رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان اس وقت ایک سخت معاشی بحران کی گرفت میں ہے اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید ہم جلد یا تو اپنے قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے یا ایک دیوالیہ معیشت بننے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے شاید پاکستان میں بھی سری لنکا جیسے مناظر دیکھنے میں آئیں۔

اگر ہم بین الاقوامی قرضے وقت پر ادا نہ کرسکے تو ہمارے مالیاتی نظام اور تجارت کے لیے خوفناک نتائج پیدا ہوں گے۔ ان خوفناک نتائج کی صورت میں ہماری معیشت انتہائی پستی کا سفر شروع کرے گی جس سے نہ صرف ہماری قومی سلامتی خطرے میں پڑے گی بلکہ مزید غربت کی طرف ایک ڈراؤنا سفر شروع ہو جائے گا۔ قرضوں کی غیر ادائیگی کی صورت میں ہمیں مزید قرضے فوراً بند کر دیے جائیں گے اور ہمارے بین الاقوامی اثاثے بھی خطرات کا شکار ہو جائیں گے جیسا کہ 2012 میں گھانا میں ایک ارجنٹائنی بحری تربیتی جہاز پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔

اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہمیں قرض خواہوں سے قرضے کی ادائیگی کو موخر کرنے کے لیے مذاکرات کرنے ہوں گے جس سے ہماری معاشی آزادی مزید خطرات کا شکار ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں صرف امید کی جا سکتی ہے کہ بین الاقوامی قرض خواہ ہمارا ایٹمی ملک ہونے اور خطے میں اہم مقام کی وجہ سے شاید زیادہ سختی کا مظاہرہ نہ کریں اور ہمارے قرضوں کی ادائیگیوں میں تبدیلیوں پر رضامند ہو جائیں مگر وہ یقیناً اس کی ایک بھاری قیمت ضرور مانگیں گے جس کی وجہ سے مہنگائی میں بدترین اضافہ اور ہمارے دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں شدید کمی کرنی پڑے۔ ان اقدامات سے ملک کی مجموعی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہو گی۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا صرف بیرونی قرضہ اس وقت 139 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اگر ہم اس میں مقامی قرضے شامل کر لیں تو یہ تقریباً 274 ارب ڈالر کے قریب پہنچ جاتا ہے جو تقریباً ہماری سالانہ ملکی پیداوار کے برابر ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے دفاعی اخراجات اور دیگر ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات مزید قرض لے کر پورے کرتے ہیں۔

پاکستان نے موجودہ مالی سال میں 21 ارب ڈالر بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی میں ادا کرنے ہیں اور پچھلے مالی سال میں تقریباً 19 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی میں استعمال کیے گئے۔ اگر ہم نومبر 2022 سے اکتوبر 2023 کے اعدا دو شمار دیکھیں تو یہ ادائیگیاں تقریباً 27 ارب ڈالر کے قریب پہنچ جائیں گی۔ اس طرح ان قرضوں کی سالانہ ادائیگیوں کی مالیت تقریباً ہمارے پورے سال کی برآمدات کے قریب پہنچی جا رہی ہیں۔

ہمارے زیادہ تر قرضے پرانے قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو رہے ہیں یا ہمارے تجارتی اور مالی خسارے کی نذر ہو جاتے ہیں اور یہ وحشت ناک سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک ہم اپنے اخراجات میں توازن نہیں لائیں گے۔ اگر ہم جاری غیر ترقیاتی اخراجات پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ ہمیں حالات کی سنگینی کا ابھی تک احساس نہیں ہوا ہے۔ اسلام آباد میں دو سیکٹروں پر محیط پرتعیش نیا جی ایچ کیو اس بے حسی کی واضح مثال ہے۔ معاشی حالات کی ابتری کے باوجود اس میگا پروجیکٹ پر کام زور و شور سے جاری ہے۔ اس میں سڑکوں، دفتری، تعلیمی اور رہائشی عمارتوں کا وسیع جال تیز رفتاری سے تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ راولپنڈی میں موجود وسیع و عریض جی ایچ کیو کی موجودگی میں کیا ہمارے قلیل قیمتی قومی ذرائع کا یہ زیاں ضروری تھا؟

سیاسی جماعتوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشی ابتری ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے اور ان خطرناک حالات کے باوجود وقت سے پہلے انتخابات پر بھاری رقم ضائع کرنے میں انہیں کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح اپنے وفاداروں کو نام نہاد ترقیاتی منصوبوں پر بے تحاشا پیسے دیے جا رہے ہیں۔ انتخابات جیتنے کے لیے غیر ضروری طور پر نئے اضلاع بنائے جا رہے ہیں ہیں جن سے غیر ضروری انتظامی اخراجات میں مزید اضافہ ہو گا۔

