے بنا ہوا ہے، اس چبوترے پر ایک دو منزلہ محراب دار دروازہ بنا ہوا ہے۔ دروازے کی محراب پر گورمکھی میں ”گوردوارہ کیرتن گڑھ“ کے الفاظ سیمنٹ سے ابھرے ہوئے حروف میں لکھے گئے ہیں۔
اس کے دونوں اطراف میں ”دھن گورو نانک“ کے الفاظ کنندہ ہیں۔ چبوترے تک پہنچنے کے لئے اینٹوں سے آٹھ سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں جو سفید سنگ مر مر سے مزین ہیں۔ صحن کے بائیں جانب بھی کافی کھلا حصہ ہے جو کسی زمانے میں لوگوں کے بیٹھنے کے استعمال کیا جاتا تھا۔ بائیں جانب جنوب کی طرف ایک تہہ خانہ بنا ہے، جس میں دو بڑے بڑے ہال ہیں، جو کبھی گوردوارے میں آنے والے یاتریوں اور خالصہ سکول میں پڑھنے والے کو کھانا کھلانے میں کام آتے تھے۔
اس کے ساتھ ایک باورچی خانہ اور اناج رکھنے کے لئے ایک بڑا کمرہ بنا ہوا تھا۔ صحن میں سامنے والے چبوترے کی سیڑھیوں کے بائیں اور دائیں جانب دو منزلہ دو دو کمرے بنے ہوئے ہیں۔ جو باہر سے آنے والے لو گوں کی رہائش یا کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ صحن میں چبوترے کی سب سے نیچے والی سیڑھی سے پہلے زمین پر سنگ مر مر کی چھ یا سات ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ ان ٹائلوں پر گوردوارے کی خدمت کرنے والے افراد کے نام کنندہ ہے۔
ان میں زیادہ تر ٹائلیں اب ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ سفید رنگ کے سنگ مر مر کی ایک ٹائل پر ”2010 بکرمی میں سردار گوپال سنگھ نے 25 روپے کی سیوا کرائی ہے“ کی کنندہ عبارت اب بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ دروازے کے دائیں اور بائیں طرف تعمیر کمروں کے سامنے مشرق کی سمت تقریباً دس فٹ خالی جگہ ہے اور اس کے سامنے درمیان میں گوردوارے کی عمارت کا داخلی دروازہ ہے۔ گوردوارہ کی عمارت مستطیل شکل کی ہے۔
اس دروازے سے گوردوارے کے اندر داخل ہوں تو ایک مستطیل نما ایک بہت بڑا ہال ہے۔ اس ہال کے دائیں اور بائیں دونوں اطراف کی دیواروں میں بڑی بڑی قد آدم محراب دار کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں۔ اس منزل کی چھت درمیان سے کھلی ہے اور اطراف میں برامدہ نما چھت ڈالی گئی ہے۔ چھت میں لوہے کے گارڈر اور ٹی آئرن ڈال کر ان پر اینٹیں لگا کر سیمنٹ سے پلستر کیا گیا ہے۔ پہلی نظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عمارت پر کنکریٹ کی چھت ڈالی گئی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
پہلی منزل کے درمیان میں چھت کو سہارا دینے کے لئے اینٹوں اور سیمنٹ سے ستون بنائے گئے ہیں، جن پر بہت خوشنما محراب بنائے گئے ہیں۔ دوسری منزل پر جانے کے لئے داخلی دروازے کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ اوپر والی منزل بھی ایک ہال پر مشتمل ہے جس کے فرش پر درمیان میں جگہ خالی ہے۔ اس منزل کی چھت مکمل ہے جس پر بھی نیچے والی منزل کی طرح اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے کے ٹی آئرن سے پختہ چھت ڈالی گئی ہے۔ اس منزل میں مشرق کی جانب سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کے رکھنے کے لئے محراب دار خوبصورت ٹائلوں سے مزین ایک چبوترہ نما جگہ بنائی گئی تھی۔
اس ہال کی دیواروں پر جگہ جگہ ”وائے گورو جی اور دھن گرودیو“ کے الفاظ ابھرے ہوئے حروف میں لکھے گئے ہیں۔ پہلی منزل کی طرح اس منزل کی بھی دائیں اور بائیں دیواروں میں خوبصورت محراب دار کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ اس منزل کا فرش بھی کالے اور سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا ہے۔ گوردوارے کی چھت پر تقریباً ً چھ فٹ مربع کی آٹھ فٹ اونچی دیواروں پر ایک گنبد تعمیر کیا گیا ہے۔ چھت تک جانے کے لئے اس منزل میں مغربی دیوار کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ کسی زمانہ میں یہ اس علاقہ کی سب سے بڑی اور پرشکوہ عمارت تھی جو دور دور سے نظر آتی تھی۔
گورودوارے کی پہلی منزل کی جنوب والی دیوار پر سنگ مر مر کی چند ٹائلیں نصب ہیں جن پر گورمکھی میں تحریریں کنندہ ہیں۔ میں نے برطانیہ میں مقیم اپنے ایک سکھ دوست سے کچھ ٹائلوں پر لکھی ہوئی عبارت کا ترجمہ کروایا تھا۔ ان میں سے چند ٹائلوں کی تحریریں۔
1 ) ۔ گورودوارہ میں استعمال ہونے والا سارا سنگ مرمر، سری مہنگا سنگھ، سری کیول سنگھ، سری کرتار سنگھ سپتران بابو گردت سنگھ، گاؤں باہروال ضلع
گجرات کی طرف سے دان کیا گیا۔ تاریخ۔ 10 ہاڑ 1997 بکرمی
2) ۔ گورودوارہ میں استعمال ہونے والی ساری ٹائلیں مائی لاجونتی اور کاکا گورمکھ سنگھ میرپور والوں نے دان کیں۔
3) ۔ مائی ویراں دیوی نے اپنے سورگباشی خاوند سردار سنت سنگھ کی طرف سے گیانی سوہن سنگھ کی نواسی کے ذریعے سیوا کرائی۔
بتاریخ۔ 3 وساکھ 2001 بکرمی۔
گورودوارے کی عمارت کے دائیں جانب ایک قطار میں اندازہ ً تیس چالیس کمرے بنے ہوئے تھے۔ بال گپتہ نے اپنی کتاب میں ان کمروں کی تعداد ایک سو لکھی ہے جو جگہ کے تناسب سے صحیح نہیں لگتی۔ ان کمروں میں ایک خالصہ مڈل سکول قائم تھا جو سنت سندر سنگھ نے ہی بنوایا تھا۔ سکھ کمیونٹی کے نزدیکی گاؤں گورا نکہ، کموترہ اور کلری کے علاوہ چیچیاں، جہلم اور دینہ سے سکھ برادری کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے۔ دور سے آنے والے بچوں کے لئے قیام اور طعام کا بھی بندوبست تھا۔ ان کمروں کے سامنے پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب بنا ہوا تھا۔ تقسیم سے پہلے یہ کمرے گورودوارہ میں مختلف علاقوں سے آنے والے سکھ یاتریوں کی رہائش کے لئے بھی استعمال ہوتے تھے۔
تقسیم ہند کی شورش اور مہاراجہ کی طرف سے ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کی وجہ سے ریاستی مسلمانوں نے مہاراج کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے لئے جنگ شروع کر دی تھی۔ پنجاب میں سکھوں کے مظالم کی داستانیں سن کر مقامی مسلمان آبادی نے مہاراجہ کی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں۔ کچھ دیر تو مہاراجہ کی فوج نے ان کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کی اور گوردوارہ کی حفاظت کی لیکن مہاراجہ کی فوج زیادہ دیر گوردوارے کی حفاظت نہ کر سکی اور گوردوارے کو چھوڑ کر جموں کی طرف چلی گئی۔ اس پر مسلمان بلوائیوں نے گاؤں پر حملہ کر کے سکھوں اور ہندووں کے گھروں کو لوٹ لیا اور گورودوارے سے بھی سامان لوٹ کر گورودوارے کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے لکڑی کی کھڑکیاں اور دروازے جل گئے۔ اس حملہ میں گرودوارے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔
کیرتن گڑھ گورودوارے کی ایک بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ تقسیم ہند کے شورش کے وقت میرپور شہر پر مسلمان بلوائیوں کے حملے کے نتیجے میں یہاں سے بے گھر ہونے والے ہندو اور سکھ خاندانوں کے لئے اس گورودوارے کو ایک ریفیوجی کیمپ میں تبدیل کیا گیا۔ تقریباً پچیس سو کے قریب ہندو اور سکھ مردو خواتین اور بچے یہاں چھ سات ماہ پناہ گزین رہے جنہیں بعد میں رریڈ کراس کی نگرانی میں ہندوستان روانہ کیا گیا۔ اس کیمپ میں رہنے والے ایک ہندو بال گپتہ نے اپنی کتاب Forgotten۔ Atrocities۔ Memoirs of a Survivor of the 1947
اس کیمپ کے متعلق لکھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پانچ ہزار سے زیادہ ہندو اور سکھ مرد و خواتین اور بچے اس کیمپ میں پناہ گزین ہوئے جن میں سے صرف سولہ سترہ سو افراد زندہ بچے۔ باقی ماندہ افراد کو مسلمانوں نے ہلاک کر دیا یا وہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے چل بسے۔ میرے خیال میں اس کتاب میں کچھ مبالغہ آرائی بھی کی گئی ہے کیونکہ اسی کیمپ کے ہندوستان پہنچنے والے ڈاکٹر کلویر سنگھ چار سال پہلے شائع ہونے والی اپنی کتاب
Embers the Beginning and Ember the end of Mirpur
میں لکھتے ہیں کہ تقریباً پچیس سو کے قریب ہندو سکھ مرد خواتین اور بچے انیس سو سینتالیس کے نومبر کے آخر میں اس کیمپ میں پناہ گزین ہوئے جن میں سے سولہ سترہ سو لوگ ہی زندہ بچے جنہیں ریڈ کراس نے ہندوستان کے حوالہ کیا۔ باقی لوگ موسم کی شدت اور بیماری کی وجہ سے چل بسے اور کچھ افراد کو مسلمانوں نے قتل کر دیا۔ یہ دونوں حضرات اس گورودوارے میں قیام کے دوران آٹھ دس سال کی عمر کے بچے تھے۔ کتاب میں دی گئی ان کی بہت سی معلومات مصدقہ نہیں ہیں اور ادھر ادھر سے اکٹھی کی گئی ہیں۔ کیرتن گڑھ کے اس گورودوارے کی تاریخ پر آج بھی ایک مکمل تحقیق کی ضرورت ہے تا کہ صحیح اور واضح صورت حال قارئین کے سامنے لائی جا سکے۔
اس وقت گورودوارہ کی عمارت متروکہ املاک بورڈ کی ملکیت ہے۔ محکمہ کی طرف سے عرصہ دراز سے اس عمارت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس دسمبر کے پہلے ہفتہ کی ایک روشن دوپہر راقم نے برطانیہ سے آئے ہوئے اپنے عزیز ممتاز صحافی ساجد یوسف، برطانوی صحافی، مصنف اور ٹی وی اینکر شمس الرحمن اور مہربان دوست شوکت مجید ملک ریٹائرڈ سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر کے ہمراہ گورودوارے کی تاریخی اہمیت جاننے کے لئے علی بیگ میں واقع اس عمارت کا دورہ کیا۔
عمارت انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔ خالصہ سکول کی عمارت کے سبھی کمرے مسمار کر دیے گئے ہیں اور ان کے کچھ حصے پر گاؤں کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہوا ہے۔ گورودوارے کی جنوب میں واقع باورچی خانہ کے صحن والی طرف جگہ کے کچھ حصہ پر پڑوسیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ تقسیم کی شورش میں اس عمارت کے کھڑکیاں اور دروازے لوگ اکھاڑ کر لے گئے تھے اور عمارت کو آگ لگا دی تھی۔ بغیر کھڑکیوں اور دروازوں کے اس عمارت پر موسم کی تبدیلیوں نے بڑا اثر ڈالا ہے۔
بارشوں کی وجہ سے بیرونی دیواروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دائیں طرف والی بیرونی دیوار بہت پہلے گر گئی تھی جس کی اینٹیں بھی لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ خالصہ سکول کی عمارت کی کوئی نشانی باقی نہیں رہی۔ چھت پر بنا ہوا گنبد زلزلے کی وجہ سے گر گیا ہے۔ اگر حالات یہ رہے تو یہ تاریخی عمارت بھی بہت جلد گر جائے گی۔ آزاد کشمیر کے ریٹائرڈ جسٹس قاضی عبدالغفور نے اپنی خود نوشت میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تقسیم سے پہلے بہت سے سکول اپنے طالب علموں کو گورودوارہ کیرتن گڑھ کو دکھانے لے کر جاتے تھے۔ اگر متروکہ املاک بورڈ کے ارباب بست اور سیاحت سے متعلق محکمے اس عمارت پر توجہ دے کر اس کی ضروری مرمت کا اہتمام کریں اور اس کو پہلے والی شکل میں لانے کی ممکنہ کوشش کریں تو سکھ کمیونٹی کی بڑی تعداد اپنی اس مقدس جگہ کو دیکھنے آ اور بیرن ملک سے آئے ہوئے سیاح یہاں آ سکتے ہیں۔
- پچوانہ کی جنت۔ ایک خوبصورت سفر کا آغاز - 26/03/2023
- میری زندگی کے ساتھی، میرے ہم سفر - 21/03/2023
- آزاد کشمیر کا تاریخی ورثہ۔ گوردوارہ کیرتن گڑھ (علی بیگ) - 29/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).