ریاست مدینہ کے داعی سابق وزیراعظم نے دو صوبوں کی پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں کو پچھلے نو مہینوں سے اپنی حفاظت پر مامور رکھا ہوا ہے اور انہیں اس مد میں روزانہ کی بنیاد پر صوبائی خزانوں کے کروڑوں روپے کے ضائع ہونے کی کوئی پروا نہیں۔

اس مسلسل معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کا ایک وسیع البنیاد سلسلہ شروع کیا جائے جس سے کوئی ادارہ بھی مبرا نہ ہو۔ ان اصلاحات سے ہمارے حالات فوراً تو درست نہیں ہوں گے لیکن یہ ایک صحیح سمت میں پہلا قدم ہو گا۔ ہمیں روایتی طریقوں سے ہٹ کر معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اور قرضوں کی دلدل سے نکلنے کے لیے جدت پر مبنی نئے طریقہ کار ڈھونڈنے ہوں گے۔

پہلے قدم کے طور پر ہمیں اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہائی ٹیک برآمدات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری لیبر فورس دن بھر محنت کرنے کے بعد بھی وہ مصنوعات نہیں بنا پاتیں جو ہماری برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں۔ اس کے مقابلے میں اگر جنوبی کوریا کی مثال دیکھیں تو ان کی تربیت یافتہ ہنر مند لیبر فورس انہی گھنٹوں میں ہم سے بدرجہا قیمتی مصنوعات مثلاً سیمی کنڈکٹر تیار کر رہی ہوتی ہے جس سے ان کی برآمدات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

ہمارے ہائی ٹیک کے اس سفر میں شاید شروع میں ہماری درآمدات میں کچھ دیر کے لیے اضافہ تو ہو گا مگر چند ہی برسوں میں یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ یہ تبدیلی ہائی ٹیک کے میدان میں زیادہ بیرونی سرمایہ کاری سے لائی جا سکتی ہے اگر ہم معیشت میں ہائی ٹیک دوست ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس تبدیلی کی ابتدا کرنے کے لیے لیے ہمیں اپنی معیشت کو دانش پر مبنی معیشت (Knowledge Economy) میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی جس میں آبادی کو ہنر سیکھنے کی طرف لے جانا ہو گا۔ ہمارے موجودہ ہنر سکھانے والے تربیتی ادارے اس وقت ایک سال میں صرف پانچ لاکھ لوگوں کو کوئی ہنر سکھانے کی استطاعت رکھتے ہیں جو ہماری بڑھتی ہوئی آبادی اور اس میں نوجوان کی کثیر تعداد کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو جنگی بنیادوں پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ طویل المدتی تبدیلی ہو گی اور اس میں جلدی سے نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے مگر یہ ہماری معیشت کو ایک درست راستے پر ڈال سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنی آبادی کے اضافے کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ آبادی کے بڑھنے کے تناسب کی وجہ سے کچھ ماہرین معاشیات کے مطابق ہمیں صرف بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ہر روز ایک ہزار نئے ہائی سکول بنانے کی ضرورت ہے اور اس سے دگنے پرائمری اور سیکنڈری سکول چاہیں جس کی ہماری کمزور معیشت ہرگز اجازت نہیں دیتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی موجودہ شرح کی وجہ سے اگر ہم 3.5 فیصد بھی سالانہ ترقی کریں تو حقیقی طور پر یہ صرف صفر ترقی ہوتی ہے۔

اس راستے پر کامیابی سے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سول سروس میں بھی اصلاحات لائی جائیں جو ابھی بھی نو آبادیاتی نظام کے تحت کی انتظامیہ کی طرح کام کر رہی ہے۔ ان اصلاحات کا مرکز دانش پر مبنی معیشت کو آگے چلانا ہونا چاہیے اور اس اہم انتظامی ستون کو اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے تربیت دینا ضروری ہے۔

قرضوں کی لعنت سے بچنے کے لیے اور دانش پر مبنی معیشت قائم کرنا ایک طویل اور کٹھن سفر ہے، لیکن اگر ہم نے قرضوں کے اس خوفناک شکنجے سے نکلنا ہے اور ایک جدید پائیدار معیشت کی بنیاد رکھنا ہے تو ہمیں آج نہیں کل سے ہی ان اقدامات کے بارے میں غور کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments